جتھے ہووے پتر جمال

سرما کے تین ماہ میں گیس کی بندش کا منتر پھونکنے کے بعد قوم کو بجلی کے تقسیم کار کمپنیوں کی ...

FAISALABAD/BHAKKAR/ RAHIM YAR KHAN:
سرما کے تین ماہ میں گیس کی بندش کا منتر پھونکنے کے بعد قوم کو بجلی کے تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری کی مبارک خبر سنا دی گئی ہے۔ تبادلوں کے بعد جو کام حکومت کا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے وہ نج کاری ہے۔ تعلیم سے لے کر حکومت کو ''ذا تی بوجھ'' محسوس ہونے والے ہر سرکاری ادارے سے گویا چڑ سی ہے، حکومتی ارادوں کو دیکھتے، بھاپنتے اغلب خیال یہی قائم کیا جا سکتا ہے کہ خالصتاً عوامی اور جمہوری حکومت کا بس چلے تو پوری قوم کو ''نجکاروں'' کے حوالے کر کے خود مزے سے چند فیصد کی ریونیو پر اپنے دن ٹپائے۔ کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے حکمران آخر ہر ادارے کو کیوں ''تاجرانہ ذہن اور فہم'' کی نظر سے دیکھتے اور تولتے ہیں؟ آخر ہر ادارے کی فلاح نج کاری سے ہی کیوں وابستہ کیے بیٹھے ہیں؟ ذرا عقل سلیم کے گھوڑے کو زحمت دیجیے۔

حکومت کے کنٹرول میں ہو کر بجلی کی قیمتیں آسمان بلکہ ساتویں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اگر بجلی کے تقسیم کار کمپنیوں کو ''برائے فروخت'' کر دیا گیا، اس کے بعد ملک میں بجلی ہو گی لیکن بجلی کے صارفین ندارد ہوں گے۔ وجہ یہ کہ بڑے پیٹوں نے بجلی کو غریب عوام کی پہنچ سے کوسوں دور کر دینا ہے۔ کون سمجھائے ارباب ظاہر کو کہ ریاست ''ماں'' اور حکومت ''مائی باپ'' ہوا کرتی ہے، لیکن ہر حکومت اقتدار میں آ کر اپنی اس ذمے داری کو بھول بھال جاتی ہے اور قوم کی چمڑی اتارنے کو فرض عین سمجھ لیتی ہے۔ موجودہ اور سابق حکومتوں کے رویوں اور پالیسیوں میں کوئی ایک فرق تو ڈھونڈ نکالیے۔

سابق ادوار کی پالیسیوں کو من و عن اپنا کر قوم کو مزید آگ میں جھونکا جا رہا ہے۔ بجلی تقسیم کرنے کے اداروں کو بیچ دیجیے، آئل اینڈ گیس کی نج کاری کے لیے حکومت پر تولے بیٹھی ہے، پاکستان اسٹیل ملز سے ''جان چھڑائی'' کی منزل بس دو گام کی بات ہے۔ پی آئی اے سے دامن چھڑا کر اسے نجی ہاتھوں میں تھمانے کی سبیل سنجیدگی سے عمل کی سیڑھی چڑھ رہی ہے۔ تعلیمی نظام جیسے ملک و قوم کی نظریات کی آبیاری کرنے والے شعبے کو مادیت پرستی اور زر پرستی کی نذر کرنے کی تیاریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان سب پالیسیوں کو کھنگال لیں، ان میں آپ کو عوام اور عوامی مفاد اور سکھ نام کی رتی بھر گنجائش ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔


کیا عوام نے اپنی مشکلات میں اضافہ کو ''دوبالا'' کرنے کے لیے حکمرانوں کو ووٹ دیے تھے؟ گڈ گورننس اور عوام کی فلاح کی ''تختی'' لگا کر ہر پالیسی کو حکومتی زعما پالش کرنے میں لگے ہیں۔ دوسری جانب ''شوگر مافیا'' کو حکومتی سطح پر نوازنے کے لیے حیلے بہانے جاری ہیں کہ شوگر مافیا کے مہربانوں کا تعلق ''سیاسی عزیز'' سے ہے۔

حضور! بجلی کی مختلف تقسیم کار کمپنیوں کو فروخت کر کے آ پ کے تو مزے ہو جائیں گے۔ لیکن غریب عوام کی گردن تو ساہوکاروں کی چھری تلے آ جائے گی، آئل اینڈ گیس کی نج کاری کر کے آپ کے ''کلاس فیلوز'' مالا مال اور منافع میں ''نہال'' ہو جائیں گے لیکن غریب کا چولہا تو ہمیشہ کے لیے بجھ جائے گا۔ مسائل کے درماں عوام کے ساتھ ''ظالم بادشاہ'' والا سلوک ترک کیجیے۔ عوام کے لیے بادشاہ بننے کے بجائے عوام کے خادم اور دکھ درد کا ساتھی بن کر فیصلے کیجیے۔ سرکاری اداروں کی نج کاری سے جہاں ان اداروں سے وابستہ عوامی مفاد کا بٹا گول ہو جائے گا، وہیں ان اداروں کے ذریعے لاکھوں کے حساب سے وابستہ افراد کے روزگار کو بھی ''لات'' لگ جائے گی۔ دوسری جانب نجی شعبے میں روزگار اور وہ بھی انسانی اخلاقیات کے مطابق، کہاں ہے؟ نجی شعبے میں جو مرد و خواتین نوکریاں کر رہے ہیں کبھی ان کی طرز معاشرت جانچنے کی کوشش کی ہے؟ جن سرکاری اداروں کی نج کاری کے لیے پر تولے جا رہے ہیں۔

یہ تمام کے تمام سرکاری ادارے براہ راست عوام کے مفاد سے متعلقہ ہیں، اگر ان اداروں کو بیچا گیا تو براہ راست عوام کے مفاد کو زک پہنچے گی۔ اور سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ یہ حکومتی سرپرستی میں بھی خود کفیل بلکہ منافع بخش ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر حکومت صرف اتنی کرم نوازی کر لے کہ ان اداروں سے اپنا ''سیاسی ہاتھ'' نکال دے۔ لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی فرصت سے عاری حکومت غریب عوام کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کے درپے ہے۔ عوام محکمہ مال کی وجہ سے ''وبال'' میں ہیں، لیکن حکومت محکمہ مال کی نج کاری کیوں نہیں کرتی؟ اس لیے کہ وہاں سے آپ کے جلسوں جلوسوں کے اخراجات پورے ہوتے ہیں، اس لیے کہ محکمہ مال کے اہل کار اور افسران آپ کی حکومت کے ''شاہ زادوں'' کی مالی فرمائشیں پوری کرتے ہیں۔

ان اداروں کی نج کاری کا نام کیوں نہیں لیا جاتا، جس سے سیاسی خانوادوں اور حکومتی شہزادوں کے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ چھری پھیرنی ہے تو کامل انصاف سے بلا تخصیص و تفریق سب کی گردنوں پر پھیریے۔ حکومتی سطح پر کرپشن کی وبا کل بھی عام تھی اور آج بھی اسی ''تواتر خمسہ'' سے کرپشن کا بازار گرم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کل کان کو سیدھے ہاتھ سے پکڑا جاتا تھا اور آج کان کو الٹے ہاتھ سے پکڑا جا رہا ہے۔ لے دے کر طریقہ واردات کے فرق کے سوا ''اوپر'' کی سطح پر وہی کچھ ہو رہا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارا ''بالائی طبقہ'' کرنے کا عادی اور عوام سہنے کے عادی ہیں۔ کل بھی ''جتھے پتر ہووے جمال'' کا فارمولا لاگو تھا اور آج بھی جہاں ''جمال پتر'' کا مفاد ہو اس سے آنکھیں پھیر دی جاتی ہیں یا پھر نیچے کر دی جاتی ہیں۔ قوم کی حالت تب ہی سدھر سکتی ہے جب حکمران ''پتر جمال'' کی طرح عوام کے مفادات اور امنگوں کو بھی اسی طرح عزیز رکھنے کا وتیرہ اپنا لیں۔
Load Next Story