2019 مظاہروں کا سال…دوسرا اورآخری حصہ
عراق میں اکتوبر سے جاری مظاہرے تادمِ تحریر جاری ہیں۔
لبنان میں مظاہروں کا آغاز واٹس ایپ کی کال پر مجوزہ ٹیکسوں کی وجہ سے ہوا۔ اگرچہ احتجاج کے بعد یہ ٹیکس واپس لے لیا گیا لیکن عوام معاشی بد عنوانی اور بدنظمی کے خلاف متحد ہوگئے۔ ان مظاہروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ کسی بھی قسم کے فرقہ وارانہ تعصب سے پاک تھے، جب کہ لبنان کا ماضی اس تعصب میں لتھڑا ہوا ہے۔ ان مظاہرین کا مطالبہ وزیر اعظم سعد الحریری کا استعفا تھا۔
استعفے کے بعد یہ مظاہرے ذرا دیرکو تھمے لیکن نومبر کے مہینے میں ایک بار پھر لبنان کی سڑکوں پر مظاہرین کے چھوٹے چھوٹے گروہ نکل آئے۔ اس بار ان کا مطالبہ عوام کی امنگوں کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل تھا۔ لبنان میں ہونے والے ان مظاہروں میں دس لاکھ افراد سڑکوں پر جمع ہوئے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ہم نے ان مظاہروں میں فرقہ واریت پر قابو پا کر لبنان کو نئی پہچان دی ہے۔
عراق میں اکتوبر سے جاری مظاہرے تادمِ تحریر جاری ہیں۔ دسمبر میں ، ان مظاہروں میں شدت کے بعد عراقی پارلیمان نے وزیراعظم عبدالمہدی کا استعفٰی منظورکر لیا۔ اکتوبرکے اوائل میں بغداد سمیت عراق کے دیگر شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ حکومتی غلط ردِ عمل کی وجہ سے یہ مظاہرے جلد ہی پرتشدد مظاہروں میں بدل گئے، جس میں چار سو افراد ہلاک جب کہ ہزاروں عراقی شہری زخمی ہوگئے۔
ان مظاہرین کا مطالبہ نوکریوں کی فراہمی ، کرپشن کا خاتمہ اور بہترین شہری سہولیات کا حصول ہے۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ان مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل آتشیں اسلحے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین میں ایران کے خلاف کافی غم و غصہ پایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے ایرانی قونصل خانے کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث وہاں کرفیو بھی نافذ رہا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں۔ ان مظاہروں میں پانچ سوکے قریب مظاہرین ہلاک ، جب کہ بیس ہزارکے قریب زخمی ہو ئے۔
water revolutionکے نام سے ہانگ کانگ میں چھ ماہ سے مظاہرے جاری ہیں، جن میں اب تک گیارہ افراد ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار زخمی ہوگئے ہیں۔ اس وقت بھی سڑکوں پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہے۔ چین کی حکومت کی جانب سے ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون سازی کی جوکوشش کی گئی، اس کے خلاف عوام ہانگ کانگ میں مظاہروں پر عائد پابندی کو جوتوں تلے روندتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اب ہانگ کانگ اور چین، دونوں حکومتوں کی تمام ترکوششوں کے باوجود مظاہرین قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے لیکن 2047 تک اسے خصوصی آزادیاں دی گئی ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ چین ہانگ کانگ کو اپنا ایک شہر بنانا چاہ رہا ہے، جو انھیں قبول نہیں۔ ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں چین کی براہِ راست مداخلت ایک عرصے سے جاری ہے، جس سے لوگ بری طرح خائف ہیں۔ چین ہانگ کانگ کو مزید سیاسی اور جمہوری آزادی دینا نہیں چاہتا ، لہٰذا یہ مظاہرے چین کی حاکمیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج بن چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہانگ کانگ کے مظاہروں کے حق میں بل کی منظوری دے ڈالی ، جس پر چین نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے سخت جوابی اقدام کی دھمکی دی۔
21اکتوبر کو بنگلہ دیش میں ایک فیس بک پوسٹ پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ ہزاروں مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس سے 4 افراد جاں بحق جب کہ سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ فیس بک پوسٹ ایک ہندو نوجوان کی تھی جسے توہین مذہب پر مبنی قرار دیا گیا۔ 16 کروڑ 80 لاکھ مسلمانوں کی آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں گستاخانہ سمجھی جانے والے فیس بک پوسٹس پر یہ مظاہرے سیکیوریٹی فورسز کے لیے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے۔
جزیرے بھولا کے علاقے برہان الدین میں نماز کی اجتماع گاہ میں اندازاً 20 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ ہندو نوجوان کی پھانسی کا مطالبہ کیا۔ اکتوبر میں ہی ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد کے خلاف پُر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے ، جن میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 67 افراد ہلاک ہوئے۔ ایتھوپیا میں وزیر اعظم ابی احمد کے خلاف سماجی کارکن جوار محمد کی اپیل پر ہونے والے مظاہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے تشدد کی صورت اختیار کر لی اور اسی دوران نسلی جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔
2019 میں روس کی سڑکوں پر بھی تماشا لگا رہا۔ ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ مظاہرین گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونسے گئے۔ صرف جولائی کے مہینے میں ایک ہزارگرفتاریاں ہوئیں۔ روس میں یہ مظاہرے اپوزیشن کی طرف سے مقامی انتخابات کے شفاف انعقادکے لیے شروع کیے گئے۔ 2018میں فرانس میں شروع ہونے والے یلو ویسٹ مظاہروں کا زور 2019 میں بھی رہا۔ فرانس کے صدر میکرون کی پالیسیوں پر مظاہرین پورا سال عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے چھوٹے بڑے مظاہرے کرتے رہے۔ فرانس میں یہ مظاہرے دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شروع کیے گئے، ان کو کچلنے کے لیے فرانسیسی حکومت نے اکثر سختی سے بھی کام لیا اورگرفتاریاں بھی کی گئیں۔ ان مظاہروں میں فرانس میں اب تک گیارہ افراد ہلاک ، ساڑھے چار ہزار زخمی اور بارہ ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔
بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ کی سڑکوں کو بلاک کیے ہوئے ہزاروں مظاہرین برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ دوسری طرف اگست کے مہینے میں برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی ملک بھر میں شدید مظاہروں کا باعث بن گئی۔
یہ تو وہ بڑے واقعات تھے، جو عوامی مظاہروں کا روپ دھارکر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوئے، ان کے علاوہ کتنے ہی مظاہرے تو وہ ہیں پوری دنیا میں چھوٹے پیمانے پر ہوتے رہے۔ ان سب کا جائزہ لے کر ذہن میں صرف ایک ہی بات کی تکرار ہوتی ہے کہ دنیا میں چاروں طرف آگ لگ چکی ہے ، ایک نہ تھمنے والا ہنگامہ برپا ہے۔ ناقابلِ برداشت شوروغل نے کانوں کے پردے پھاڑ رکھے ہیں۔
ہرکوئی بے چین ہے ، ہر کونے میں افراتفری کا منظر ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی اپنی زندگی اور اطراف ہونے والے واقعات سے خوش نہیں۔ کہنے کو تو یہ بے چینی اور افراتفری تبدیلی کے لیے ہے لیکن تبدیلی کے نام پر ماضی میں بھی بے شمار ہنگامے اور مظاہرے ہوتے رہے، ان کے نتیجے میں بڑی بڑی تبدیلیاں بھی لائی گئیں یہاں تک کہ انقلاب نے بھی دروازوں پر دستک دی مگر ان تبدیلیوں نے انسانیت کو آخر کیا دیا۔ مزید بے سکونی اور مزید بے چینی۔ شاید اسی لیے امن اور سکون اس زمین کی زینت نہ بن سکا۔
استعفے کے بعد یہ مظاہرے ذرا دیرکو تھمے لیکن نومبر کے مہینے میں ایک بار پھر لبنان کی سڑکوں پر مظاہرین کے چھوٹے چھوٹے گروہ نکل آئے۔ اس بار ان کا مطالبہ عوام کی امنگوں کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل تھا۔ لبنان میں ہونے والے ان مظاہروں میں دس لاکھ افراد سڑکوں پر جمع ہوئے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ہم نے ان مظاہروں میں فرقہ واریت پر قابو پا کر لبنان کو نئی پہچان دی ہے۔
عراق میں اکتوبر سے جاری مظاہرے تادمِ تحریر جاری ہیں۔ دسمبر میں ، ان مظاہروں میں شدت کے بعد عراقی پارلیمان نے وزیراعظم عبدالمہدی کا استعفٰی منظورکر لیا۔ اکتوبرکے اوائل میں بغداد سمیت عراق کے دیگر شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ حکومتی غلط ردِ عمل کی وجہ سے یہ مظاہرے جلد ہی پرتشدد مظاہروں میں بدل گئے، جس میں چار سو افراد ہلاک جب کہ ہزاروں عراقی شہری زخمی ہوگئے۔
ان مظاہرین کا مطالبہ نوکریوں کی فراہمی ، کرپشن کا خاتمہ اور بہترین شہری سہولیات کا حصول ہے۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ان مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل آتشیں اسلحے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین میں ایران کے خلاف کافی غم و غصہ پایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے ایرانی قونصل خانے کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ عراق کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث وہاں کرفیو بھی نافذ رہا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بلاک کر دی گئیں۔ ان مظاہروں میں پانچ سوکے قریب مظاہرین ہلاک ، جب کہ بیس ہزارکے قریب زخمی ہو ئے۔
water revolutionکے نام سے ہانگ کانگ میں چھ ماہ سے مظاہرے جاری ہیں، جن میں اب تک گیارہ افراد ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار زخمی ہوگئے ہیں۔ اس وقت بھی سڑکوں پر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہے۔ چین کی حکومت کی جانب سے ملزمان کی حوالگی سے متعلق قانون سازی کی جوکوشش کی گئی، اس کے خلاف عوام ہانگ کانگ میں مظاہروں پر عائد پابندی کو جوتوں تلے روندتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ اب ہانگ کانگ اور چین، دونوں حکومتوں کی تمام ترکوششوں کے باوجود مظاہرین قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ ہانگ کانگ چین کا حصہ ہے لیکن 2047 تک اسے خصوصی آزادیاں دی گئی ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ چین ہانگ کانگ کو اپنا ایک شہر بنانا چاہ رہا ہے، جو انھیں قبول نہیں۔ ہانگ کانگ کے اندرونی معاملات میں چین کی براہِ راست مداخلت ایک عرصے سے جاری ہے، جس سے لوگ بری طرح خائف ہیں۔ چین ہانگ کانگ کو مزید سیاسی اور جمہوری آزادی دینا نہیں چاہتا ، لہٰذا یہ مظاہرے چین کی حاکمیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلینج بن چکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہانگ کانگ کے مظاہروں کے حق میں بل کی منظوری دے ڈالی ، جس پر چین نے شدید ردِعمل دیتے ہوئے سخت جوابی اقدام کی دھمکی دی۔
21اکتوبر کو بنگلہ دیش میں ایک فیس بک پوسٹ پر مظاہرے شروع ہوگئے۔ ہزاروں مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس سے 4 افراد جاں بحق جب کہ سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ فیس بک پوسٹ ایک ہندو نوجوان کی تھی جسے توہین مذہب پر مبنی قرار دیا گیا۔ 16 کروڑ 80 لاکھ مسلمانوں کی آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں گستاخانہ سمجھی جانے والے فیس بک پوسٹس پر یہ مظاہرے سیکیوریٹی فورسز کے لیے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے۔
جزیرے بھولا کے علاقے برہان الدین میں نماز کی اجتماع گاہ میں اندازاً 20 ہزار افراد نے مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ ہندو نوجوان کی پھانسی کا مطالبہ کیا۔ اکتوبر میں ہی ایتھوپیا کے وزیراعظم ابی احمد کے خلاف پُر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے ، جن میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 67 افراد ہلاک ہوئے۔ ایتھوپیا میں وزیر اعظم ابی احمد کے خلاف سماجی کارکن جوار محمد کی اپیل پر ہونے والے مظاہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے تشدد کی صورت اختیار کر لی اور اسی دوران نسلی جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔
2019 میں روس کی سڑکوں پر بھی تماشا لگا رہا۔ ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ مظاہرین گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونسے گئے۔ صرف جولائی کے مہینے میں ایک ہزارگرفتاریاں ہوئیں۔ روس میں یہ مظاہرے اپوزیشن کی طرف سے مقامی انتخابات کے شفاف انعقادکے لیے شروع کیے گئے۔ 2018میں فرانس میں شروع ہونے والے یلو ویسٹ مظاہروں کا زور 2019 میں بھی رہا۔ فرانس کے صدر میکرون کی پالیسیوں پر مظاہرین پورا سال عدم اعتماد کا اظہار کر تے ہوئے چھوٹے بڑے مظاہرے کرتے رہے۔ فرانس میں یہ مظاہرے دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شروع کیے گئے، ان کو کچلنے کے لیے فرانسیسی حکومت نے اکثر سختی سے بھی کام لیا اورگرفتاریاں بھی کی گئیں۔ ان مظاہروں میں فرانس میں اب تک گیارہ افراد ہلاک ، ساڑھے چار ہزار زخمی اور بارہ ہزار سے زائد افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔
بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ کی سڑکوں کو بلاک کیے ہوئے ہزاروں مظاہرین برطانیہ سے علیحدگی کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کرتے نظر آئے۔ دوسری طرف اگست کے مہینے میں برطانیہ میں پارلیمنٹ کی معطلی ملک بھر میں شدید مظاہروں کا باعث بن گئی۔
یہ تو وہ بڑے واقعات تھے، جو عوامی مظاہروں کا روپ دھارکر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوئے، ان کے علاوہ کتنے ہی مظاہرے تو وہ ہیں پوری دنیا میں چھوٹے پیمانے پر ہوتے رہے۔ ان سب کا جائزہ لے کر ذہن میں صرف ایک ہی بات کی تکرار ہوتی ہے کہ دنیا میں چاروں طرف آگ لگ چکی ہے ، ایک نہ تھمنے والا ہنگامہ برپا ہے۔ ناقابلِ برداشت شوروغل نے کانوں کے پردے پھاڑ رکھے ہیں۔
ہرکوئی بے چین ہے ، ہر کونے میں افراتفری کا منظر ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی اپنی زندگی اور اطراف ہونے والے واقعات سے خوش نہیں۔ کہنے کو تو یہ بے چینی اور افراتفری تبدیلی کے لیے ہے لیکن تبدیلی کے نام پر ماضی میں بھی بے شمار ہنگامے اور مظاہرے ہوتے رہے، ان کے نتیجے میں بڑی بڑی تبدیلیاں بھی لائی گئیں یہاں تک کہ انقلاب نے بھی دروازوں پر دستک دی مگر ان تبدیلیوں نے انسانیت کو آخر کیا دیا۔ مزید بے سکونی اور مزید بے چینی۔ شاید اسی لیے امن اور سکون اس زمین کی زینت نہ بن سکا۔