سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کیا ہوتا رہا سال بھر
زمین سے خلاء تک پیش رفتوں، کام یابیوں، ناکامیوں اور تجربات کی کہانی
لاہور:
سائنس و ٹیکنالوجی کی رفتار آج بے انتہا تیز ہوچکی ہے۔ روزانہ سیکڑوں ایجادات و اختراعات ہورہی ہیں۔ نئے نئے نظریات پیش کیے جارہے ہیں۔ نت نئی دریافتیں ہورہی ہیں جواس بات کا اشارہ ہیں کہ تمام تر ترقی کے باوجود انسان کے جاننے کے لیے بہت کچھ باقی ہے۔
گزرے برسوں کی طرح 2019 ء میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ارتقائی عمل جاری رہا جس کا اجمالی جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔
ٔ٭ نئے سیاروں کی دریافت: سائنس داں برادری اس بات پر ایمان کامل رکھتی ہے کہ کھربوں سیاروں، ستاروں اور ان گنت کہکشاؤں پر مشتمل اس وسیع و عریض کائنات میں زندگی کا وجود صرف ہمارے سیارے تک محدود نہیں بلکہ حیات کسی نہ کسی شکل میں خلائے بسیط میں کہیں نہ کہیں ضرور پائی جاتی ہے۔
اس مقصد کے لیے ان کا خاص ہدف زمین سے ملتے جلتے سیارے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی صرف انھی دنیاؤں میں پنپ سکتی ہے جن کے طبعی خواص دنیا سے مشابہ ہوں۔ یعنی وہاں پانی اور آکسیجن موجود ہو۔2019 ء میں بہ طور مجموعی چار سو کے لگ بھگ سیارے دریافت ہوئے جن میں سے کئی جسامت اور طبعی خواص کے اعتبار سے زمین سے قریب تر تھے۔ ماہرین فلکیات نے امید ظاہر کی کہ ان پر حالات زندگی کے لیے موافق ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
٭ مریخ: سیارہ مریخ کئی عشروں سے سائنس دانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے کیوں کہ انھیں ' سرخ سیارے' پر زندگی کی دریافت کی قوی امید ہے۔ ان برسوں کے دوران مریخ کی جانب کئی خلائی جہاز اور خلائی تحقیقی گاڑیاں روانہ کی گئیں۔ اس وقت بھی مریخ کی سر زمین پر 14 خلائی تحقیقی گاڑیاں 'دندنا' رہی ہیں۔
ان میں سے ایک 'اپورچونیٹی' پندرہ سال قبل مریخ کی سرزمین پر اتری تھی۔ 2019 ء میں اس کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ فروری میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اپورچونیٹی سے رابطہ منقطع ہوجانے کا حتمی اعلان کیا۔ اپورچونیٹی کے ساتھ 'اسپرٹ'بھی مریخ کی سرزمین پر اتری تھی، تاہم اس خلائی تحقیقی گاڑی سے 2010ء میں رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ان دونوں مشن نے ناسا کو مریخ کی بے شمار تصاویر اور دیگر ڈیٹا ارسال کیا جن کے تجزیے سے سرخ سیارے کی سطح اور اس کی ہیئت ارضی کے بارے میں بے حد قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔
٭ تھری ڈی پرنٹنگ: 2019ء میں جن ٹیکنالوجیز کا چرچا رہا ان میں تھری ڈی پرنٹنگ بھی شامل ہے۔ بے شمار چیزیں اب تھری ڈی پرنٹرز سے پرنٹ کی جارہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے طبی میدان میں بھی کام لیا جارہا ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار کردہ کچھ مصنوعی اعضا کی پیوندکاری بھی کی جارہی ہے۔ ماہرین طب چاہتے ہیںکہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی دل پرنٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی جائے تو امراض قلب میں مبتلا بہت سے انسانوں کی جان بچائی جاسکتی ہے جنھیں دل کی پیوندکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس ضمن میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے کارنیگی میلن یونیورسٹی کے محققین نے کولیجن سے نسیجی ڈھانچا تھری ڈی پرنٹ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ کولیجن انسانی جسم کا اہم ساختی جزو ہے۔ اس پیش رفت کے بعد سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ وہ تھری ڈی دل تیار کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب مشی گن یونی ورسٹی سے وابستہ ماہرین روشنی کی مدد سے تھری ڈی پرنٹنگ پروسیس کی رفتار سو گنا تیز کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کامیابی تھری ڈی پرنٹنگ کی ترقی میں انقلابی ثابت ہوگی۔
٭ گلوبل وارمنگ : کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت کئی عشروں سے سنگین ماحولیاتی مسئلہ بنا ہوا ہے جو سائنس دانوں کے بقول، بالآخر اس سیارے کو لے ڈوبے گا۔ ماہرین کے مطابق قدرتی ماحولیاتی نظام میں گلوبل وارمنگ کے باعث پیدا ہونے والا بگاڑ حیاتی چکر کو متأثر کرے گا جس کے سبھی جانداروں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
گلوبل وارمنگ پر تحقیق کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ برسٹول یونی ورسٹی کی ایک بین الاقوامی تحقیق میں کہا گیا کہ گرین لینڈ آئس شیٹ سے سالانہ ہزاروں ٹن میتھین خارج ہورہی ہے جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ چالیس برس قبل کے مقابلے میں براعظم انٹارکٹیکا اب چھے گنا تیزی سے برف سے محروم ہورہا ہے۔ ایک اور تحقیق میں پاکستان، بھارت، چین اور دیگر ایشیائی ممالک کو مستقبل میں درپیش خطرے کی نشان دہی کی گئی کہ ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں موجود ایک تہائی گلیشیئرز برف پگھل جانے کے باعث ختم ہوجائیں گے جس سے دو ارب نفوس کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی، کیوں کہ گلیشیئرز ختم ہونے سے کئی بڑے دریا بھی قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔
٭ طب: 2019ء میں شعبہ طب میں متعدد پیش رفتیں ہوئیں۔ اسرائیل کی تل ابیب یونی ورسٹی کے محققین نے لبلبے کے سرطان کے علاج میں اہم کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے کہ لبلبے کا سرطان لاعلاج ہے۔ صہیونی سائنس دانوں کی دریافت کردہ تیکنیک میں صرف ایک مالیکیول سرطانی خلیات کو ازخود تباہ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔
چوہوں پر کیے گئے تجربات میں کامیابی کی شرح 90 فیصد رہی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے لبلبے کے سرطان کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔ ایک اور تحقیق میں مایو کلینک کے محققین نے انسانی جسم سے عمررسیدگی کا سبب بننے والے خلیات خارج کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ عمررسیدگی کے خلیات کئی دیگر امراض میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ امراض قلب کے علاج میں ایک اور اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب محققین پہلی بار اسٹیم سیلز کو دل کے عضلات میں براہ راست پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ کارنامہ برسٹول یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا۔ اسی برس امریکا میں سرطان کے مریضوں پر 'کرسپر جین ایڈیٹنگ' کی تیکنیک آزمائی گئی۔ سرطان کے تمام رائج طریقہ ہائے علاج ناکام ہونے پر مریضوں نے خود کو کرسپر کے تجربے کے لیے پیش کیا۔ ماہرین نے امید ظاہر کی کہ یہ ٹیکنالوجی سرطانی خلیات کے خاتمے میں کارگر ثابت ہوگی۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوجاتا ہے تو پھر سرطان کے علاج میں انقلابی پیش رفت ہوگی۔ اسی طرح برطانیہ میں عمررسیدگی سے جڑے نابیناپن کا جینیاتی طریقے سے کامیاب علاج کیا گیا۔ اوکسفرڈ آئی ہاسپیٹل میں جینیٹ اوبسورن نامی خاتون کی آنکھ کے پردے میں مصنوعی جین داخل کرکے نابینا پن کا تدارک کیا گیا۔
٭ توانائی : حصول توانائی کے غیرروایتی ذرائع پر کئی عشروں سے توجہ دی جارہی ہے۔ اسی کے نتیجے میں بایوفیول، ونڈ انرجی اور سولرپینلز سے توانائی حاصل کرنے پر توجہ دی جانے لگی۔ گذشتہ برس بھی اس شعبے میں تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ کئی تحقیق میں سائنس دانوں نے سولرپینلز کی کارکردگی موجودہ سے کئی گنا بڑھانے کے کامیاب تجربات کیے۔ اسی طرح نئے مادّوں سے آزمائشی طور پر سولر پینلز بنائے گئے جو کارکردگی میں موجودہ سولرپینلز سے کہیں زیادہ تھی۔
ماہرین نے توقع ظاہر کی کہ بہت جلد یہ سولر پینلزعام دستیاب ہوں گے۔ امریکا کی نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے حرارت سے بجلی حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جس میں مقناطیسی ذرات کی مدد سے حرارتی توانائی سے کہیں زیادہ بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ اسی طرح برطانیہ میں امریکیئم نامی عنصر سے توانائی حاصل کرلی گئی۔ یہ عنصر قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا بلکہ پلوٹونیئم کی فرسودگی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اس عنصر کا استعمال خلائی بیٹریوں میں کیا جائے گا۔ کام یاب آزمائش کے بعد اس کا استعمال عام ہوجائے گا اور یہ تیکنیک توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گا۔
٭ چاند: 2019ء میں زمین کا چاند بھی ماہرین فلکیات اور سائنس دانوں کی توجہ کا محور رہا۔ سال کے آغاز میں چین کا روانہ کردہ مشن چاند کے بعید ترین حصے پر اترگیا۔ چانگ فور روبوٹ خلائی جہاز چاند کے جنوبی قطب میں اترا۔ قبل ازیں ارض قمر کا یہ حصہ کسی بھی بیرونی مداخلت سے ناآشنا تھا۔ اسی لیے خلائی کھوج کے سلسلے میں چانگ فور کی کامیاب لینڈنگ کو ماہرین فلکیات نے اہم سنگ میل قرار دیا۔ چانگ فور جدید آلات سے لیس ہے اور اس کا مقصد چاند کے اس حصے کی ارضیاتی ساخت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تجربات کرنا ہے۔
چین کے برعکس اسرائیل کی چاند پر خلائی مشن اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ صہیونی ریاست نے اپریل میں چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کیا تھا تاہم چاند کے مدار کے قریب پہنچتے ہی خلائی جہاز کے مرکزی انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا نتیجتاً جہاز ارض قمر سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ بھارت نے بھی چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کیا۔ چندریان ٹو نامی خلائی جہاز قمری مدار میں پہنچنے کے بعد چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہوگیا جس کا ملبہ ناسا کے مصنوعی سیارے نے تلاش کرلیا۔
٭ پلاسٹک کی آلودگی: 2019ء میں سائنسی افق پر پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی اور اس کے نقصانات بھی چھائے رہے۔ متعدد تحقیق میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں، بوتلیں اور اس مادّے سے بنی ہوئی دوسری اشیاء بالخصوص سمندری حیات کے لیے زہرقاتل ثابت ہورہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے ساتھ مُردہ آبی جانوروں کی تصاویر بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں جو پلاسٹک کی تھیلی میں پھنس کر یا پلاسٹک کے ریشوں میں الجھ کر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
مُردہ وھیل اور دیگر بڑی مچھلیوں کے چاک پیٹوں میں موجود پلاسٹک کی مختلف اشیاء کی تصاویر بھی شیئر کی جاتی رہیں۔ دوسری جانب پلاسٹک کی آلودگی سے سمندروں کو صاف کرنے کے طریقوں پر بھی تحقیق ہوتی رہی۔ محدود پیمانے پر اگرچہ مختلف طریقے اختیار کیے جارہے ہیں تاہم ماہرین ابھی تک کوئی ایسا طریقہ وضع کرنے یا کوئی ایسی تیکنیک دریافت کرنے میں ناکام ہیں جس کے ذریعے بڑے پیمانے پر سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے پاک کیا جاسکے۔
٭ کمپیوٹنگ: کمپیوٹر پروسیسرز کی رفتار میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی نہ ختم ہونے والے طلب کے پیش نظر 2019ء میں بھی اس شعبے میں تحقیق و اختراعات کا سلسلہ جاری رہا۔ مائیکروچپس بنانے والے معروف ادارے انٹیل نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) ٹیکنالوجی سے لیس مائیکروچپس متعارف کرائی جو ایک ہزار گنا زیادہ تیزی سے ڈیٹا پروسیس کرسکتی ہے۔
اسی طرح آئی بی ایم اور دیگر کمپنیوں نے بھی تیز ترین کمپیوٹرز متعارف کروائے۔ تیزرفتار پروسیسر کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے گنجائش کی حامل فلیش ڈرائیوز ، ہارڈ ڈسک بھی متعارف کرائی گئیں۔ لیکسر نامی کمپنی نے ایک ٹیرابائٹ (ایک ہزار گیگابائٹ) گنجائش کا حامل ایس ڈی کارڈ پیش کیا۔ اسی طرح دیگر کمپنیوں کی جانب سے زیادہ گنجائش رکھنے والی ڈرائیوز پیش کی جاتی رہیں۔
٭ ڈرون ٹیکنالوجی: ڈرون سائنس و ٹیکنالوجی کی ان شاخوں میں شامل ہے جس نے گذشتہ چند برسوں کے دوران تیزی سے ارتقائی منازل طے کیں۔ ڈرون طیاروں ( کواڈکوپٹر) کا استعمال کئی برس سے کیا جارہا ہے مگر 2019ء میں اس ٹیکنالوجی نے اڑن کاروں، اڑن موٹرسائیکلوں کی صورت میں نئی جہت اختیار کرلی۔ اسی طرح ڈرون طیاروں کا استعمال بھی متنوع ہوتا چلا گیا اور مختلف استعمالات کی غرض سے نئے کواڈ کوپٹر اور ملٹی کوپٹر بھی سامنے آئے۔
٭ بلیک ہول: 2019ء میں بھی سائنس داں بلیک ہولز سے جوجھتے رہے مگر ماضی کی طرح اس برس بھی وہ ان پراسرار مظاہر قدرت کے بارے میں کوئی قابل ذکر بات نہ جان سکے تاہم ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ انھوں نے پہلی بار ایک بلیک ہول کی شبیہہ حاصل کرلی۔ یہ کارنامہ دو سو ماہرین فلکیات کی ٹیم نے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کی مدد سے انجام دیا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ بلیک ہول زمین سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ نوری سال کی دوری پر ہے اور اس کی کمیت سورج سے ساڑھے چھے ارب گنا زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے انھیں بلیک ہولز کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی رفتار آج بے انتہا تیز ہوچکی ہے۔ روزانہ سیکڑوں ایجادات و اختراعات ہورہی ہیں۔ نئے نئے نظریات پیش کیے جارہے ہیں۔ نت نئی دریافتیں ہورہی ہیں جواس بات کا اشارہ ہیں کہ تمام تر ترقی کے باوجود انسان کے جاننے کے لیے بہت کچھ باقی ہے۔
گزرے برسوں کی طرح 2019 ء میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ارتقائی عمل جاری رہا جس کا اجمالی جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کیا جارہا ہے۔
ٔ٭ نئے سیاروں کی دریافت: سائنس داں برادری اس بات پر ایمان کامل رکھتی ہے کہ کھربوں سیاروں، ستاروں اور ان گنت کہکشاؤں پر مشتمل اس وسیع و عریض کائنات میں زندگی کا وجود صرف ہمارے سیارے تک محدود نہیں بلکہ حیات کسی نہ کسی شکل میں خلائے بسیط میں کہیں نہ کہیں ضرور پائی جاتی ہے۔
اس مقصد کے لیے ان کا خاص ہدف زمین سے ملتے جلتے سیارے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ زندگی صرف انھی دنیاؤں میں پنپ سکتی ہے جن کے طبعی خواص دنیا سے مشابہ ہوں۔ یعنی وہاں پانی اور آکسیجن موجود ہو۔2019 ء میں بہ طور مجموعی چار سو کے لگ بھگ سیارے دریافت ہوئے جن میں سے کئی جسامت اور طبعی خواص کے اعتبار سے زمین سے قریب تر تھے۔ ماہرین فلکیات نے امید ظاہر کی کہ ان پر حالات زندگی کے لیے موافق ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
٭ مریخ: سیارہ مریخ کئی عشروں سے سائنس دانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے کیوں کہ انھیں ' سرخ سیارے' پر زندگی کی دریافت کی قوی امید ہے۔ ان برسوں کے دوران مریخ کی جانب کئی خلائی جہاز اور خلائی تحقیقی گاڑیاں روانہ کی گئیں۔ اس وقت بھی مریخ کی سر زمین پر 14 خلائی تحقیقی گاڑیاں 'دندنا' رہی ہیں۔
ان میں سے ایک 'اپورچونیٹی' پندرہ سال قبل مریخ کی سرزمین پر اتری تھی۔ 2019 ء میں اس کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ فروری میں امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے اپورچونیٹی سے رابطہ منقطع ہوجانے کا حتمی اعلان کیا۔ اپورچونیٹی کے ساتھ 'اسپرٹ'بھی مریخ کی سرزمین پر اتری تھی، تاہم اس خلائی تحقیقی گاڑی سے 2010ء میں رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ ان دونوں مشن نے ناسا کو مریخ کی بے شمار تصاویر اور دیگر ڈیٹا ارسال کیا جن کے تجزیے سے سرخ سیارے کی سطح اور اس کی ہیئت ارضی کے بارے میں بے حد قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔
٭ تھری ڈی پرنٹنگ: 2019ء میں جن ٹیکنالوجیز کا چرچا رہا ان میں تھری ڈی پرنٹنگ بھی شامل ہے۔ بے شمار چیزیں اب تھری ڈی پرنٹرز سے پرنٹ کی جارہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے طبی میدان میں بھی کام لیا جارہا ہے۔ تھری ڈی پرنٹنگ سے تیار کردہ کچھ مصنوعی اعضا کی پیوندکاری بھی کی جارہی ہے۔ ماہرین طب چاہتے ہیںکہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی دل پرنٹ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی جائے تو امراض قلب میں مبتلا بہت سے انسانوں کی جان بچائی جاسکتی ہے جنھیں دل کی پیوندکاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس ضمن میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے کارنیگی میلن یونیورسٹی کے محققین نے کولیجن سے نسیجی ڈھانچا تھری ڈی پرنٹ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ کولیجن انسانی جسم کا اہم ساختی جزو ہے۔ اس پیش رفت کے بعد سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ وہ تھری ڈی دل تیار کرنے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب مشی گن یونی ورسٹی سے وابستہ ماہرین روشنی کی مدد سے تھری ڈی پرنٹنگ پروسیس کی رفتار سو گنا تیز کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ کامیابی تھری ڈی پرنٹنگ کی ترقی میں انقلابی ثابت ہوگی۔
٭ گلوبل وارمنگ : کرۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت کئی عشروں سے سنگین ماحولیاتی مسئلہ بنا ہوا ہے جو سائنس دانوں کے بقول، بالآخر اس سیارے کو لے ڈوبے گا۔ ماہرین کے مطابق قدرتی ماحولیاتی نظام میں گلوبل وارمنگ کے باعث پیدا ہونے والا بگاڑ حیاتی چکر کو متأثر کرے گا جس کے سبھی جانداروں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
گلوبل وارمنگ پر تحقیق کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ برسٹول یونی ورسٹی کی ایک بین الاقوامی تحقیق میں کہا گیا کہ گرین لینڈ آئس شیٹ سے سالانہ ہزاروں ٹن میتھین خارج ہورہی ہے جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ کیلی فورنیا یونی ورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ چالیس برس قبل کے مقابلے میں براعظم انٹارکٹیکا اب چھے گنا تیزی سے برف سے محروم ہورہا ہے۔ ایک اور تحقیق میں پاکستان، بھارت، چین اور دیگر ایشیائی ممالک کو مستقبل میں درپیش خطرے کی نشان دہی کی گئی کہ ہمالیہ کے سلسلہ کوہ میں موجود ایک تہائی گلیشیئرز برف پگھل جانے کے باعث ختم ہوجائیں گے جس سے دو ارب نفوس کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی، کیوں کہ گلیشیئرز ختم ہونے سے کئی بڑے دریا بھی قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔
٭ طب: 2019ء میں شعبہ طب میں متعدد پیش رفتیں ہوئیں۔ اسرائیل کی تل ابیب یونی ورسٹی کے محققین نے لبلبے کے سرطان کے علاج میں اہم کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے کہ لبلبے کا سرطان لاعلاج ہے۔ صہیونی سائنس دانوں کی دریافت کردہ تیکنیک میں صرف ایک مالیکیول سرطانی خلیات کو ازخود تباہ ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔
چوہوں پر کیے گئے تجربات میں کامیابی کی شرح 90 فیصد رہی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے لبلبے کے سرطان کے علاج کی راہ ہموار ہوگی۔ ایک اور تحقیق میں مایو کلینک کے محققین نے انسانی جسم سے عمررسیدگی کا سبب بننے والے خلیات خارج کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ عمررسیدگی کے خلیات کئی دیگر امراض میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ امراض قلب کے علاج میں ایک اور اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب محققین پہلی بار اسٹیم سیلز کو دل کے عضلات میں براہ راست پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
یہ کارنامہ برسٹول یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انجام دیا۔ اسی برس امریکا میں سرطان کے مریضوں پر 'کرسپر جین ایڈیٹنگ' کی تیکنیک آزمائی گئی۔ سرطان کے تمام رائج طریقہ ہائے علاج ناکام ہونے پر مریضوں نے خود کو کرسپر کے تجربے کے لیے پیش کیا۔ ماہرین نے امید ظاہر کی کہ یہ ٹیکنالوجی سرطانی خلیات کے خاتمے میں کارگر ثابت ہوگی۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ثابت ہوجاتا ہے تو پھر سرطان کے علاج میں انقلابی پیش رفت ہوگی۔ اسی طرح برطانیہ میں عمررسیدگی سے جڑے نابیناپن کا جینیاتی طریقے سے کامیاب علاج کیا گیا۔ اوکسفرڈ آئی ہاسپیٹل میں جینیٹ اوبسورن نامی خاتون کی آنکھ کے پردے میں مصنوعی جین داخل کرکے نابینا پن کا تدارک کیا گیا۔
٭ توانائی : حصول توانائی کے غیرروایتی ذرائع پر کئی عشروں سے توجہ دی جارہی ہے۔ اسی کے نتیجے میں بایوفیول، ونڈ انرجی اور سولرپینلز سے توانائی حاصل کرنے پر توجہ دی جانے لگی۔ گذشتہ برس بھی اس شعبے میں تحقیق کا سلسلہ جاری رہا۔ کئی تحقیق میں سائنس دانوں نے سولرپینلز کی کارکردگی موجودہ سے کئی گنا بڑھانے کے کامیاب تجربات کیے۔ اسی طرح نئے مادّوں سے آزمائشی طور پر سولر پینلز بنائے گئے جو کارکردگی میں موجودہ سولرپینلز سے کہیں زیادہ تھی۔
ماہرین نے توقع ظاہر کی کہ بہت جلد یہ سولر پینلزعام دستیاب ہوں گے۔ امریکا کی نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے حرارت سے بجلی حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا جس میں مقناطیسی ذرات کی مدد سے حرارتی توانائی سے کہیں زیادہ بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ اسی طرح برطانیہ میں امریکیئم نامی عنصر سے توانائی حاصل کرلی گئی۔ یہ عنصر قدرتی طور پر نہیں پایا جاتا بلکہ پلوٹونیئم کی فرسودگی کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اس عنصر کا استعمال خلائی بیٹریوں میں کیا جائے گا۔ کام یاب آزمائش کے بعد اس کا استعمال عام ہوجائے گا اور یہ تیکنیک توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گا۔
٭ چاند: 2019ء میں زمین کا چاند بھی ماہرین فلکیات اور سائنس دانوں کی توجہ کا محور رہا۔ سال کے آغاز میں چین کا روانہ کردہ مشن چاند کے بعید ترین حصے پر اترگیا۔ چانگ فور روبوٹ خلائی جہاز چاند کے جنوبی قطب میں اترا۔ قبل ازیں ارض قمر کا یہ حصہ کسی بھی بیرونی مداخلت سے ناآشنا تھا۔ اسی لیے خلائی کھوج کے سلسلے میں چانگ فور کی کامیاب لینڈنگ کو ماہرین فلکیات نے اہم سنگ میل قرار دیا۔ چانگ فور جدید آلات سے لیس ہے اور اس کا مقصد چاند کے اس حصے کی ارضیاتی ساخت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی تجربات کرنا ہے۔
چین کے برعکس اسرائیل کی چاند پر خلائی مشن اتارنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ صہیونی ریاست نے اپریل میں چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کیا تھا تاہم چاند کے مدار کے قریب پہنچتے ہی خلائی جہاز کے مرکزی انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا نتیجتاً جہاز ارض قمر سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔ بھارت نے بھی چاند کی جانب خلائی مشن روانہ کیا۔ چندریان ٹو نامی خلائی جہاز قمری مدار میں پہنچنے کے بعد چاند کی سطح پر گر کر تباہ ہوگیا جس کا ملبہ ناسا کے مصنوعی سیارے نے تلاش کرلیا۔
٭ پلاسٹک کی آلودگی: 2019ء میں سائنسی افق پر پلاسٹک سے ہونے والی آلودگی اور اس کے نقصانات بھی چھائے رہے۔ متعدد تحقیق میں بتایا گیا کہ پلاسٹک کی تھیلیاں، بوتلیں اور اس مادّے سے بنی ہوئی دوسری اشیاء بالخصوص سمندری حیات کے لیے زہرقاتل ثابت ہورہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے ساتھ مُردہ آبی جانوروں کی تصاویر بڑی تعداد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں جو پلاسٹک کی تھیلی میں پھنس کر یا پلاسٹک کے ریشوں میں الجھ کر جان کی بازی ہار گئے تھے۔
مُردہ وھیل اور دیگر بڑی مچھلیوں کے چاک پیٹوں میں موجود پلاسٹک کی مختلف اشیاء کی تصاویر بھی شیئر کی جاتی رہیں۔ دوسری جانب پلاسٹک کی آلودگی سے سمندروں کو صاف کرنے کے طریقوں پر بھی تحقیق ہوتی رہی۔ محدود پیمانے پر اگرچہ مختلف طریقے اختیار کیے جارہے ہیں تاہم ماہرین ابھی تک کوئی ایسا طریقہ وضع کرنے یا کوئی ایسی تیکنیک دریافت کرنے میں ناکام ہیں جس کے ذریعے بڑے پیمانے پر سمندروں کو پلاسٹک کی آلودگی سے پاک کیا جاسکے۔
٭ کمپیوٹنگ: کمپیوٹر پروسیسرز کی رفتار میں زیادہ سے زیادہ اضافے کی نہ ختم ہونے والے طلب کے پیش نظر 2019ء میں بھی اس شعبے میں تحقیق و اختراعات کا سلسلہ جاری رہا۔ مائیکروچپس بنانے والے معروف ادارے انٹیل نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) ٹیکنالوجی سے لیس مائیکروچپس متعارف کرائی جو ایک ہزار گنا زیادہ تیزی سے ڈیٹا پروسیس کرسکتی ہے۔
اسی طرح آئی بی ایم اور دیگر کمپنیوں نے بھی تیز ترین کمپیوٹرز متعارف کروائے۔ تیزرفتار پروسیسر کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ڈیٹا ذخیرہ کرنے گنجائش کی حامل فلیش ڈرائیوز ، ہارڈ ڈسک بھی متعارف کرائی گئیں۔ لیکسر نامی کمپنی نے ایک ٹیرابائٹ (ایک ہزار گیگابائٹ) گنجائش کا حامل ایس ڈی کارڈ پیش کیا۔ اسی طرح دیگر کمپنیوں کی جانب سے زیادہ گنجائش رکھنے والی ڈرائیوز پیش کی جاتی رہیں۔
٭ ڈرون ٹیکنالوجی: ڈرون سائنس و ٹیکنالوجی کی ان شاخوں میں شامل ہے جس نے گذشتہ چند برسوں کے دوران تیزی سے ارتقائی منازل طے کیں۔ ڈرون طیاروں ( کواڈکوپٹر) کا استعمال کئی برس سے کیا جارہا ہے مگر 2019ء میں اس ٹیکنالوجی نے اڑن کاروں، اڑن موٹرسائیکلوں کی صورت میں نئی جہت اختیار کرلی۔ اسی طرح ڈرون طیاروں کا استعمال بھی متنوع ہوتا چلا گیا اور مختلف استعمالات کی غرض سے نئے کواڈ کوپٹر اور ملٹی کوپٹر بھی سامنے آئے۔
٭ بلیک ہول: 2019ء میں بھی سائنس داں بلیک ہولز سے جوجھتے رہے مگر ماضی کی طرح اس برس بھی وہ ان پراسرار مظاہر قدرت کے بارے میں کوئی قابل ذکر بات نہ جان سکے تاہم ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ انھوں نے پہلی بار ایک بلیک ہول کی شبیہہ حاصل کرلی۔ یہ کارنامہ دو سو ماہرین فلکیات کی ٹیم نے ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ کی مدد سے انجام دیا۔ ماہرین فلکیات کے مطابق یہ بلیک ہول زمین سے پانچ کروڑ پچاس لاکھ نوری سال کی دوری پر ہے اور اس کی کمیت سورج سے ساڑھے چھے ارب گنا زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس پیش رفت سے انھیں بلیک ہولز کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے۔