پُرامن بقائے باہمی کا راز
ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت عفو بھی ہے۔ جس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم ، خطاکار اور سزاوارِ عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ جرم ، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بہ جائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔ تمام انبیائؑ بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمدؐ اﷲ تعالیٰ کی صفتِ عفو کے پیکر تھے۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوش گوار ماحول بنانے کے لیے اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمدؐ نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اﷲ کے برگزیدہ بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' معاف کرنے والے کی اﷲ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔'' (صحیح مسلم)
نبی کریمؐ نے فرمایا: '' تم مخلوق پر رحم کرو اﷲ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اﷲ تمہیں معاف کرے گا۔'' حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کر دیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلۂ رحمی کا سلوک کرے۔'' (مستدرک حاکم)رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔'' (مستدرک حاکم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں وہ کون سی تین عادات ہیں؟ آپؐ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہوجانا۔'' (مستدرک)
آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔
افسوس! آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔
آئیے! عزم کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اﷲ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہو، معاشرے کو خوش گوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بل کہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ روز قیامت اﷲ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا ۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوش گوار ماحول بنانے کے لیے اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمدؐ نے عفو و درگزر پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت، اجر و ثواب، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ اﷲ کے برگزیدہ بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی عفو و درگزر جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے۔ چوں کہ غصے کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل عفو و درگزر کو قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' معاف کرنے والے کی اﷲ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں۔'' (صحیح مسلم)
نبی کریمؐ نے فرمایا: '' تم مخلوق پر رحم کرو اﷲ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اﷲ تمہیں معاف کرے گا۔'' حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کر دیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلۂ رحمی کا سلوک کرے۔'' (مستدرک حاکم)رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔'' (مستدرک حاکم)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: '' تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں وہ کون سی تین عادات ہیں؟ آپؐ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہوجانا۔'' (مستدرک)
آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے۔ ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔
افسوس! آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔
آئیے! عزم کریں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اﷲ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہو، معاشرے کو خوش گوار، محبت افزاء اور پُرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح عفو و درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بل کہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ روز قیامت اﷲ کریم عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا ۔