سنکیانگ کے مسلمان اور پاکستان میں مذہبی آزادی
نجانے کتنی فصل ِسر کٹے گی تو یہ قیمت ادا ہوگی، ابھی تک تو صرف فصل سر کٹتی ہی چلی جارہی ہے۔
لاہور:
مسلمان دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے، جس کا لہو دنیا کے نقشے پر جگہ جگہ بہتا ہوا نظر آرہا ہے، کشمیر ، فلسطین ، شام ،عراق ،افغانستان، بھارت ، برما سمیت کون سا ایسا خطہ ہے جو مسلمانوں کے لہو سے سرخ دکھائی نہ دے۔ دنیا بھر کے دانشور ، مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار کو بدلیں کہ بربریت کی مثالیں ، انسانی قتل کی نئی شرح لکھیں یا قتل آمادہ جمہوریت کی توصیف بیان کریں۔
بڑے ملکوں کی قوت کو انسانی قتل کے استعارہ کے طور پر استعمال کیا جائے یا جنگل کے قانون کی طرح مراجعت کی مجبوری سمجھی جائے۔یہ سوال کل بھی اپنے جواب کی تلاش میں تھا اور آج بھی اس کی کھوج کا یہ عمل جاری ہے کیونکہ جواب تسلی بخش نہیں مل پا رہا ، یہ سوال جس قدر دو ٹوک ، سادہ اور منطقی ہے اس کا جوجواب دیا جاتا ہے وہ اسی قدر مبہم ، پیچیدہ اور غیر واضح ہے۔ اس وقت اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور اس کو ماننے والے مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے، دنیا کے نقشے پر موجود اسلامی ممالک کی تعداد 57 ہے لیکن سب کے سب بے بس اور لاچار کھڑے ہیں۔
مسلم حکمران جن کے ساتھ ہیں وہ اس ساتھ کی قیمت لگائے بیٹھے ہیں اور اس ساتھ میں ہم جن کے خلاف ہوگئے ہیں وہ ہم سے اس مخالفت کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں۔ نجانے کتنی فصل ِسر کٹے گی تو یہ قیمت ادا ہوگی، ابھی تک تو صرف فصل سر کٹتی ہی چلی جارہی ہے، کٹائی کا یہ سلسلہ کبھی شام میں شروع ہوجاتا ہے، کبھی افغانستان میں ، کبھی کشمیر میں شروع ہوجاتا ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی برما کے مسلمانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں تو کبھی یمن کے، اب اطلاعات یہ موصول ہورہی ہیں کہ چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ کے مسلمان بھی ظلم کاشکار ہیں۔ سنکیانگ کی سرحد پاکستان کے ساتھ لگتی ہے، تاریخ کے اوراق میں اس خطے کا تعارف کاشغر کے نام سے کراتے ہیں جس کا نام مابعد تبدیل کرکے سنکیانگ رکھ دیا گیا ہے۔
سنکیانگ میں مسلمانوں کی صورتحال پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا زیادہ سرگرم نظر آیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوںکی ویڈیوز دیکھ کر روح کانپ گئی، وہ پریشان کن صورتحال کا شکار ہیں ۔ ایک عرصہ سے ایسی خبریں اور ویڈیوز آرہی تھیں تاہم ان کے بارے میں کہا جاتارہا کہ یہ چین کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے اور چین مخالف عناصر یہ خبریں پھیلا رہے ہیں لیکن اب اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کی کمیٹی کی باقاعدہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میںدعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریباً دس لاکھ مسلمان حراستی کیمپوں میں ہیں ۔ ترکی کے علاوہ ابھی تک کسی مسلمان ملک یا شخصیت نے اس صورتحال پر اعلائے کلمتہ الحق بلند نہیں کیا۔
57 اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم او آئی سی بھی حسب روایت خواب غفلت میں ڈوبی نظر آرہی ہے، اس کی آنکھوں پر بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ او آئی سی محض ''اوہ آئی سی '' بن کر رہ گئی ہے، نجانے اس مردہ گھوڑے میں کب جان پڑے گی اور کب یہ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنے گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین پا کستان کا سب سے قریبی دوست ہے، اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ دوستی ہمالیہ سے بلند اورشہد سے زیادہ میٹھی ہے لیکن سنکیانگ سے جو اطلاعات آرہی ہیں اس پر آواز بلند کرنے کی ذمے داری سب سے زیادہ پاکستان کی ہے کیونکہ پاکستان اسلامی دنیا کا ایک بڑااور ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے۔
عالم اسلام میں آج بھی پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ ایسی اطلاعات سے عوامی جذبات کا بھڑکنا فطری بات ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ایغور مسلمانوں کے ایشو پر چینی حکومت سے بات کرے، اسے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرے اور اس بات پر قائل کرے کہ اگر یہ اطلاعات بے بنیاد ہیں تو حقائق دنیا کے سامنے لائے جائیں اور اگر ایغور مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے تو اسے فوری بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ مذہب سے زیادہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، اقوام متحدہ نے بھی اسی حوالے سے بات کی ہے لیکن اقوام متحدہ کا طرزعمل ہمارے سامنے ہے۔ اقوام متحدہ اور اس جیسے عالمی ادارے مسلمانوں کے معاملے پر تو جس دہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ہمیں کشمیر اور فلسطین کے معاملات پر ان کے رویوں نے بہت کچھ سکھادیا ہے۔
گو کہ یہ نہایت حساس مسئلہ ہے، جس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن سکتے ہیں لیکن ہمیں نہایت دانشمندی کے ساتھ اس مسئلے پر کردار ادا کرنا ہے، ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ حکومت چین کے ساتھ کوئی مخاصمت مول لے۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بھی اس حقیقت کو بیان کیا کہ چین ہمارا دوست ملک ہے، اس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا البتہ دوستانہ ماحول میں چین کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں ، ریاستی اداروں ، حکومت پاکستان، بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کا نوٹس لیں اور اس میں اپنا کردار ادا کریں۔
چلتے چلتے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ پربھی گفتگو ہوجائے۔ یہ رپورٹ بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات پر مبنی ہے، پاکستان میں تمام مسالک اور مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف مذہبی آزادی نہ ہونے کا الزام لگانا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو آئین اور قانون کے تحت مکمل مذہبی ، سیاسی ، معاشی و معاشرتی آزادی حاصل ہے۔ اس بات کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا ہوگا کہ اس امریکی رپورٹ کو پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں نے بھی جھوٹا قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔
تمام اقلیتیں ملک کے آئین اور قانون کا ناصرف احترام کرتی ہیں بلکہ انھیں دل سے تسلیم بھی کرتی ہیں۔کیا امریکی انتظامیہ اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے کہ امریکا میں کوئی امریکی آئین کو تسلیم نہ کرے؟ اسی طرح پاکستان کی حکومت بھی آئین اور قانون کو تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے لہٰذا امریکا زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے قائم کرے اورایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے یہ تاثر ملے کہ پاکستان دشمن قوتوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔امریکا کی جانب سے دوران سماعت توہین رسالت کے کیسوں کے ملزمان کی رہائی کا مطالبہ ناصرف ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ پاکستانی معاشرے کے امن کو تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش بھی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ایمان کی اساس ہے، کوئی طاقت قانون تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت کو ختم نہیں کرسکتی۔حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بیرون ملک جاکر ایسا منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کریں اور انھیں گرفتار کرکے غداری کے مقدمات درج کیے جائیں۔عقیدہ ختم نبوت ایمان کی بنیاد ہے اس کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ پاکستان کے غیور عوام کسی کو تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت کے قوانین پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاہے کہ امریکا کو بھارت میں اقلیتوں پرہونے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے ، آخر کیوں؟ متنازع شہریت قانون پر سارا بھارت سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، پرامن مظاہرین کوریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بھارت میں بسنے والی کوئی اقلیت مودی سرکار کے شر سے محفوظ نہیں ، وہاں کوئی ایک اقلیت بھی ایسی نہیں ہے جس کی عبادت گاہوں پر حملے نہ ہوئے ہوں۔سکھوں کے گولڈن ٹیمپل اور مسلمانوں کی بابری مسجد پر حملے ہوئے ، حتیٰ کہ مسلمانوں کی بابری مسجدکو شہید کر دیا گیا اور بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے دہشت گرد ہندو تنظیموں اور سرکار کے دباؤ میں انصاف کے گلے پر چھری چلائی گئی۔ بھارت میں دو سو سے زائد چرچ جلائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چارماہ سے لگاتار کرفیو لگا کر کشمیریوں پر زندگی کے دروازے بند کرنے کی کوشش جاری ہے۔امریکا ان مظالم پرکیوں خاموش ہے؟ امریکا اور عالمی طاقتیں دنیا میں امن قائم کرنا چاہتی ہیں تو انھیں دو ہرا معیار ترک کرکے انصاف کا دامن تھامنا ہوگا ورنہ دنیا سے امن اٹھ جائے گا۔
مسلمان دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے، جس کا لہو دنیا کے نقشے پر جگہ جگہ بہتا ہوا نظر آرہا ہے، کشمیر ، فلسطین ، شام ،عراق ،افغانستان، بھارت ، برما سمیت کون سا ایسا خطہ ہے جو مسلمانوں کے لہو سے سرخ دکھائی نہ دے۔ دنیا بھر کے دانشور ، مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ بن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار کو بدلیں کہ بربریت کی مثالیں ، انسانی قتل کی نئی شرح لکھیں یا قتل آمادہ جمہوریت کی توصیف بیان کریں۔
بڑے ملکوں کی قوت کو انسانی قتل کے استعارہ کے طور پر استعمال کیا جائے یا جنگل کے قانون کی طرح مراجعت کی مجبوری سمجھی جائے۔یہ سوال کل بھی اپنے جواب کی تلاش میں تھا اور آج بھی اس کی کھوج کا یہ عمل جاری ہے کیونکہ جواب تسلی بخش نہیں مل پا رہا ، یہ سوال جس قدر دو ٹوک ، سادہ اور منطقی ہے اس کا جوجواب دیا جاتا ہے وہ اسی قدر مبہم ، پیچیدہ اور غیر واضح ہے۔ اس وقت اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور اس کو ماننے والے مسلمانوں کی تعداد دو ارب کے لگ بھگ ہے، دنیا کے نقشے پر موجود اسلامی ممالک کی تعداد 57 ہے لیکن سب کے سب بے بس اور لاچار کھڑے ہیں۔
مسلم حکمران جن کے ساتھ ہیں وہ اس ساتھ کی قیمت لگائے بیٹھے ہیں اور اس ساتھ میں ہم جن کے خلاف ہوگئے ہیں وہ ہم سے اس مخالفت کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں۔ نجانے کتنی فصل ِسر کٹے گی تو یہ قیمت ادا ہوگی، ابھی تک تو صرف فصل سر کٹتی ہی چلی جارہی ہے، کٹائی کا یہ سلسلہ کبھی شام میں شروع ہوجاتا ہے، کبھی افغانستان میں ، کبھی کشمیر میں شروع ہوجاتا ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی برما کے مسلمانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں تو کبھی یمن کے، اب اطلاعات یہ موصول ہورہی ہیں کہ چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ کے مسلمان بھی ظلم کاشکار ہیں۔ سنکیانگ کی سرحد پاکستان کے ساتھ لگتی ہے، تاریخ کے اوراق میں اس خطے کا تعارف کاشغر کے نام سے کراتے ہیں جس کا نام مابعد تبدیل کرکے سنکیانگ رکھ دیا گیا ہے۔
سنکیانگ میں مسلمانوں کی صورتحال پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا زیادہ سرگرم نظر آیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوںکی ویڈیوز دیکھ کر روح کانپ گئی، وہ پریشان کن صورتحال کا شکار ہیں ۔ ایک عرصہ سے ایسی خبریں اور ویڈیوز آرہی تھیں تاہم ان کے بارے میں کہا جاتارہا کہ یہ چین کے خلاف پراپیگنڈا مہم کا حصہ ہے اور چین مخالف عناصر یہ خبریں پھیلا رہے ہیں لیکن اب اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کی کمیٹی کی باقاعدہ رپورٹ سامنے آئی ہے جس میںدعویٰ کیا گیا ہے کہ تقریباً دس لاکھ مسلمان حراستی کیمپوں میں ہیں ۔ ترکی کے علاوہ ابھی تک کسی مسلمان ملک یا شخصیت نے اس صورتحال پر اعلائے کلمتہ الحق بلند نہیں کیا۔
57 اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم او آئی سی بھی حسب روایت خواب غفلت میں ڈوبی نظر آرہی ہے، اس کی آنکھوں پر بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ او آئی سی محض ''اوہ آئی سی '' بن کر رہ گئی ہے، نجانے اس مردہ گھوڑے میں کب جان پڑے گی اور کب یہ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بنے گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چین پا کستان کا سب سے قریبی دوست ہے، اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ دوستی ہمالیہ سے بلند اورشہد سے زیادہ میٹھی ہے لیکن سنکیانگ سے جو اطلاعات آرہی ہیں اس پر آواز بلند کرنے کی ذمے داری سب سے زیادہ پاکستان کی ہے کیونکہ پاکستان اسلامی دنیا کا ایک بڑااور ایٹمی قوت کا حامل ملک ہے۔
عالم اسلام میں آج بھی پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ ایسی اطلاعات سے عوامی جذبات کا بھڑکنا فطری بات ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ایغور مسلمانوں کے ایشو پر چینی حکومت سے بات کرے، اسے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرے اور اس بات پر قائل کرے کہ اگر یہ اطلاعات بے بنیاد ہیں تو حقائق دنیا کے سامنے لائے جائیں اور اگر ایغور مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے تو اسے فوری بند ہونا چاہیے کیونکہ یہ مذہب سے زیادہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، اقوام متحدہ نے بھی اسی حوالے سے بات کی ہے لیکن اقوام متحدہ کا طرزعمل ہمارے سامنے ہے۔ اقوام متحدہ اور اس جیسے عالمی ادارے مسلمانوں کے معاملے پر تو جس دہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ہمیں کشمیر اور فلسطین کے معاملات پر ان کے رویوں نے بہت کچھ سکھادیا ہے۔
گو کہ یہ نہایت حساس مسئلہ ہے، جس پر پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن سکتے ہیں لیکن ہمیں نہایت دانشمندی کے ساتھ اس مسئلے پر کردار ادا کرنا ہے، ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ حکومت چین کے ساتھ کوئی مخاصمت مول لے۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل بھی اس حقیقت کو بیان کیا کہ چین ہمارا دوست ملک ہے، اس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا البتہ دوستانہ ماحول میں چین کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں ، ریاستی اداروں ، حکومت پاکستان، بالخصوص اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کا نوٹس لیں اور اس میں اپنا کردار ادا کریں۔
چلتے چلتے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان میں مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ پربھی گفتگو ہوجائے۔ یہ رپورٹ بے بنیاد اور جھوٹی اطلاعات پر مبنی ہے، پاکستان میں تمام مسالک اور مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف مذہبی آزادی نہ ہونے کا الزام لگانا افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو آئین اور قانون کے تحت مکمل مذہبی ، سیاسی ، معاشی و معاشرتی آزادی حاصل ہے۔ اس بات کا ثبوت اس سے بڑا اور کیا ہوگا کہ اس امریکی رپورٹ کو پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں نے بھی جھوٹا قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔
تمام اقلیتیں ملک کے آئین اور قانون کا ناصرف احترام کرتی ہیں بلکہ انھیں دل سے تسلیم بھی کرتی ہیں۔کیا امریکی انتظامیہ اس بات کو تسلیم کرسکتی ہے کہ امریکا میں کوئی امریکی آئین کو تسلیم نہ کرے؟ اسی طرح پاکستان کی حکومت بھی آئین اور قانون کو تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے لہٰذا امریکا زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے قائم کرے اورایسے اقدامات سے گریز کرے جس سے یہ تاثر ملے کہ پاکستان دشمن قوتوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔امریکا کی جانب سے دوران سماعت توہین رسالت کے کیسوں کے ملزمان کی رہائی کا مطالبہ ناصرف ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ پاکستانی معاشرے کے امن کو تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش بھی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت ایمان کی اساس ہے، کوئی طاقت قانون تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت کو ختم نہیں کرسکتی۔حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بیرون ملک جاکر ایسا منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کریں اور انھیں گرفتار کرکے غداری کے مقدمات درج کیے جائیں۔عقیدہ ختم نبوت ایمان کی بنیاد ہے اس کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ پاکستان کے غیور عوام کسی کو تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالت کے قوانین پر شب خون مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاہے کہ امریکا کو بھارت میں اقلیتوں پرہونے والے مظالم دکھائی نہیں دیتے ، آخر کیوں؟ متنازع شہریت قانون پر سارا بھارت سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، پرامن مظاہرین کوریاستی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بھارت میں بسنے والی کوئی اقلیت مودی سرکار کے شر سے محفوظ نہیں ، وہاں کوئی ایک اقلیت بھی ایسی نہیں ہے جس کی عبادت گاہوں پر حملے نہ ہوئے ہوں۔سکھوں کے گولڈن ٹیمپل اور مسلمانوں کی بابری مسجد پر حملے ہوئے ، حتیٰ کہ مسلمانوں کی بابری مسجدکو شہید کر دیا گیا اور بابری مسجد کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے دہشت گرد ہندو تنظیموں اور سرکار کے دباؤ میں انصاف کے گلے پر چھری چلائی گئی۔ بھارت میں دو سو سے زائد چرچ جلائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ چارماہ سے لگاتار کرفیو لگا کر کشمیریوں پر زندگی کے دروازے بند کرنے کی کوشش جاری ہے۔امریکا ان مظالم پرکیوں خاموش ہے؟ امریکا اور عالمی طاقتیں دنیا میں امن قائم کرنا چاہتی ہیں تو انھیں دو ہرا معیار ترک کرکے انصاف کا دامن تھامنا ہوگا ورنہ دنیا سے امن اٹھ جائے گا۔