اقتدار ملتے ہی آمریت
ہر بڑے لیڈر کو حالات کے مطابق یو ٹرن لے کر اپنے بڑے لیڈر کا ثبوت دینا ہی پڑتا ہے۔
اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کے اپنے سابقہ اعلانات اور بیانات سے انحراف پرکڑی تنقید کررہی ہے تو پی ٹی آئی کے اندر بھی اس پر بحث جاری ہے۔ عمران خان بھی سوا سالہ اقتدار کے نتیجے میں حقائق کا ادراک کرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اقتدار سے قبل پارٹی کو آگے بڑھانے کے لیے بہت سی باتیں پارٹی سربراہ کے طور پرکرنا پڑتی تھیں اور بطور وزیر اعظم بلکہ بہت کچھ تبدیل کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم پر الزام ہے کہ وہ اپنے سابقہ موقف پر سوا سو کے قریب یو ٹرن سوا سال میں لے چکے ہیں اور عمران خان یہ حقیقت بھی مان چکے ہیں کہ ہر بڑے لیڈر کو حالات کے مطابق یو ٹرن لے کر اپنے بڑے لیڈر کا ثبوت دینا ہی پڑتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے قبل ہر لیڈر ہی اپنے بیان و تقریر سے منحرف ہو جاتا تھا اور پرنٹ میڈیا پر الزام لگا دیتا تھا کہ اس نے غلط خبر شایع کی ہے، میں نے ایسے کہا ہی نہیں تھا۔ سیاست کی ڈھٹائی اب یہ ہے کہ متعلقہ لیڈر کے کہے گئے بیانات اور تقاریر جو اب ریکارڈ ہو جاتی ہیں انھیں سنا کر یاد دلانے کی الیکٹرانک میڈیا بار بار دکھائے مگر پھر کہا جاتا ہے کہ میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں تھا یا میڈیا نے میرا غلط موقف پیش کیا ہے۔
عمران خان پر یوٹرن لینے کی باتیں سو فیصد درست سہی مگر انھوں نے حقائق مان لیے اور یو ٹرن لینے کا جواز بھی پیش کر دیا کیونکہ ایسا کرنا ان کی مجبوری بن گئی اور انھوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اقتدار کے لیے غیر حقیقی دعوے کرنا پڑتے ہیں اور حکومت وقت پر اپنی سیاست چمکانے کے لیے غیر ضروری اور حقائق کے برخلاف الٹے سیدھے الزامات لگانا پڑتے ہیں اور اقتدار میں آکر جب انھیں حقائق اور اپنی مجبوریوں کا علم ہوتا ہے تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف نے بھی عمران خان جیسی باتیں آصف علی زرداری سے متعلق کی تھیں کہ اقتدار میں آکر انھیں الٹا لٹکاؤں گا مگر بعد میں شہباز شریف کو اپنے اقتدار میں ہی یوٹرن لینا پڑا تھا اور آصف زرداری سے اپنے بیان پر معذرت کرنا پڑی تھی، جو ان کا اچھا فیصلہ تھا۔ عمران خان کے پاس کسی ایسی معذرت کا وجود نہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے بعض دفعہ اپنے جوشیلے خطاب پر عمل کرکے بھی دکھایا جس کی واضح مثال مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کی ہے۔
جنھیں عمران خان نے کھلے عام کہا تھا کہ میں اقتدار میں آکر رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سے پکڑ کر جیل میں ڈالوں گا اور انھوں نے اپنے ایک وزیر کے ذریعے یہ کرکے بھی دکھا دیا اور ان کے وزیر نے رانا ثنااللہ پر منشیات کی اسمگلنگ کا جو مبینہ مقدمہ بنوایا اس میں آخر کہیں جھول رہ ہی گیا۔ جس کی نشاندہی میڈیا کر بھی رہا تھا اور آخر کئی ماہ جیل میں رہنے کے بعد رانا ثنا اللہ کی ضمانت ہوگئی اور وہ وفاقی وزیر جو اس مبینہ بے بنیاد ہیروئن برآمدگی کے مسئلے پر بار بار کہتے تھے کہ مجھے اپنے خدا کو منہ دکھانا ہے وہ اب پریشان ہیں؟
پی ٹی آئی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کبھی کسی یونین کونسل کے چیئرمین بھی نہیں رہے تھے مگر انھیں صدر مملکت، وفاقی و صوبائی وزیر اور مشیر و معاونین خصوصی بننے پر اقتدار مل گیا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے اور اپنے چیئرمین کی خوشنودی کے لیے انھوں نے ایسی ایسی جذباتی تقریریں کیں اور بیانات دیے جیسے انھیں ساری عمر ہی اقتدار میں رہنا ہے، اپوزیشن میں واپس نہیں آنا۔ اقتدار تو بادشاہوں کا بھی ختم ہوتا آیا ہے جب کہ جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کرکے آمرانہ مظاہرہ کرنے والوں کے اقتدار کا تو ویسے بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ کب سابق بنا دیے جائیں۔
اقتدارکے لیے جھوٹے دعوے اور بے بنیاد جھوٹ اب ہماری سیاست کی سب سے زیادہ ضرورت بن چکا ہے کیونکہ جھوٹ کے بغیر سیاست چل ہی نہیں سکتی کیونکہ جھوٹ سیاست میں مجبوری بن چکا ہے اور جھوٹ کی طرح اقتدار میں آکر اپنے سابقہ موقفوں سے انحراف بھی اب ایک سیاسی مجبوری اور ضرورت ہے اور سیاست کامیاب ہی اس صورت میں ہوتی ہے۔
آج ریاست مدینہ کی بات کی جاتی ہے مگر عملی طور پر ایسا ممکن ہے ہی نہیں کیونکہ اس وقت حکمرانوں کو عوام کا بہت زیادہ احساس تھا اور ان کے عوام بھی آج جیسے نہیں تھے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جیسے عوام ہوتے ہیں انھیں حکمران بھی ان جیسے ہی ملتے ہیں اس لیے عوام کا شکوہ حکمرانوں سے ہے ہی نہیں کیونکہ عوام بھی حکمرانوں کے ہر اقدام کا توڑ نکال ہی لیتے ہیں۔
موجودہ حکومت ملکی معیشت کی بدحالی کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے اور ملک میں ٹیکسوں کی وصولی کی شرح بڑھانا چاہتی ہے اور ٹیکس گزار ٹیکس بچانے کے لیے نئے نئے راستے نکال لیتے ہیں اور یہ راستے انھیں ٹیکس وصول کرنے والے افسران اور انکم ٹیکس ریٹرن بنا کر دینے والے وکلا کی دکھاتے ہیں اور حکومت کی ٹیکس وصولی بڑھانے کی کوشش ناکام بنا دی جاتی ہے۔
موجودہ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف خود کوئی کارروائی نہیں کر رہی بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی حکومتوں میں جوکرپشن ہوئی تھی اس پر ہی مقدمات کھل رہے ہیں اور موجودہ حکومت کا ان مقدمات سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور ماضی میں دونوں پارٹیوں نے ہی ایک دوسرے پر یہ مقدمات قائم کیے تھے۔
موجودہ حکومت کے بعض وزرا اور حکومتی ترجمان ہر ٹاک شو میں سابق حکمرانوں پر برستے نظر آتے ہیں اور ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہی ہے جب کہ اپوزیشن کے نزدیک مہنگائی اور بے روزگاری ملک کے مسائل میں سرفہرست ہے جس کی ذمے داری اپوزیشن حکومت پر ڈالتی ہے تو حکومت موجودہ صورتحال کا ذمے دار سابقہ حکومتی پارٹیوں کو مسلسل قرار دیتی آرہی ہے حالانکہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی حکومت نہیں ہے مگر موجودہ حکمران تمام خرابیوں کا ذمے دار سابق حکمرانوں ہی کو قرار دینے میں مصروف ہیں جسے اپوزیشن تسلیم نہیں کر رہی۔
سابق حکمرانوں میں آصف زرداری واحد حکمران ہیں جنھوں نے اپنی حکومت میں کسی کو لٹکانے اور کسی کو مونچھوں سے پکڑکر جیل میں ڈالنے جیسی کوئی بات نہیں کی اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے دور میں کسی کے خلاف سیاسی بنیاد پر انتقامی کارروائی نہیں کی گئی مگر وہ بھول گئے کہ انھوں نے سیاسی بنیاد پر اپنے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ذریعے پنجاب سے شہباز شریف کی حکومت ختم کرا کر گورنر راج لگایا تھا ۔ البتہ گورنر پنجاب مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی نہ توڑ سکے تھے اور عدالت سے گورنر راج غیر آئینی قرار پایا تھا اور (ن) لیگی حکومت بحال کردی گئی تھی۔
جھوٹے دعوے اقتدار ہی میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی ہوتے ہیں جیسے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے برطانوی اخبار کے خلاف لندن میں کیس کرنے کا اعلان بڑے فخر سے کیا تھا کہ شہزاد اکبر کے الزامات سے ان کے ہاتھ ایشو آگیا ہے جسے وہ نہیں چھوڑیں گے اور کئی ماہ بعد اور ایک ماہ سے زائد عرصے تک لندن میں رہ کر بھی شہباز شریف کچھ نہیں کرسکے، وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر انھیں بار بار ان کا اعلان یاد دلا رہے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان نے بھی بہت اعلانات کیے تھے مگر رانا ثنا اللہ کو جیل میں ڈالنے کے اعلان پر عمل کرنے کے سوا وزیر اعظم کے کسی وعدے پر عمل نظر نہیں آیا۔
عوام سے ووٹ لینے کے لیے ہر سیاسی لیڈر بے بنیاد الزامات لگاتا ہے عوام سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے اعلانات ہوتے ہیں پھر اقتدار میں آکر انھیں پارلیمنٹ آنے کی فرصت بھی نہیں ملتی۔ مہنگائی بڑھنے کا الزام حکمرانوں پر لگانے والے خود حکمران بن کر مہنگائی مزید بڑھا دیتے ہیں اور ان کے اقدامات سے پریشان عوام کو یہ تسلی ضرور دیتے آرہے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔
اب تک تو ملک میں اقتدار میں آنے والوں نے جمہوریت کی بات ضرور کی مگر جمہوریت کو فروغ کبھی نہیں دیا بلکہ اپنی شخصی آمریت مسلط کرکے دکھائی کہ اپوزیشن کو کھڈے لائن لگا دیا اور آئین کے برخلاف اپوزیشن لیڈر سے ملنا بھی گوارا نہیں کیا۔ حالانکہ اپوزیشن جمہوریت ہی کا حصہ ہے اور اب تک یہی ہوتا آرہا ہے کہ اپوزیشن کے بعد ہی سیاستدان اقتدار میں آئے ہیں۔