والد کے خلاف جھوٹے مقدمے نے وکیل بننے کی تحریک دی

اعلیٰ عدلیہ جو کام کر رہی ہے، حقیقتاً وہ حکومت کی ذمے داری ہے۔

محتسب اعلیٰ، سکھر، مجاہد حسین راجپوت کی روداد ۔ فوٹو : فائل

FAISALABAD:
مثبت سوچ اُن کا ہتھیار ہے۔ محنت میں عظمت کے وہ قائل ہیں۔ اور عوام کی خدمت کا جذبہ اُنھیں متحرک رکھتا ہے!

یہ محتسب اعلیٰ، سندھ، مجاہد حسین راجپوت کا تذکرہ ہے، جنھیں والد پر دائر ہونے والے جھوٹے مقدمے نے وکیل بننے کی تحریک دی۔ خدمت کے جذبے کو ساتھ لیے وکالت کے پیشے میں قدم رکھا۔ دھیرے دھیرے آگے بڑھتے گئے۔ بالآخر لگن رنگ لائی۔ اُس مقام پر آن پہنچے، جہاں وہ عوام کو براہ راست انصاف فراہم کرسکتے تھے۔

مجاہد حسین راجپوت نے ضلع خیرپور میں 30 اکتوبر 1965 کو آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، طالب حسین راجپوت کاروبار پیشہ آدمی تھے۔ چھے بہن بھائیوں میں مجاہد راجپوت چوتھے ہیں۔ خالد حسین بڑے بھائی ہیں۔ دوسرے نمبر پر غلام عباس ہیں، اور تیسرے پر طاہر حسین، جو بزنس سنبھالتے ہیں۔ بہن، طاہرہ شادی شدہ ہیں۔ سب سے چھوٹے بھائی، زاہد حسین بھی بزنس مین ہیں۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ انتہائی شرارتی ہوا کرتے تھے۔ گھر میں ہونے والی تقریبات میں اُن کی شرارتیں مشہور تھیں۔

ابتدائی تعلیم ناصر پبلک اسکول سے، جو اس وقت کمپری ہینسو اسکول کہلاتا تھا، حاصل کی۔ 1982 میں میٹرک کرنے کے بعد ممتاز کالج، خیرپور میں داخلہ لے لیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے خیرپور یونیورسٹی کے انٹرنیشنل ریلیشن ڈیپارٹمنٹ کا حصہ بن گئے۔ 89ء میں گریجویشن کرنے کے بعد اکنامکس میں ایم اے کیا۔ اسکواش ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔ خود بھی اچھے کھلاڑی تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے تک اسکواش کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ کئی انعامات اور ٹائٹل اپنے نام کیے۔

زندگی اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی کہ ایک واقعہ رونما ہوا، جس نے اُنھیں اپنے مقصد زیست تک رسائی کا موقع فراہم کیا۔ کہتے ہیں،''ابتدا میں مَیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بزنس مین بننا چاہتا تھا، تاہم 1986 میں ایک واقعہ ہوا۔ میرے مرحوم والد، طالب حسین راجپوت پر بعض افراد کی جانب سے جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ اس عرصے میں ہم نے وکلا کے دفاتر کے بہت چکر لگائے۔ بہت پریشانی ہوئی۔ اس تجربے سے دل برداشتہ ہو کر میں نے خود اِس شعبے میں آنے کا فیصلہ کیا، اور آج الحمد اﷲ، روزانہ درجنوں لوگوں کے مسائل حل کرتا ہوں۔''

لا کالج خیرپور میں انھوں نے داخلہ لے لیا، اور 93ء میں یہ مرحلہ بھی طے کر ڈالا۔اب عملی میدان میں قدم رکھا۔ جسٹس (ر) سید علی اسلم جعفری کی فرم سے منسلک ہوگئے۔ ان کی راہ نمائی میں کم و بیش ایک سال کام کرنے کے بعد باضابطہ طور پر وکالت شروع کی۔ مجاہد راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے (برسوں بعد چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے والے) عبدالحمید ڈوگر کی سرپرستی میں بھی کام کیا۔ 1995 میں عبدالحمید ڈوگر ہائی کورٹ کے جج ہوگئے، جس کے بعد اُن کے دفتر کو مجاہد صاحب نے خوش اسلوبی سے سنبھالا۔ محنت کے طفیل وہ آگے بڑھتے رہے۔ جانتے تھے کہ وکالت شہرت کا نہیں، خدمت کا پیشہ ہے۔ اِسی نظریے کو سامنے رکھا، اور جلد ہی اُنھیں شناخت کیا جانے لگا۔ بتاتے ہیں،''میں نے وکالت کے دوران ریکارڈ کیس بلامعاوضہ لڑے، اور مظلوموں کو انصاف دلایا۔''

19نومبر 2008 کو انھوں نے محتسب اعلیٰ، سکھر کا عہدہ سنبھالا۔ بہ قول اُن کے،''عہدہ سنبھالتے ہی عہد کیا تھا کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کروں گا۔ میری شروع سے یہ کوشش رہی کہ غریب، مستحق، خصوصاً یتیموں کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے۔'' گذشتہ پانچ برس سے یہ عہد اُنھیں مصروف رکھے ہوئے ہے۔

عام طور سے لوگ محتسب اعلیٰ کے پاس کیا شکایت لے کر آتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''سکھر سمیت بالائی سندھ سے آنے والے سائلین کی زیادہ شکایات محکمۂ بلدیات، نساسک اور محکمۂ پولیس سے متعلق ہوتی ہیں، جنھیں ہم حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔''

ملکی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ اپنا تجزیہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں،''عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی، صنعتوں کا فروغ، امن و امان کی صورت حال اور دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک قانون پر مکمل عمل درآمد نہیں کیا جائے۔'' اُن کے مطابق ملکی حالات میں بہتری اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد میں مضمر ہے۔ ''اگر ایسا کیا جائے، تو ملک میں فوری طور پر دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کے علاوہ تجارتی، صنعتی سرگرمیوں کو فروغ مل سکتا ہے۔''


مجاہد حسین راجپوت کے نزدیک چیف جسٹس آف پاکستان، افتخار محمد چوہدری کی مخلصانہ کوششیں اور تاریخی فیصلوں کے طفیل عوام کو انصاف ملا۔ ''افتخار محمد چوہدری اور اعلیٰ عدلیہ وہ کام کر رہی ہے، جو درحقیقت حکومت کی ذمے داری ہے۔'' کہتے ہیں کہ اگر اُنھیں اﷲ تعالیٰ نے اعلیٰ عدلیہ کا جج بننے کا موقع فراہم کیا، تو ان کے دماغ میں انصاف کی فراہمی کے لیے جو پلان ہے، اس پر فوری عمل درآمد کریں گے۔

وہ تعلیم کو ترقی کی کلید گردانتے ہیں۔ کہتے ہیں،''ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ وہاں تعلیم کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ سندھ میں معیار تعلیم پست ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے ڈگریاں تو حاصل کر رہے ہیں، مگر ان میں وہ قابلیت اور مہارت دکھائی نہیں دیتی۔''

اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانا اُن کی اولین خواہش ہے۔ ''میں نے اپنی تینوں بیٹیوں کو بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ وہ اپنے گھر، شہر، صوبے اور ملک کے لیے کام کرسکیں۔ اگر آگے چل کر کسی عہدے پر فائز ہوں، تو انھیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور وہ اچھی منتظم ثابت ہوں۔''

شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے وہ متاثر ہیں۔ بہ قول ان کے،''میں نے اپنی زندگی میں ایسا لیڈر نہیں دیکھا، جو عوامی مسائل کے حل کے لیے انتہائی مخلص ہو۔ ان کے مخالفین بھی ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کے دور میں جو ترقیاتی کام ہوئے، ان کی پھر مثال نہیں ملی۔''

این جی اوز کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے،''این جی اوز کے پاس جو پیسا ہے، فنڈ ہے، اگر وہ ختم کر دیا جائے، پھر ہم ان کے مخلص ہونے کا دُرست اندازہ لگاسکتے ہیں۔ میری نظر میں اگر انسانیت کی خدمت کرنی ہے، تو اس کے لیے کسی پلیٹ فورم کی ضرورت نہیں۔ این جی اوز کے معاملات میں نمود ونمایش پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ فوٹو سیشن کیا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی لاکھوں افراد، غربا کی خاموشی سے مدد کر رہے ہیں۔ اگر اسی طرح یہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، تو ہمارے ملک میں بہت سے مسائل خودبہ خود حل ہوسکتے ہیں۔''

زندگی کے یادگار ترین دن شادی کی تقریب سے جڑے ہیں۔ بہ قول ان کے،''ہم بارات لے کر کوئٹہ گئے۔ حالات کی کشیدگی کی وجہ سے وہاں کرفیو لگ گیا، تو جس جگہ پر ہم ٹھہرے تھے، وہیں انتہائی سادگی سے نکاح کی تقریب ہوئی۔ چوبیس گھنٹے بعدکرفیو میں نرمی ہونے پر ہم دلہن لے کر واپس خیرپور پہنچے۔ وہ دن آج بھی مجھے یاد ہے۔''

والدہ کا انتقال زندگی کا سب سے کرب ناک لمحہ تھا۔ یہ سانحہ 2004 میں پیش آیا۔ کہتے ہیں،''ان کی خواہش تھی کہ میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں، تاہم اپنی زندگی میں وہ یہ دن نہیں دیکھ پائیں، جس کا مجھے افسوس ہے۔''

ذاتی زندگی زیر بحث آئی، تو بتانے لگے کہ ان کی شادی 13اکتوبر 1991 کو ہوئی۔ نو برس بعد خدا نے انھیں بیٹی، نور فاطمہ سے نوازا، جو اس وقت سٹی اسکول خیرپور میں نویں جماعت کی طالبہ ہیں۔ اس کے بعد اقصیٰ ماروی کا نمبر آتا ہے۔ تیسری بیٹی عائشہ مجاہد ہیں، جو ساتویں کلاس میں ہیں۔ چوتھے، محمد امین راجپوت ہیں ہے۔ مجاہد راجپوت کا کہنا ہے،''آج میں جس مقام پر ہوں، اس تک پہنچنے میں میرے والدین اور خیرپور یونیورسٹی آئی آر ڈیپارٹمنٹ کے اِن چارج پروفیسر امان اﷲ بھٹی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انھوں نے قدم قدم پر میری راہ نمائی کی۔''

کھانے میں پلاؤ اور بکرے کا گوشت انھیں پسند ہے۔ گرمیوں کے موسم میں فیملی کے ساتھ لونگ ڈرائیو پر نکل جاتے ہیں۔کہتے ہیں،''بے پناہ مصروفیات کی وجہ سے بچوں کو وہ ٹائم نہیں دے پاتا، جو ان کا حق ہے۔ البتہ چھٹی کے روز تمام مصروفیات ختم کر کے فیملی کے ساتھ وقت گزارتا ہوں۔'' قلبی سکون کے لیے وہ نعتیں سنتے ہیں۔گذشتہ بارہ سال سے باقاعدگی سے محافل نعت منعقد کروا رہے ہیں۔ پہناوے میں شلوار قمیض پسند کرنے والے مجاہد حسین راجپوت کہتے ہیں کہ فارغ وقت میں میری ترجیح نیوز چینل ہوتے ہے، تاکہ ملکی حالات پر نظر رکھ سکوں۔ ''بابا بلھے شاہ ؒ کا کلام بھی سنتا ہوں۔ وقت ملے، تو بزنس بھی سنبھالتا ہوں۔''
Load Next Story