امن و محبت کی دھرتی سندھ میں گزشتہ دہائی میں انتہاپسندی بڑھی
مذہب کی جبری تبدیلی، اقلیتوں کیخلاف عدم برداشت جیسے واقعات نے معاشرے کو گہنا دیا
اپنی پوری تاریخ میں سندھ ہمیشہ ہی مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا مرکز رہا، جہاں لوگ پر امن طور پر ساتھ رہے تاہم آخری دہائی نے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی وجہ سے اس صوبے کو تقریباً ترقی پسند اور روادار صوفی ثقافت سے محروم کر دیا۔
جبری مذہب کی تبدیلی، توہین مذیب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت جیسے واقعات نے سندھی معاشرے کو گہنا دیا ہے، ماہرین علم البشریات کا کہنا ہے کہ مذہبی مدارس کا غیر منظم طور پر پھیلنا اور ساتھ ہی فرقہ وارانہ اور عسکری گروہوں کا بڑھنا ایسے عوامل ہیں جنھوں نے 1980کے عشرے کے بعد صوبے میں انتہاپسندی کو بڑھاوا دیا۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں بسنے والے ہندو برادری زیادہ کمزور ہوئے،سندھ اسمبلی کے ہندو ایم پی اے نند کمار گوکلانی نے کہا ، "میں آپ کو ان ہندو لڑکیوں سے متعلق قطعی اعدادوشمار نہیں دے سکتا جنھیںزبردستی اسلام قبول کرایا گیا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پچھلی دہائی میں اس طرح کے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں ۔صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گولکانی جو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے تعلق رکھتے ہیں نے 41 ہندو لڑکیوں کی ایک فہرست مرتب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھیں گزشتہ 6 ماہ کے دوران اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بچیاں بدین ،ٹنڈو محمد خان ، میرپورخاص ، حیدرآباد ، سانگھڑ ، سکھر ، گھوٹکی ، ٹھٹھہ ،دادو اور جامشورو سمیت سندھ کے مختلف علاقوں کی رہنے والی تھیں۔میاں عبدالحق جو گھوٹکی کے درگاہ بھرچنڈی شریف کے میاں مٹھو اور پیر محمد ایوب جان سرہندی ضلع عمرکوٹ کی تحصیل سامارو میں واقع "سرہندی مزار" کے گدی نشین ہیں ، پر گزشتہ دہائی میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبری تبدیلیوں کے علاوہ کالعدم تنظیموں نے صوبے میں اپنا اثر و رسوخ پھیلادیا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار اور ادیب نثار کھوکھر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سندھی کمیونٹی کا نوجوان طبقہ صوفیا کی سرزمین پر انتہا پسندی پھیلانے والوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف امن اور محبت اور باہمی آہم آہنگی کے پیغام کے ذریعے جدوجہد کرنے والے اب خود بھی انتہا پسندوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔
تحریک انصاف کے ایم این اے اور پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ وفاقی حکومت مدارس کے نصاب پر کام کررہی ہے اور مدرسوں کیلیے صوبوں کی مشاورت سے پورے پاکستان میں نظر ثانی سلیبس نافذ کیا جائے گا۔ جب کوئی ہندو لڑکی اغوا ہوتی ہے تو اسے مدارس یا درگاہوں میں رکھا جاتا ہے جہاں جانے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مدارس کو ریگولیٹ کریں اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
جبری مذہب کی تبدیلی، توہین مذیب اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت جیسے واقعات نے سندھی معاشرے کو گہنا دیا ہے، ماہرین علم البشریات کا کہنا ہے کہ مذہبی مدارس کا غیر منظم طور پر پھیلنا اور ساتھ ہی فرقہ وارانہ اور عسکری گروہوں کا بڑھنا ایسے عوامل ہیں جنھوں نے 1980کے عشرے کے بعد صوبے میں انتہاپسندی کو بڑھاوا دیا۔
سندھ کے دیہی علاقوں میں بسنے والے ہندو برادری زیادہ کمزور ہوئے،سندھ اسمبلی کے ہندو ایم پی اے نند کمار گوکلانی نے کہا ، "میں آپ کو ان ہندو لڑکیوں سے متعلق قطعی اعدادوشمار نہیں دے سکتا جنھیںزبردستی اسلام قبول کرایا گیا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پچھلی دہائی میں اس طرح کے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں ۔صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے گولکانی جو گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے تعلق رکھتے ہیں نے 41 ہندو لڑکیوں کی ایک فہرست مرتب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھیں گزشتہ 6 ماہ کے دوران اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
بچیاں بدین ،ٹنڈو محمد خان ، میرپورخاص ، حیدرآباد ، سانگھڑ ، سکھر ، گھوٹکی ، ٹھٹھہ ،دادو اور جامشورو سمیت سندھ کے مختلف علاقوں کی رہنے والی تھیں۔میاں عبدالحق جو گھوٹکی کے درگاہ بھرچنڈی شریف کے میاں مٹھو اور پیر محمد ایوب جان سرہندی ضلع عمرکوٹ کی تحصیل سامارو میں واقع "سرہندی مزار" کے گدی نشین ہیں ، پر گزشتہ دہائی میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبری تبدیلیوں کے علاوہ کالعدم تنظیموں نے صوبے میں اپنا اثر و رسوخ پھیلادیا ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار اور ادیب نثار کھوکھر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سندھی کمیونٹی کا نوجوان طبقہ صوفیا کی سرزمین پر انتہا پسندی پھیلانے والوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف امن اور محبت اور باہمی آہم آہنگی کے پیغام کے ذریعے جدوجہد کرنے والے اب خود بھی انتہا پسندوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔
تحریک انصاف کے ایم این اے اور پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے کہا کہ وفاقی حکومت مدارس کے نصاب پر کام کررہی ہے اور مدرسوں کیلیے صوبوں کی مشاورت سے پورے پاکستان میں نظر ثانی سلیبس نافذ کیا جائے گا۔ جب کوئی ہندو لڑکی اغوا ہوتی ہے تو اسے مدارس یا درگاہوں میں رکھا جاتا ہے جہاں جانے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مدارس کو ریگولیٹ کریں اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔