جائیں تو جائیں کہاں

ایک چینی فلسفی کہتا ہے ’’جب کوئی فرد ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر جا رہا ہو تو اس کو...


Jabbar Jaffer November 06, 2013

ایک چینی فلسفی کہتا ہے ''جب کوئی فرد ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر جا رہا ہو تو اس کو چاہیے کہ راستے میں بڑا ہو یا چھوٹا، جو بھی ملے اس سے جھک کر ملتا جائے کیونکہ اگر خدانخواستہ اوپر جا کر پیر پِھسلا اور قلابازیاں کھاتا ہوا واپس آنا پڑا تو راستے میں یہی لوگ ملیں گے۔'' جوں جوں امریکا کے افغانستان سے ''رخصتی'' کے دن قریب آ رہے ہیں امریکا افغانستان اور پاکستان کی سیاسی، سفارتی اور صنعتی سر گرمیوں میں تیزی آ رہی ہے، یہ وہ رخصتی نہیں ہے جس کو سن کر دلہا کی باچھیں کھل جاتی ہے بلکہ وہ رخصتی ہے جس کو سوچ کر ہی گھگھی بن جاتی ہے کیونکہ یہ سارا عمل گرامر آف ایسی تیسی کے مطابق مکمل ہو گا۔

اٹھارہ ارب ڈالر کا استعمال شدہ فوجی تام جھام افغانستان سے نکل کر کراچی آنے تک راستے میں لاتعداد نازک مقامات آتے ہیں، آخری کنٹینر کراچی سے نکلنے تک امریکا کو جن کے تعاون کی ضرورت ہے، پہلے نمبر پر طالبان آتے ہیں، جو امریکا کی فرمائش پر پاکستان نے تیار کر کے دیے تھے تا کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ طالبان نے افغان جیسی جنگجو قوم سے اسلحہ رکھوا لیا اور ہیروئن کی پیداوار کو صفر فیصد کر دیا لیکن امریکا میں 9/11 کے حادثے نے ان کو ایک لمحے میں مجاہدین سے دہشت گرد بنا دیا۔ دوسرے نمبر پر افغان حکومت ہے جہاں کے عوام دس سال سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ تیسرے نمبر پر پاکستان ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا حلیف ہے اگر حلیف نہیں ہوتا تو دہشت گرد ہوتا۔ (یعنی تورا بور)

اب سوال یہ ہے کہ امریکا جب تینوں متاثرہ فریقوں کا جانی تو کیا مالی نقصان بھی پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایسے میں تینوں کو اکھٹے تعاون پر راضی کرنا مینڈکوں کو تولنے کے برابر ہے۔ ایک کو راضی کرتا ہے ، دوسرا نکل بھاگتا ہے۔ جب کہ تینوں کی دلی خواہش یہ ہے کہ امریکا کل کا جاتا آج چلا جائے لیکن قلق کس بات کا؟

اس وقت امریکا نے قرضہ لینے کی ''حد'' کر دی ہے، خزانہ خالی ہے اگر کچھ ہے تو وہ ادھار کا مال ہے۔ یعنی امریکی خزانے سے سپر پاور نکل گیا لیکن کھوپڑی سے ''سپر پاوری'' نہیں گئی۔ غور کیجیے! آبرو مندانہ رخصتی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کسی بھی وقت کوئی دل جلا خم ٹھونک کر بڑھک مار سکتا ہے ''یہ شادی نہیں ہو سکتی!''

ایسے میں چچا سام افغانستان سے سالم نکل جانا نہیں چاہتے بلکہ اپنی ایک ٹانگ افغانستان میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی ایک چھوٹی سی فوج رکھنا چاہتے تا کہ وہ امریکا اور بھارت کی تربیت یافتہ افغانستان کی کئی لاکھ سیکیورٹی فورس کو مانیٹر کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس فوج کا کوئی سپاہی جرم کرتا ہے تو اس کے خلاف کس قانون کے تحت کارروائی ہو گی؟ امریکی یا افغانی؟

ویت نام کی جنگ کے تلخ تجربے کے بعد جانی نقصان سے بچنے کے لیے امریکا نے بحریہ کو کلیدی کردار دیا ہے جو سیکڑوں میل دور سمندر سے دشمن کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ دوسرے نمبر پر فضائیہ ہے جو ہزاروں فٹ کی بلندی سے بمباری کر سکتی ہے۔ تیسرے نمبر پر بری فوج آتی ہے جو گنتی میں کم، کارستانی میں Deadly کمانڈوز اور نشانہ باز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجیز سے بھی مسلح ہوتے ہیں جو فوجی مقاصد کے استعمال کے لیے بنائی گئی ہو۔ مثلاً ''ڈرون'' دراصل لیزر گائیڈڈ میزائل بردار ریموٹ کنٹرولڈ کھلونا جہاز ہے۔ جس کو قبائلی علاقوں میں ''ڈبہ'' کہتے ہیں۔

دو مہینے پہلے یعنی ستمبر میں فائٹر طیارہ F-16 کو ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس کر کے ٹیسٹ کیا گیا اس نے وہی کام کیا جو F-16 کرتا ہے یعنی الٹنا پلٹنا، پلٹ کر الٹنا، جب کہ دور دور تک آدم نہ آدم زاد، مستقبل میں دہشت گردوں کو ڈرون کی جگہ F-16 سے ہی سابقہ پڑے گا۔ واپس پھر اصل سوال کی طرف آتے ہیں۔ امریکا جو تھوڑی فوج افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے، کیوں؟

آپ کو یاد ہو گا کہ امریکی صدارتی انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر اوباما کو تقریباً دیوار سے لگا دیا تھا۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب امریکا کے دونوں انتخاب لڑنے والے صدور کو یہودی لابنگ کے ساتھ ساتھ یہودی ووٹوں اور نوٹوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا اصرار تھا کہ ایران ایٹم بم بنا چکا یا بنانے کے قریب ہے، اگر اب اس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو پھر یہ موقع نہیں آئے گا۔ جب کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے اس کی تصدیق نہیں کی جو ایران کے ایٹمی تنصیبات کو مانیٹر کرتی ہے اور اوباما نے P5+1 (امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، چین، جرمنی) کے اور ایران کے درمیان مذاکرات شروع کرا دیے، جس پر اسرائیل نے چپ سادھ لی۔

P5+1 اور ایران کے درمیان جو مذاکرات ہوئے اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ P5+1 ٹیم کو شبہ تھا کہ ایران کے پاس بم گریڈ کی افزودہ یورینیم کا اتنا ذخیرہ ہے کہ وہ ایک یا دو ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ اگر ایران اپنا افزودہ یورینیم کا ذخیرہ بین الاقوامی ایجنسی کے حوالے کر دے تو اس کے خلاف تمام تادیبی کارروائیاں معطل کی جا سکتی ہیں۔ ایران نے اس کی تردید کر دی لیکن اس مسئلے کا بنیادی نکتہ آج بھی یہی ہے آیا ایران کے پاس افزودہ یورینیم کا ذخیرہ ہے یا نہیں؟ جب تک شک و شبہ سے بالاتر اس بات کی تصدیق نہیں ہو جاتی محض مفروضہ کی بنیاد پر ایٹمی پیش رفت روکنے کے لیے فوجی کارروائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے دولتیاں جھاڑنے کے عادی فوجی گھوڑے کا کسی نیپام بم پر دولتی جھاڑ دینا۔

دوسری طرف ایران کے پڑوسی افغانستان میں امریکا کی مٹھی بھر فوج ایران کے لیے باعث تشویش بن سکتی ہے۔ اس طرح وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کی مانیٹرنگ کر کے افزودہ یورینیم کی موجودگی یا عدم موجودگی کا پتہ لگا سکتی ہے۔ جس کے بعد یہ حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کے حل کے لیے ڈنڈا استعمال کیا جائے گا۔

مضحکہ خیز صورت حال ملاحظہ کیجیے، اس فاتح قوم مثلاً جنگجو نوجوانوں پر مشتمل افغان سیکیورٹی فورس تشکیل دی گئی ہے جس سے شکست کھاکر جا رہے ہیں جو بیرونی حملہ آوروں سے شدید نفرت کرتے ہیں، ان نوجوانوں کو اس بات کی تربیت دی گئی کہ افغانستان کو کس طرح کنٹرول کرنا ہے۔ جو ان کا اپنا وطن ہے جہاں کے پہاڑ، دریا، درے، گویا ان کی ہتھیلی کی لکیریں ہیں۔ جس قوم کو کنٹرول کرنا ہے وہ ان کے بیٹے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز میں کتنے طالبان اور ان کے ہمدرد گھسے ہوئے ہیں، امریکا کے جانے کے بعد اگر وہ کندھے پر اسلحہ رکھے، بٹیان بجاتے، یا قربان قربان ! کی تانین اڑاتے اپنے اپنے گاؤں کو روانہ ہو جائیں تو کون روکے گا؟ اگر امریکا کی مانیٹرنگ کرنے والی فوج نے صحیح صورت حال سے آگاہ کر دیا تو کیا امریکا افغانستان پر دوبارہ حملہ آور ہو گا؟

آخری سوال یہ ہے کہ آخری پیراگراف میں جو کچھ کہا گیا وہ سادہ امکانات ہیں۔ کہیں منطق چھانٹی گئی ہے یا فلسفہ بگھارہ گیا ہے؟ پھر آخری سوال کہ یہ امریکی تھنک ٹینک کہاں ہیں...!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں