مسلم امہ اور چین کی بانسری

اگر ہم مسلم اُمہ کی اکائیوں کو باہم دست و گریباں دیکھ کر خوشی کے شادیانے بجاتے رہے تو شاید اگلا نمبر ہمارا ہی ہو


شاہد کاظمی January 03, 2020
تمام اسلامی ممالک اختلافات بھلا کر مل بیٹھیں تو مسلم اُمہ دنیا میں کھویا ہوا مقام حاصل کرلے گی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی مفادات کے تحفظ کےلیے امریکا کسی بھی حد تک جائے گا۔ یہ بیان امریکی صدر، پینٹا گون کے کرتا دھرتا، کانگریسی سرخیل اور دیگر امریکی عہدیدار وقتا فوقتاً بظاہر آزاد لیکن حقیقاً کالونیل دور میں پھنسے ترقی پذیر ممالک کو دھمکانے کےلیے دیتے رہتے ہیں۔

دنیا کے وہ ممالک، جو محتاجِ امریکا ہیں، کسی نہ کسی حوالے سے وہ ان بیانات سے ڈرتے بھی ہیں لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایران، ترکی و دیگر ایسے ہی ممالک امریکا کو آنکھیں دکھانا شروع کردیتے ہیں۔ جنہیں ظاہر سی بات ہے کہ برداشت کرنا کہاں ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا پھر ردعمل آتا ہے۔ اور ہم ایسے کبوتر ہیں جو کسی ایک ملک کے خلاف آنے والے ردعمل کے جواب میں آنکھیں یہ سوچ کر بند کرلیتے ہیں کہ بھئی ''سانوں کی''، افتاد تو فلاں پر ٹوٹ پڑی ہے، ہمارے ہاں تو سکون ہی سکون ہے۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ یہ سکون عارضی ہے اور امریکی پالیسیوں کا رخ ہماری جانب بھی مڑے گا۔ ایک لمحہ غور کیجیے۔ یمن، لبنان، عراق، شام، فلسطین، افغانستان، سے ہوتا ہوا یہ سلسہ اب ایران تک پہنچ چکا ہے۔ جب سر پر پڑتی ہے تو اس وقت سمجھ آتی ہے، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اور کرنے کو کچھ نہیں رہتا۔

جنرل قاسم سلیمانی کو ہم اپنی تحریروں میں ہلاک لکھیں یا شہید، قاسم سلیمانی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ وہ اپنے ایمان، عقیدے، یقین اور خلوص کے ساتھ اگر حق پر تھا تو شہادت اس کا مقدر ہوچکی ہے، چاہے ہم اسے ہلاک لکھیں۔ اور اگر وہ حق پر نہیں تھا تو ہلاکت کو ہم شہادت بنا نہیں سکتے کہ وہ اب ان دونوں صورتوں سے مبرا ہوچکا ہے۔ ایک اور بات ہم اُسے، تو، اُس کا، وہ کہہ کر لکھیں تو بھی نہ قاسم سلیمانی کو اب فرق پڑنا ہے نہ کسی اور کو۔ اور ہم آپ، اُن کو، انہیں کہہ کر لکھیں تو بھی وہ ابدی دنیا میں جاچکے ہیں۔ ہماری تکریم ان کےلیے اب بے معنی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں کیا کیا؟

ایک لمحہ جائزہ لیجیے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کی بڑھوتری اور معاملات میں اثر اندازی قائم کرنے میں قاسم سلیمانی کا اہم کردار رہا ہے۔ اور ایک لمحے کےلیے ہم کہتے ہیں کہ انہوں نے غلط کیا۔ لیکن خطے کی دیگر طاقتیں کیا کرتی رہی ہیں؟ سعودی عرب امریکی اثر سے نکلنے کو تیار نہیں اور ایران امریکی اثر میں جانے کو تیار نہیں۔ مصر، اُردن، متحدہ عرب امارات وغیرہ کا رخ ایک جانب ہے تو شام، لبنان، ایران منہ دوسری طرف پھیرے بیٹھے ہیں۔ ترکی تاریخ کے گم دروازوں سے عظمت رفتہ کی یادیں ڈھونڈ رہا ہے۔

ایسی صورت میں قاسم سلیمانی ہی غلط کیوں؟ ہمیں کیا امریکا توڑ رہا ہے؟ امریکا تو اپنی حفاظت کررہا ہے اور اس کا حق بھی ہے۔ ہم تو بطور مسلم اُمہ کی اکائیوں کے خود آپ اپنا گریباں چاک کیے ہوئے ہیں۔ قاسیم سلیمانی کا کردار ہو یا خاشقجی، بہرصورت ہم مکمل طور پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت رکھنے پر تیار نہیں۔ ایران سعودی عرب کے لتے لے رہا ہے، اور سعودی عرب ایران کو اپنا دشمن اول قرار دیتا ہے۔ اسرائیل تو معصوم بچہ بن کر ایک طرف بیٹھا ہے اور چند فلسطینی پتھروں کے جواب میں بنا شور کیے میزائلوں کی بارش کرتے ہوئے فلسطنیوں کو خون میں نہلا دیتا ہے۔ کسی خلیجی، عرب، اسلامی ملک کو یہ کہنے کی زحمت نہیں ہوتی کہ فلسطینوں پتھر تو اسرائیلی باڑ تک بھی مشکل سے پہنچ پاتے ہیں۔ حزب اللہ و یا ایران جب وہ کہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کو سبق سکھائیں گے تو کیوں باقی اسلامی ممالک چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں؟ کوالالمپور سمٹ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات آنے سے انکاری ہوتے ہیں تو کیوں ساری اسلامی دنیا ان کو منانا گوارا نہیں کرتی؟

مغرب، امریکا، اسرائیل کیا ہمیں یہ رسوا کر رہے ہیں؟ کیا اسلامی ممالک میں تفرقہ یہ پھیلا رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ ہم خود اپنے آپ کو ایک دوسرے سے دور لے کر جارہے ہیں۔

ہم اپنی عاقتب نااندیشی کی وجہ سے قاسم سلیمانی کو نشانہ بنائے جانے کو ایک شیعہ کو نشانہ بنایا جانا دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ ثابت کرنے پر تل گئے ہیں کہ قاسم سلیمانی نے سنیوں کےلیے فلاں فلاں جگہ مشکلات پیدا کیں۔ ایک لمحہ رک کر سوچیے یہ تفریق پیدا کس نے کی؟ اور تفریق پیدا کرنے والے کے مقاصد کہیں ہم خود اپنے ہی ہاتھ سے تو پورے نہیں کررہے؟ قاسم سلیمانی شیعہ نشانہ بنا تو کیا افغانستان کے سنی بھی نشانہ نہیں بنائے جارہے؟ یمن کے حوثی اگر تختۂ مشق بنے ہوئے ہیں تو کیا مصر کے اخوان المسلمین کو چھوڑا گیا؟ ان کو مٹانے کےلیے ہر حربہ استعمال نہیں کیا گیا؟

خدارا دشمن کو پہچانیے۔ قاسم سلیمانی نے شدت پسندی کو شام و عراق سے ختم کرنے میں بہرحال ایک کردار ضرور ادا کیا ہے۔ شدت پسندی بھی وہ جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ اور ان کے اس کردار سے خائف کون تھا؟ یقیناً ان کو راہ سے ہٹانے والا۔ سعودی عرب ہو یا ایران، قطر ہو یا متحدہ عرب امارات، پاکستان ہو یا ترکی، ملائشیا ہو یا انڈونیشیا، تمام اسلامی ممالک جتنا جلد گروہی، فقہی، سیاسی، علاقائی اختلافات پس پشت ڈال کر مل بیٹھیں گے اتنا ہی جلدی مسلم اُمہ دنیا میں کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گی۔

اور اگر ہم اغیار کے کہنے پر مسلم اُمہ کی اکائیوں کو ہی باہم دست و گریباں دیکھ کر خوشی کے شادیانے بجاتے رہیں گے تو کوئی شک نہیں اور انتظار بھی کیجیے کہ اگلا نمبر کس مسلم اُمہ کی اکائی کا آتا ہے۔ کاش جو نیرو مسلم اُمہ کے زوال پر چین کی بانسری بجاتا جارہا ہے وہ یہ بانسری ہی توڑ ڈالے کہ شاید پھر ہم خواب غفلت سے جاگ پائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں