وادی کشمیر کے سلگتے چنار
خبروں کی ایک آتشیں آبشارکے منظرنامے کے سامنے ناول کے صفحات کھولے بیٹھا ہوں۔
یہ ایک طرف کا قصہ ہے۔ بھارت نے بارڈرپر میزائل لگا دیئے، باڑکاٹ دی، تشویشناک سرگرمیوں پر اقوام متحدہ کو خط لکھ دیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت دو سوچوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔2019 بھارت میں اقلیتوں کے لیے خوف وتشدد کی علامت کا سال قرار۔ بھارت میں متنازع قانون کے خلاف مظاہرے جاری، احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ اور تشدد سے 30 ہلاکتیں ۔
اسی جموں وکشمیر کے خوںریز سیاق وسباق میں دیکھئے، دوسری طرف ذہن تقسیم در تقسیم ہونے کے بعد بھی ناصر بیگ چغتائی کے دل گداز اور امید افزا ناول'' سلگتے چنار'' پر مرکوز ہے۔ غیر انسانی سلوک کے واقعات کے بعد کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہارکرچکی ہیں، لیکن عجیب المیہ ہے کہ عالمی ضمیر بدستور خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے، انسانیت سرینگر کے اس پار خاک وخون میں غلطاں ہے۔
خبروں کی ایک آتشیں آبشارکے منظرنامے کے سامنے ناول کے صفحات کھولے بیٹھا ہوں، اسی شہر قائد کی نفسا نفسی میں تین عشروں کے بعد ناول کے مصنف سے درد کا رشتہ دوبارہ قائم ہوا، قربتوں میں فاصلوں کی دیوارکیا گری کہ سینہ چاکان چمن سے آملے ہیں سینہ چاک۔
ممتاز قلم کار اخلاق احمد کا فلیپ بھی اسی داخلی کرب و سر مستی کا شاہکار ہے، کشمیریوںکی خوں بہار داستان حریت نے وقت کی ساری طنابیں کھینچ لیں، اور سلگتے چنارکے ناول نے کشمیرکے لرزہ خیز بیانیہ کی جگہ لے لی۔ اخلاق احمد نے لکھا کہ '' فکشن سے ناصر بیگ چغتائی کا وصال کئی معرکہ آرا کہانیوں کا سبب بنا۔ دل میں اترجانے والی کہانیاں۔ ''سلگتے چنار'' شاید ان کا سب سے توانا ناول ہے، یہ ناول لکھتے وقت ناصر بیگ چغتائی کی دیوانگی کے گواہ کم لوگ ہیں۔
جنت نظیرکشمیر کی وادیوں میں جاری آگ کے کھیل اور آزادی کی والہانہ جدوجہد کے لیے ان کی وحشت ، ان کی شب بیداریاں، ان کی تڑپ ، اور ایک جنون آمیز بے قراری ہی شاید اس ناول کی بے پناہ مقبولیت کا سبب بنی۔ اس کی خوشبوکو سرحد کے پار لے گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کہانی کا ذکر سینہ در سینہ چلتاگیا، اس کی فوٹوسٹیٹ نقول ، جدوجہد کرنے والوں میں اور آزادی کی آرزو رکھنے والوں میں چھپ چھپ کر تقسیم ہوتی رہیں۔ دنیا بھرکی توجہ کا مرکز بن جانے والے کشمیرکے بارے میں ایسا پر تاثیر ناول شاید کبھی لکھا نہیں گیا۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خون چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
غالب ہی نے کہا تھا
درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
ناصر بیگ کا کہنا ہے کہ اس کہانی میں صرف سکندر، ٹیپو اور زوبی کے کرداروں کو ان کے اصل نام نہیں دیئے گئے باقی سب کردار اصلی ہیں۔ اپنی صحافتی زندگی سے ہٹ کر بطورکہانی نویس انھوں نے لکھا کہ میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں کہانی نویس ہوں لیکن عرصے سے کہانیاں ہی میرا ذریعہ معاش تھیں۔ جب میں نے سلگتے چنار لکھی تب بھی میں نے اسے کبھی ادبی شاہکارکے طور پر پیش نہیں کیا، یہ شہیدوں کی نذر تھی ،انھوں نے قبول کر لی۔
یہ میرے لیے بہت ہے۔ ظاہر ہے اہل کشمیر نے ان فگار انگلیوں اور خونچکاں قلم سے لکھی گئی کہانی کو محض '' ایک فکشن اور سہی '' کے طور قبول نہیں کیا ، ان کی بے قرار آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں نے سلگتے چنارکو دہکتے ہوئے ماحول کی ایک سلگتی سوغات ہی سمجھا ہوگا۔ سلگتے چنار کشمیر میں حریت پسندی کی ایک لہو ترنگ داستان ہے جس کی سطریں آزادی کے لیے خون دینے والوں کے ہاتھ کی لکیروں پر لکھی گئی ہیں۔ پورے ناول کو پڑھتے جائیے،آپ کو کشمیری حریت پسندوں کے دل کی دھڑکن لفظوں کی رزمیہ غنائیت میں رچی بسی ملے گی، جہاں گولیوں کی تڑتڑاہت جوش جنوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔
یہ ان سرفروشوں کی داستان حیات ہے، جو اپنی دھرتی کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے چھڑانے کے لیے سر پہ کفن باندھ کر میدان جنگ میں اترے ہیں۔ وہ رگوں میں دوڑنے پھرنے کے قائل ہونے سے بہت آگے کی منزلوں میں جیتے ہیں، ان کے دلوں میں سر فروشی کی تمنا موج زن ہے، وہ موت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر مودی کی برباد ہوتی جمہوریت اور سیکولر ازم کے تابوتوں میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے بے تاب ہیں، ان میں ہر نوجوان وانی ہے، مجھے یاد ہے لی مارکیٹ میں اعظم خان ہوٹل کے سامنے میری ڈیل نائٹ اسکول میں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان کشمیر پر جب کبھی بولتے تھے تو لگتا تھا کہ ان کا ہر لفظ میدان جنگ میں برسرپیکار کسی جنگجوکا آتشیں دہن گولے پھینک رہا ہے، لب ولہجہ کی یہی گھن گرج قاسم مجاہد کی غیر مطبوعہ کتاب میں ہم نے 1964میں سنی تھی ۔
سلگتے چنار میں اسلحہ بردار نوجوانوں کے محتاط اور مستعد قدموں کی چاپ ، ولولے اور جوش ومردانگی ساتھ لیے چلتی ہے، ناول کی قارئین پر ذہنی گرفت اسے کسی طے شدہ اسکرپٹ کے روایتی کینوس سے بلند تر سچی کہانی کا درجہ دیتی ہے، اسی سے قاری کو جستہ جستہ کشمیرکہانی کی دل گرفتہ منزلوں کی طرف رواں دواں کھینچ کر لیے چلتی ہے۔ ناول نگارکی مشاہداتی، معروضی اور بے لوث تخلیقی تڑپ آپ کو کشمیرکی دھڑکن سے ہم آہنگ کرتی ہے، اورکہانی کے خاتمہ تک آپ بیتابی سے اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کشمیرکی جلتی ہوئی وادی میںبہتے لہوکا شورکب تھمے گا،کب سرفروشوں کا کارواں آزادی منزل پر پہنچے گا، لیکن کرداروں کی روح کے اندر سے پھوٹنے والے مکالمے ، ان کی مجاہدانہ گفتگو ، انٹیلی جنس ، ابلاغ ، رابطے ، مربوط وموثر گوریلا جنگ کی جان سوز حکمت عملی اور جہد بلا خیزکے واقعات سلگتے چنار کو قرطاس ابیض پر اک رزم گاہ بنا دیتے ہیں۔
قاری اپنی محویت ، توجہ اورکشمیریوں کے کاز سے کمٹمنٹ کے دھمال میں وقفے وقفے سے زبردست دھاوا بولنے کی ہولناک جھنکار سنتا ہے ۔ ناول نگار تاریخ کے تسلسل اورکشمیریوں کے محسوسات کے ایک ہی پیج پر ہمہ وقت نظر آتا ہے یوں کہیں بھی فائرنگ کی آوازیں آرہی ہوں، بھارتی سیکیورٹی فورسزکی وحشت ناک آوازوں اور وارننگ کی للکار سنائی دیتی ہو، مگر ظلم پر مبنی کارروائیوں اور بربریت کے مقابل نقاب پوش نوجوانوں کی سر فروشی اور اولوالعزمی بیانیے کی طاقت میں جادوئی تاثیر انڈیلتی ہے۔ فوجی گاڑیوں کے شور اس کے منظر نامے میں گونجنے والی باطل کی طاغوتی صدائیں جنگی نعروں کے ردھم میں بیک گراؤنڈ وار میوزک کا نعم البدل ہوجاتی ہیں، یہ مصنف کی قلمکاری کا سحر ہے۔
معتبر محقق عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ یہ ناول جدوجہد آزادی کے موضوع کے اعتبار سے نرا خشک نہیں بلکہ انسانی جذبوں اور رشتوں کی نرمی اور لطافت لیے ہوئے ہے، خاص کر انسانی جذبات میں سب سے لطیف جذبہ یعنی محبت کی جلوہ نمائیاں سب سے زیادہ واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ایسے کسی خاص موضوع پر لکھنا بہت مشکل کام ہے، ناصربیگ چغتائی یہ دشوار کام کر گزرے اور اس میں کامیاب رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر معروضی ، افسانوی لٹریچرکا بڑا ذخیرہ موجود ہے، اردو اور انگریزی میںکشمیر کی تاریخ، سیاسی جدوجہد ، مزاحمتی کشمکش،کشمیری عوام کی لازوال اور بے مثال قربانیوں پر مبنی بے شمارکتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں، وکٹوریہ شوفیلڈ،اروندھتی رائے، طارق علی، شام مسری، خالد بشیر احمد ، احمد شجاع پاشا، پروفیسر خورشید احمد، ارشاد محمود، ایلسٹر لیمب، بشارت پیر، امان اللہ خان، بشیر احمد سدوزئی، سمیت بے شمار اہل قلم ، صحافیوں،سیاسی تجزیہ کاروں، مورخین اور سفارت کاروں نے بھارت، پاکستان،گلگت بلتستان ، جموں وکشمیرکے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے بیش قیمت مواد پیش کیا ہے۔
اے حمید اور دیگر رائٹرز نے کشمیر پرکمانڈر سیریز پر پاکٹ سائز ناولٹ لکھے ہیں، کشمیر کے محل وقوع اور پاک بھارت مذاکرات کو ڈسکس کیا ہے، اروندھتی رائے کی کتاب Listening A Grasshopper اور وکٹوریہ شیفیلدکی کتاب Kashmir in Conflict کا مطالعہ کریں تو کئی زاویے سامنے آتے ہیں، مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت مذاکرات پر درجنوں مقالات اورکتب میں کشمیرکے تنازع کا الاؤ جلتا ہوا ملتا ہے۔ لیکن کشمیر کا ذکر ہو تو '' بنتی نہیں ہے بادہ وساغرکہے بغیر'' کا بیریئر راستہ روک لیتا ہے۔ ان قارئین کے لیے سلگتے چنار دوآتشہ کا کام دیتا ہے۔
جن کے شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں کشمیرکی لہو رنگ صورتحال کے تناظر میں ہالی ووڈ کی سیکڑوں وار فلمیں گردش میں آتی ہیں۔کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کشمیریوں کی جدوجہد پر لکھا گیا ناول سلگتے چنارکس وقت کسی مشاق اور جی نیئس فلم ساز اور ہدایتکار کے شیڈول میںجگہ پالے، اور وہ کردار جنھیں ناصر بیگ نے بڑی عقیدت، محبت، جوش اور جذبہ سے کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے وہ بڑی اسکرین کی بھی زینت بنیں جسے دنیا بھر کے آزادی پسند بھارتی بربریت اور ظلم وستم کی سیاہ رات میں کشمیریوں کی سیاسی اور مسلح جدوجہد آزادی کے آئینہ میں پردہ سیمیں پر دیکھ کر کہیں کہ ،
تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک
دوستو ! خطے کی تاریخ نے زبردست کروٹ بدلی ہے، کشمیر کا سورج نصف النہار پر آ پہنچا ہے، مودی جور وستم کی آخری حدیں پھلانگ چکا ہے، سلگتے چناروں کی آنچ شاید نئی دہلی کی دہلیز تک آنے والی ہے۔ شورش زیست پر اہل جنوں کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ کشمیریوں کو انقلاب زمانہ کی نوید ہو۔صف دشمناں کو خبر کرو۔
اسی جموں وکشمیر کے خوںریز سیاق وسباق میں دیکھئے، دوسری طرف ذہن تقسیم در تقسیم ہونے کے بعد بھی ناصر بیگ چغتائی کے دل گداز اور امید افزا ناول'' سلگتے چنار'' پر مرکوز ہے۔ غیر انسانی سلوک کے واقعات کے بعد کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہارکرچکی ہیں، لیکن عجیب المیہ ہے کہ عالمی ضمیر بدستور خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے، انسانیت سرینگر کے اس پار خاک وخون میں غلطاں ہے۔
خبروں کی ایک آتشیں آبشارکے منظرنامے کے سامنے ناول کے صفحات کھولے بیٹھا ہوں، اسی شہر قائد کی نفسا نفسی میں تین عشروں کے بعد ناول کے مصنف سے درد کا رشتہ دوبارہ قائم ہوا، قربتوں میں فاصلوں کی دیوارکیا گری کہ سینہ چاکان چمن سے آملے ہیں سینہ چاک۔
ممتاز قلم کار اخلاق احمد کا فلیپ بھی اسی داخلی کرب و سر مستی کا شاہکار ہے، کشمیریوںکی خوں بہار داستان حریت نے وقت کی ساری طنابیں کھینچ لیں، اور سلگتے چنارکے ناول نے کشمیرکے لرزہ خیز بیانیہ کی جگہ لے لی۔ اخلاق احمد نے لکھا کہ '' فکشن سے ناصر بیگ چغتائی کا وصال کئی معرکہ آرا کہانیوں کا سبب بنا۔ دل میں اترجانے والی کہانیاں۔ ''سلگتے چنار'' شاید ان کا سب سے توانا ناول ہے، یہ ناول لکھتے وقت ناصر بیگ چغتائی کی دیوانگی کے گواہ کم لوگ ہیں۔
جنت نظیرکشمیر کی وادیوں میں جاری آگ کے کھیل اور آزادی کی والہانہ جدوجہد کے لیے ان کی وحشت ، ان کی شب بیداریاں، ان کی تڑپ ، اور ایک جنون آمیز بے قراری ہی شاید اس ناول کی بے پناہ مقبولیت کا سبب بنی۔ اس کی خوشبوکو سرحد کے پار لے گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کہانی کا ذکر سینہ در سینہ چلتاگیا، اس کی فوٹوسٹیٹ نقول ، جدوجہد کرنے والوں میں اور آزادی کی آرزو رکھنے والوں میں چھپ چھپ کر تقسیم ہوتی رہیں۔ دنیا بھرکی توجہ کا مرکز بن جانے والے کشمیرکے بارے میں ایسا پر تاثیر ناول شاید کبھی لکھا نہیں گیا۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خون چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
غالب ہی نے کہا تھا
درد دل لکھوں کب تک جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
ناصر بیگ کا کہنا ہے کہ اس کہانی میں صرف سکندر، ٹیپو اور زوبی کے کرداروں کو ان کے اصل نام نہیں دیئے گئے باقی سب کردار اصلی ہیں۔ اپنی صحافتی زندگی سے ہٹ کر بطورکہانی نویس انھوں نے لکھا کہ میں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ میں کہانی نویس ہوں لیکن عرصے سے کہانیاں ہی میرا ذریعہ معاش تھیں۔ جب میں نے سلگتے چنار لکھی تب بھی میں نے اسے کبھی ادبی شاہکارکے طور پر پیش نہیں کیا، یہ شہیدوں کی نذر تھی ،انھوں نے قبول کر لی۔
یہ میرے لیے بہت ہے۔ ظاہر ہے اہل کشمیر نے ان فگار انگلیوں اور خونچکاں قلم سے لکھی گئی کہانی کو محض '' ایک فکشن اور سہی '' کے طور قبول نہیں کیا ، ان کی بے قرار آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں نے سلگتے چنارکو دہکتے ہوئے ماحول کی ایک سلگتی سوغات ہی سمجھا ہوگا۔ سلگتے چنار کشمیر میں حریت پسندی کی ایک لہو ترنگ داستان ہے جس کی سطریں آزادی کے لیے خون دینے والوں کے ہاتھ کی لکیروں پر لکھی گئی ہیں۔ پورے ناول کو پڑھتے جائیے،آپ کو کشمیری حریت پسندوں کے دل کی دھڑکن لفظوں کی رزمیہ غنائیت میں رچی بسی ملے گی، جہاں گولیوں کی تڑتڑاہت جوش جنوں کو بڑھاوا دیتی ہے۔
یہ ان سرفروشوں کی داستان حیات ہے، جو اپنی دھرتی کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے چھڑانے کے لیے سر پہ کفن باندھ کر میدان جنگ میں اترے ہیں۔ وہ رگوں میں دوڑنے پھرنے کے قائل ہونے سے بہت آگے کی منزلوں میں جیتے ہیں، ان کے دلوں میں سر فروشی کی تمنا موج زن ہے، وہ موت کی آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر مودی کی برباد ہوتی جمہوریت اور سیکولر ازم کے تابوتوں میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے بے تاب ہیں، ان میں ہر نوجوان وانی ہے، مجھے یاد ہے لی مارکیٹ میں اعظم خان ہوٹل کے سامنے میری ڈیل نائٹ اسکول میں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین امان اللہ خان کشمیر پر جب کبھی بولتے تھے تو لگتا تھا کہ ان کا ہر لفظ میدان جنگ میں برسرپیکار کسی جنگجوکا آتشیں دہن گولے پھینک رہا ہے، لب ولہجہ کی یہی گھن گرج قاسم مجاہد کی غیر مطبوعہ کتاب میں ہم نے 1964میں سنی تھی ۔
سلگتے چنار میں اسلحہ بردار نوجوانوں کے محتاط اور مستعد قدموں کی چاپ ، ولولے اور جوش ومردانگی ساتھ لیے چلتی ہے، ناول کی قارئین پر ذہنی گرفت اسے کسی طے شدہ اسکرپٹ کے روایتی کینوس سے بلند تر سچی کہانی کا درجہ دیتی ہے، اسی سے قاری کو جستہ جستہ کشمیرکہانی کی دل گرفتہ منزلوں کی طرف رواں دواں کھینچ کر لیے چلتی ہے۔ ناول نگارکی مشاہداتی، معروضی اور بے لوث تخلیقی تڑپ آپ کو کشمیرکی دھڑکن سے ہم آہنگ کرتی ہے، اورکہانی کے خاتمہ تک آپ بیتابی سے اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ کشمیرکی جلتی ہوئی وادی میںبہتے لہوکا شورکب تھمے گا،کب سرفروشوں کا کارواں آزادی منزل پر پہنچے گا، لیکن کرداروں کی روح کے اندر سے پھوٹنے والے مکالمے ، ان کی مجاہدانہ گفتگو ، انٹیلی جنس ، ابلاغ ، رابطے ، مربوط وموثر گوریلا جنگ کی جان سوز حکمت عملی اور جہد بلا خیزکے واقعات سلگتے چنار کو قرطاس ابیض پر اک رزم گاہ بنا دیتے ہیں۔
قاری اپنی محویت ، توجہ اورکشمیریوں کے کاز سے کمٹمنٹ کے دھمال میں وقفے وقفے سے زبردست دھاوا بولنے کی ہولناک جھنکار سنتا ہے ۔ ناول نگار تاریخ کے تسلسل اورکشمیریوں کے محسوسات کے ایک ہی پیج پر ہمہ وقت نظر آتا ہے یوں کہیں بھی فائرنگ کی آوازیں آرہی ہوں، بھارتی سیکیورٹی فورسزکی وحشت ناک آوازوں اور وارننگ کی للکار سنائی دیتی ہو، مگر ظلم پر مبنی کارروائیوں اور بربریت کے مقابل نقاب پوش نوجوانوں کی سر فروشی اور اولوالعزمی بیانیے کی طاقت میں جادوئی تاثیر انڈیلتی ہے۔ فوجی گاڑیوں کے شور اس کے منظر نامے میں گونجنے والی باطل کی طاغوتی صدائیں جنگی نعروں کے ردھم میں بیک گراؤنڈ وار میوزک کا نعم البدل ہوجاتی ہیں، یہ مصنف کی قلمکاری کا سحر ہے۔
معتبر محقق عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ یہ ناول جدوجہد آزادی کے موضوع کے اعتبار سے نرا خشک نہیں بلکہ انسانی جذبوں اور رشتوں کی نرمی اور لطافت لیے ہوئے ہے، خاص کر انسانی جذبات میں سب سے لطیف جذبہ یعنی محبت کی جلوہ نمائیاں سب سے زیادہ واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ایسے کسی خاص موضوع پر لکھنا بہت مشکل کام ہے، ناصربیگ چغتائی یہ دشوار کام کر گزرے اور اس میں کامیاب رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر معروضی ، افسانوی لٹریچرکا بڑا ذخیرہ موجود ہے، اردو اور انگریزی میںکشمیر کی تاریخ، سیاسی جدوجہد ، مزاحمتی کشمکش،کشمیری عوام کی لازوال اور بے مثال قربانیوں پر مبنی بے شمارکتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں، وکٹوریہ شوفیلڈ،اروندھتی رائے، طارق علی، شام مسری، خالد بشیر احمد ، احمد شجاع پاشا، پروفیسر خورشید احمد، ارشاد محمود، ایلسٹر لیمب، بشارت پیر، امان اللہ خان، بشیر احمد سدوزئی، سمیت بے شمار اہل قلم ، صحافیوں،سیاسی تجزیہ کاروں، مورخین اور سفارت کاروں نے بھارت، پاکستان،گلگت بلتستان ، جموں وکشمیرکے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے بیش قیمت مواد پیش کیا ہے۔
اے حمید اور دیگر رائٹرز نے کشمیر پرکمانڈر سیریز پر پاکٹ سائز ناولٹ لکھے ہیں، کشمیر کے محل وقوع اور پاک بھارت مذاکرات کو ڈسکس کیا ہے، اروندھتی رائے کی کتاب Listening A Grasshopper اور وکٹوریہ شیفیلدکی کتاب Kashmir in Conflict کا مطالعہ کریں تو کئی زاویے سامنے آتے ہیں، مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت مذاکرات پر درجنوں مقالات اورکتب میں کشمیرکے تنازع کا الاؤ جلتا ہوا ملتا ہے۔ لیکن کشمیر کا ذکر ہو تو '' بنتی نہیں ہے بادہ وساغرکہے بغیر'' کا بیریئر راستہ روک لیتا ہے۔ ان قارئین کے لیے سلگتے چنار دوآتشہ کا کام دیتا ہے۔
جن کے شعور، لاشعور اور تحت الشعور میں کشمیرکی لہو رنگ صورتحال کے تناظر میں ہالی ووڈ کی سیکڑوں وار فلمیں گردش میں آتی ہیں۔کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کشمیریوں کی جدوجہد پر لکھا گیا ناول سلگتے چنارکس وقت کسی مشاق اور جی نیئس فلم ساز اور ہدایتکار کے شیڈول میںجگہ پالے، اور وہ کردار جنھیں ناصر بیگ نے بڑی عقیدت، محبت، جوش اور جذبہ سے کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے وہ بڑی اسکرین کی بھی زینت بنیں جسے دنیا بھر کے آزادی پسند بھارتی بربریت اور ظلم وستم کی سیاہ رات میں کشمیریوں کی سیاسی اور مسلح جدوجہد آزادی کے آئینہ میں پردہ سیمیں پر دیکھ کر کہیں کہ ،
تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک
دوستو ! خطے کی تاریخ نے زبردست کروٹ بدلی ہے، کشمیر کا سورج نصف النہار پر آ پہنچا ہے، مودی جور وستم کی آخری حدیں پھلانگ چکا ہے، سلگتے چناروں کی آنچ شاید نئی دہلی کی دہلیز تک آنے والی ہے۔ شورش زیست پر اہل جنوں کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں۔ کشمیریوں کو انقلاب زمانہ کی نوید ہو۔صف دشمناں کو خبر کرو۔