بے چارہ مستقبل کا مؤرخ
ہمیں مستقبل کے مؤرخ پر بڑا ترس آتا ہے، کیوں کہ اس بے چارے سے لوگوں نے بڑی امیدیں باندھ لی ہیں۔
جس معاشرے میں سچ پر خوف طاری ہو، حقائق بیان کرتے صحافی پر سنگ باری ہو اور صاف گو دانش ور پر وار کاری ہو، اُس سماج میں سچائی جاننے کے لیے ساری انحصاری مستقبل کے مؤرخ پر ہوتی ہے۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہم جن دو حضرات کی آمد کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان میں ایک تو ہے ''کوئی مسیحا'' اور دوسرا ہے ''مستقبل کا مؤرخ۔''
ہمیں مستقبل کے مؤرخ پر بڑا ترس آتا ہے، کیوں کہ اس بے چارے سے لوگوں نے بڑی امیدیں باندھ لی ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ وہ ان بندھی امیدوں کو دیکھ کر کہیں آتے ہی جانے کے لیے بستر نہ باندھ لے۔
اتنا ہی نہیں، لوگ تو یہ بھی طے کر چکے ہیں کہ مستقبل کا مورٔخ کیا لکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ مستقبل کا مؤرخ ہی کیوں لکھے، آخر حال کا مؤرخ کیا کر رہا ہے؟ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ کہ کوئی مؤرخ حال بلکہ اس قوم کے حال کی تاریخ لکھے اور ہم کہہ اُٹھیں
''مؤرخ'' مرحبا بروقت بولا
تِری آواز مَکّے اور مدینے
ہمارے ہی اس سوال کا جواب ہمارے ہی خیال میں یہ ہے کہ حال کا مؤرخ حالات حاضرہ ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہے کہ اگر حال میں رہتے ہوئے حال پر لکھا تو حال سے بے حال کردیا جائے گا، اور تاریخ لکھنے کے کچھ دنوں بعد ہی اس کے چالیسویں کی تاریخ کا اعلان ہورہا گا یا پھر اس کے لاپتا ہونے کے مقدمے میں تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہوگی۔ اس صورت حال میں ہمارا مؤرخ تاریخ طبری کے بہ جائے تاریخ ۔۔۔جبری ہی لکھ کر سکون سے رہ سکتا ہے۔
رہا مستقبل کا مؤرخ تو اس سے امید رکھنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بات یہ نہیں کہ مورٔخ تاریخ لکھنے کی کوشش نہیں کرے گا، کرے گا اور پوری نیک نیتی اور دل جمعی سے کرے گا، لیکن کام یاب نہیں ہوپائے گا۔ ہوگا یوں کہ وہ بے چارہ تحریری مواد کھنگالنے کے لیے کسی کُتب خانے میں بیٹھا ہوگا کہ اس کے اسمارٹ فون پر بیوی کا پیغام آئے گا،''کہاں ہیں؟'' ماضی کے اوراق میں گُم مورٔخ دھیان نہیں دے گا، کچھ دیر بعد بیوی کا دوسرا پیغام آئے گا،''جواب تو دیں''، وہ فون کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، پھر تواتر سے آنے والے پیغامات میں شوہر کی بے گانگی، بے حسی، بے پروائی، سنگ دلی کی تاریخ درج ہوگی۔
جس کے آخری باب کا عنوان ہوگا،''ضرور کسی کَل موہی کے ساتھ ہیں۔'' پھر واٹس ایپ پر کال آئے گی اور مؤرخ کا سارا استغراق یہ تقریر سُن کر درہم برہم کرجائے گا کہ ''آج مہینے کی دس تاریخ ہوگئی ہے لیکن آپ نے میرے ہاتھ پر کچھ نہیں رکھا، اب تک مُنے کی فیس نہیں گئی ہے، ٹماٹر خریدنے کے لیے کمیٹی ڈالی تھی اس کی قسط نہیں بھر پائی ہوں، بانوآپا سے دو چلغوزے ادھار لیے تھے، وہ واپسی کا تقاضا کر رہی ہیں، یہاں حال خراب ہے اور آپ کو تاریخ کی پڑی ہے۔'' یہ سب سُن کر مستقبل کا مؤرخ ماضی کی دستاویزات ایک طرف پٹخے گا اور یہ کہتے ہوئے گھر کی راہ لے گا،''چھڈو جی، دفع کرو، کوئی ہور کَم کریے۔'' کچھ دنوں بعد وہ ڈرائی کلینر کی دکان کھولے رسیدوں پر دھلے ہوئے کپڑون کی واپسی کی تاریخ ڈال رہا ہوگا یا ہومیوپیتھ بن کر کسی مریض کے مرض کی ہسٹری جان رہا ہوگا۔
یہ امکان بھی ہے کہ کسی طبی پیچیدگی کی وجہ سے کل کا مورٔخ کسی صنعت کار، جاگیردار یا سیاست میں سرمایہ کاری کرکے صنعتیں لگانے اور سیاسی جماعت کے نام پر اپنی جاگیر بنانے والے سیاست داں کے گھر جنم لے، یعنی وہ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہو اور چمچے میں چلغوزے رکھے ہوں۔ اس صورت میں وہ بچوں کی فیس، کمیٹی اور مکان کے کرائے جیسی فکروں سے آزاد ہوگا، لیکن اس کے مسائل دوسرے ہوں گے۔
وہ سوچے گا تاریخ کی تحقیق میں کئی سال لگانے میں کہیں میں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جاؤں، چناں چہ فوری نام وری کے لیے کسی اخبار میں کالم لکھنے لگے گا، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں ماہرِتاریخ کی حیثیت سے جائے گا، جہاں حکم راں جماعت کے کسی راہ نما سے اس بحث میں وقت گنوائے گا کہ جسے وزیراعظم خلیل جبران کے سر منڈھ چکے ہیں وہ ٹیگور کا قول ہے۔ اس سب سے جو وقت بچے کا اس میں مستقبل کا مؤرخ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے افکار عالیہ پوسٹ اور ٹوئٹ کرنے کے بعد اتنا تھک چکا ہوگا کہ تاریخی واقعات کی تحقیق، جائزے اور تجزیے کے بہ جائے تاریخ بگاڑ کر بنائی جانے والی کوئی بھارتی فلم جیسے ''پدماوتی'' دیکھے گا اور گانا ''نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ'' سُن کر خراٹے چھلکاتا ہوا سوجائے گا۔
چلیے مستقبل کے مورٔخ نے اگر ساری مصروفیات تج اور مجبوریوں سے بے نیاز ہوکر تاریخ لکھنے کی ٹھان ہی لی تو خدشہ ہے کہ وہ سیاسی نعروں، سرکاری بیانات اور میڈیا کے رجحانات سے کنفیوز ہو کر خود بھی الجھے گا اور تاریخ کو بھی الجھا دے گا۔ مثال کے طور پر وہ ''شیرشاہ سوری ثانی'' کی کارکردگی دیکھ کر یہی سمجھے اور لکھے گا کہ اصل شیرشاہ سوری کسی بادشاہ کا نام زد کردہ ہندوستان کا وزیراعلیٰ تھا، جو بس بادشاہ سے تبادلۂ خیال اور افسران کے تبادلے کرتا تھا۔
اور یہ بھی اس کا خیال ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ سے تبادلۂ خیال کررہا ہے، اس تبادلے میں ایک طرف حکم ہوتا تھا اور دوسری طرف سرِتسلیم خم۔ اسی طرح ''وسیم اکرم پلس'' کے خطاب سے اسے مغالطہ ہوسکتا ہے کہ اصلی وسیم اکرم کو کوچ گود میں اٹھا کر پچ پر لاتا ہوگا، اور وسیم اکرم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گھماتا اور باؤلنگ کرواتا ہوگا۔ پھر چھکا لگنے پر وسیم اکرم کی کمر ٹھونک کر کہتا ہوگا ''یہ وسیم اکرم کی بول کا کمال تھا کہ صرف چھکا لگا، ورنہ تو اَٹّھا یا دَسّا لگتا۔''
مستقبل کا مورٔخ برسوں یہ عقدہ حل کرنے میں الجھا رہے گا کہ جب بھٹو کو پھانسی ہوگئی تو پھر وہ زندہ کیسے رہا؟ مؤرخ کو یہ پریشانی بھی لاحق رہے گی کہ ''کیوں نکالا'' کا شکوہ ن لیگ والوں نے نوازشریف کے اقتدار سے ہٹائے جانے پر کیا تھا یا میاں صاحب کے جیل سے لندن جانے پر تحریک انصاف والوں نے؟ آخر اکتا کر یہ طے کرلے گا کہ ''کیوں نکالا'' کے معاملے پر دونوں جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔
جماعت اسلامی نے جس طرح جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی ممکن ہے مورٔخ سراج الحق کی طرح ضیاء الحق کو بھی امیرجماعت اسلامی سمجھ بیٹھے۔ اس الجھن میں تو مورٔخ تاعمر مبتلا رہے گا کہ پُرانا پاکستان کہاں ختم اور نیا کہاں سے شروع ہوتا ہے، آخر جھنجھلاکر یوں تاریخ رقم کرے گا،''پُرانے اور نئے پاکستان کو ملاکر ڈیجیٹل پاکستان بنالیا گیا تھا، جو گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر پر قائم ہوا تھا۔''
ہمیں مستقبل کے مؤرخ پر بڑا ترس آتا ہے، کیوں کہ اس بے چارے سے لوگوں نے بڑی امیدیں باندھ لی ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ وہ ان بندھی امیدوں کو دیکھ کر کہیں آتے ہی جانے کے لیے بستر نہ باندھ لے۔
اتنا ہی نہیں، لوگ تو یہ بھی طے کر چکے ہیں کہ مستقبل کا مورٔخ کیا لکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ سب کچھ مستقبل کا مؤرخ ہی کیوں لکھے، آخر حال کا مؤرخ کیا کر رہا ہے؟ ہماری خواہش تو یہ ہے کہ کہ کوئی مؤرخ حال بلکہ اس قوم کے حال کی تاریخ لکھے اور ہم کہہ اُٹھیں
''مؤرخ'' مرحبا بروقت بولا
تِری آواز مَکّے اور مدینے
ہمارے ہی اس سوال کا جواب ہمارے ہی خیال میں یہ ہے کہ حال کا مؤرخ حالات حاضرہ ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ خوف زدہ ہے کہ اگر حال میں رہتے ہوئے حال پر لکھا تو حال سے بے حال کردیا جائے گا، اور تاریخ لکھنے کے کچھ دنوں بعد ہی اس کے چالیسویں کی تاریخ کا اعلان ہورہا گا یا پھر اس کے لاپتا ہونے کے مقدمے میں تاریخ پر تاریخ دی جارہی ہوگی۔ اس صورت حال میں ہمارا مؤرخ تاریخ طبری کے بہ جائے تاریخ ۔۔۔جبری ہی لکھ کر سکون سے رہ سکتا ہے۔
رہا مستقبل کا مؤرخ تو اس سے امید رکھنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ بات یہ نہیں کہ مورٔخ تاریخ لکھنے کی کوشش نہیں کرے گا، کرے گا اور پوری نیک نیتی اور دل جمعی سے کرے گا، لیکن کام یاب نہیں ہوپائے گا۔ ہوگا یوں کہ وہ بے چارہ تحریری مواد کھنگالنے کے لیے کسی کُتب خانے میں بیٹھا ہوگا کہ اس کے اسمارٹ فون پر بیوی کا پیغام آئے گا،''کہاں ہیں؟'' ماضی کے اوراق میں گُم مورٔخ دھیان نہیں دے گا، کچھ دیر بعد بیوی کا دوسرا پیغام آئے گا،''جواب تو دیں''، وہ فون کی طرف دیکھے گا بھی نہیں، پھر تواتر سے آنے والے پیغامات میں شوہر کی بے گانگی، بے حسی، بے پروائی، سنگ دلی کی تاریخ درج ہوگی۔
جس کے آخری باب کا عنوان ہوگا،''ضرور کسی کَل موہی کے ساتھ ہیں۔'' پھر واٹس ایپ پر کال آئے گی اور مؤرخ کا سارا استغراق یہ تقریر سُن کر درہم برہم کرجائے گا کہ ''آج مہینے کی دس تاریخ ہوگئی ہے لیکن آپ نے میرے ہاتھ پر کچھ نہیں رکھا، اب تک مُنے کی فیس نہیں گئی ہے، ٹماٹر خریدنے کے لیے کمیٹی ڈالی تھی اس کی قسط نہیں بھر پائی ہوں، بانوآپا سے دو چلغوزے ادھار لیے تھے، وہ واپسی کا تقاضا کر رہی ہیں، یہاں حال خراب ہے اور آپ کو تاریخ کی پڑی ہے۔'' یہ سب سُن کر مستقبل کا مؤرخ ماضی کی دستاویزات ایک طرف پٹخے گا اور یہ کہتے ہوئے گھر کی راہ لے گا،''چھڈو جی، دفع کرو، کوئی ہور کَم کریے۔'' کچھ دنوں بعد وہ ڈرائی کلینر کی دکان کھولے رسیدوں پر دھلے ہوئے کپڑون کی واپسی کی تاریخ ڈال رہا ہوگا یا ہومیوپیتھ بن کر کسی مریض کے مرض کی ہسٹری جان رہا ہوگا۔
یہ امکان بھی ہے کہ کسی طبی پیچیدگی کی وجہ سے کل کا مورٔخ کسی صنعت کار، جاگیردار یا سیاست میں سرمایہ کاری کرکے صنعتیں لگانے اور سیاسی جماعت کے نام پر اپنی جاگیر بنانے والے سیاست داں کے گھر جنم لے، یعنی وہ منہ میں سونے کا چمچا لے کر پیدا ہو اور چمچے میں چلغوزے رکھے ہوں۔ اس صورت میں وہ بچوں کی فیس، کمیٹی اور مکان کے کرائے جیسی فکروں سے آزاد ہوگا، لیکن اس کے مسائل دوسرے ہوں گے۔
وہ سوچے گا تاریخ کی تحقیق میں کئی سال لگانے میں کہیں میں خود تاریخ کا حصہ نہ بن جاؤں، چناں چہ فوری نام وری کے لیے کسی اخبار میں کالم لکھنے لگے گا، ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں ماہرِتاریخ کی حیثیت سے جائے گا، جہاں حکم راں جماعت کے کسی راہ نما سے اس بحث میں وقت گنوائے گا کہ جسے وزیراعظم خلیل جبران کے سر منڈھ چکے ہیں وہ ٹیگور کا قول ہے۔ اس سب سے جو وقت بچے کا اس میں مستقبل کا مؤرخ فیس بک اور ٹوئٹر پر اپنے افکار عالیہ پوسٹ اور ٹوئٹ کرنے کے بعد اتنا تھک چکا ہوگا کہ تاریخی واقعات کی تحقیق، جائزے اور تجزیے کے بہ جائے تاریخ بگاڑ کر بنائی جانے والی کوئی بھارتی فلم جیسے ''پدماوتی'' دیکھے گا اور گانا ''نینوں والے نے چھیڑا من کا پیالہ'' سُن کر خراٹے چھلکاتا ہوا سوجائے گا۔
چلیے مستقبل کے مورٔخ نے اگر ساری مصروفیات تج اور مجبوریوں سے بے نیاز ہوکر تاریخ لکھنے کی ٹھان ہی لی تو خدشہ ہے کہ وہ سیاسی نعروں، سرکاری بیانات اور میڈیا کے رجحانات سے کنفیوز ہو کر خود بھی الجھے گا اور تاریخ کو بھی الجھا دے گا۔ مثال کے طور پر وہ ''شیرشاہ سوری ثانی'' کی کارکردگی دیکھ کر یہی سمجھے اور لکھے گا کہ اصل شیرشاہ سوری کسی بادشاہ کا نام زد کردہ ہندوستان کا وزیراعلیٰ تھا، جو بس بادشاہ سے تبادلۂ خیال اور افسران کے تبادلے کرتا تھا۔
اور یہ بھی اس کا خیال ہوتا تھا کہ وہ بادشاہ سے تبادلۂ خیال کررہا ہے، اس تبادلے میں ایک طرف حکم ہوتا تھا اور دوسری طرف سرِتسلیم خم۔ اسی طرح ''وسیم اکرم پلس'' کے خطاب سے اسے مغالطہ ہوسکتا ہے کہ اصلی وسیم اکرم کو کوچ گود میں اٹھا کر پچ پر لاتا ہوگا، اور وسیم اکرم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر گھماتا اور باؤلنگ کرواتا ہوگا۔ پھر چھکا لگنے پر وسیم اکرم کی کمر ٹھونک کر کہتا ہوگا ''یہ وسیم اکرم کی بول کا کمال تھا کہ صرف چھکا لگا، ورنہ تو اَٹّھا یا دَسّا لگتا۔''
مستقبل کا مورٔخ برسوں یہ عقدہ حل کرنے میں الجھا رہے گا کہ جب بھٹو کو پھانسی ہوگئی تو پھر وہ زندہ کیسے رہا؟ مؤرخ کو یہ پریشانی بھی لاحق رہے گی کہ ''کیوں نکالا'' کا شکوہ ن لیگ والوں نے نوازشریف کے اقتدار سے ہٹائے جانے پر کیا تھا یا میاں صاحب کے جیل سے لندن جانے پر تحریک انصاف والوں نے؟ آخر اکتا کر یہ طے کرلے گا کہ ''کیوں نکالا'' کے معاملے پر دونوں جماعتیں ایک پیج پر تھیں۔
جماعت اسلامی نے جس طرح جنرل ضیاء الحق کی حمایت کی ممکن ہے مورٔخ سراج الحق کی طرح ضیاء الحق کو بھی امیرجماعت اسلامی سمجھ بیٹھے۔ اس الجھن میں تو مورٔخ تاعمر مبتلا رہے گا کہ پُرانا پاکستان کہاں ختم اور نیا کہاں سے شروع ہوتا ہے، آخر جھنجھلاکر یوں تاریخ رقم کرے گا،''پُرانے اور نئے پاکستان کو ملاکر ڈیجیٹل پاکستان بنالیا گیا تھا، جو گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر پر قائم ہوا تھا۔''