ایک نئی پی آئی اے
پی آئی اے کو بحالی کی جانب لے جانا اور اس کی تنظیم نو کرنے کے لیے مضبوط قوت ارادی اور دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
کسی فضائی مسافر اور فضائی میزبان میں زمینی فاصلہ تو نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر احتیاط اور وضع داری ہر شریف مسافر اور ائر ہوسٹس کے درمیان حائل رہتی ہے جو زمینی فاصلوں کو مختصر ترین ہونے کے باوجود میلوں تک بڑھا دیتی ہے ۔ ہوائی سفر میں سروس اور سروس کرنے والوں کی شخصیت بہت اہمیت رکھتی ہے ۔
سفر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے اور سفر کی کلفتوں کو دور کرنے کے لیے لازم ہے کہ جہاں سروس اچھی ہو کھانا پینا بہتر ہو ،سروس کرنے والے بھی خوشگوار ہوں جو دیکھنے والوںکو بھی بھلے لگیں تو مسافروں کی بے شمار شکائتیں جو وہ دل میں لے کر سفر کرتے ہیں وہ دور ہوجاتی ہیں ۔
میں بات کر رہاہوں قومی ائر لائن پی آئی اے کی جس کے متعلق جب بھی بات کی جاتی ہے توسب سے پہلے اس کے دو مرتبہ سربراہ رہنے والے ائر مارشل ملک نور خان کے تذکرہ کے بغیر بات تشنہ رہ جاتی ہے۔
ائر مارشل نورخان کی سربراہی میں پی آئی اے کا شماردنیا کی بہترین لائنوں میں ہوتا تھا انھوں نے اس ادارے کی ایک باپ بن کر پرورش کی اور اس کو ترقی کی ان بلندیوں پر لے گئے جہاں تک پہنچنا ان کے بعد آنے والے پی آئی اے کے سربراہوں کی صرف خواہش ہی رہی ۔ ائر مارشل ملک نور خان اپنے ملک کے لیے فضاؤںکو تسخیر کرنے کے بعد جب ہوائی جہاز سے نیچے زمین پر اترے تو پھر انھوں نے زندگی کے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اسے قابل ِرشک بنا دیا۔
ائر فورس سے پی آئی اے میں آئے تو اس فضائی کمپنی کو دنیا کی چند بہترین کمپنیوں میں شامل کر دیا مگر اس بات کا افسوس رہے گا کہ وہ جب دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو نور خان کی پی آئی اے پہچانی نہیں جاتی تھی۔ یہ بہادر ہو اباز جری اس قدر تھا کہ پی آئی اے کے طیارے کو کراچی ائر پورٹ پر ہائی جیکروں سے چھڑاتے ہوئے گولی بھی کھا لی لیکن اپنا جہاز بچا لیا۔
پی آئی اے کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ماضی قریب میں کوئی مثبت بات سامنے نہیں تھی سوائے اس کے محنتی ملازمین کے جو ہر طرح کے حالات میں اپنی ائر لائن کے طیاروں کو اڑان بھرنے کے قابل بنا کر دنیابھر کی فضاؤں میں پاکستان کا پرچم بلند رکھتے ہیں گو کہ اس پرچم کو پی آئی اے کے طیاروں سے اتارنے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن قومی پرچم تو موجود رہا البتہ پرچم اتارنے والے خود اتر گئے ۔ گزشتہ ایک برس سے پی آئی اے کی سربراہی ارشد ملک کے پاس ہے انھوں نے مشکل وقت میں ایک ایسے ادارے کی سربراہی کا چیلنج قبول کیا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی ۔
گزشتہ دنوں وہ ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پی آئی اے کا تین برس سے حساب کتاب ہی مکمل نہیں کیاگیا تھا انھوں نے اس کو نہ صرف مکمل کیا بلکہ اسے شیئر ہولڈرز کے سامنے پیش بھی کیا۔ انھوں نے تمام طیاروں کو قابل پرواز بنایا جس کی وجہ سے ادارے کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔
نئے طیارے شامل کیے ہیں، قومی ایوی ایشن پالیسی میں اپنا کردار اداکیا ہے ماہانہ نقصانات میں کمی کی ہے ۔سفارش کے کلچر کو ختم کیا ہے ، میرٹ کو لاگو کیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ پی آئی اے کے مسافرایک مدت سے اس کی سروس سے نالاں ہیں پروازوں کی آمدورفت ہو یا اس کی خدمات کا معیار ہو ملک کے ہر ادارے کی طرح اس کی حالت بھی خراب ہی ہے اور اسی حالت کو تبدیل کرنے کاچیلنج ائر مارشل ارشد ملک نے قبول کیا ہے۔
بے شمار مشکلات ہیں پی آئی اے کے پاس طیاروں کی کمی ہے اور اس کی استعداد کار ابھی تک اس سطح تک نہیں پہنچ پائی کہ وہ پاکستان سے سفر کرنے والے تمام مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کر سکے لیکن گزشتہ ایک برس میں ایک واضح فرق دیکھنے میں آرہا ہے موجود طیاروں کو قابل پرواز بنا کر پروازوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جارہا ہے اور موثر انتظامی کنٹرول سے ادارے کی سروس میں بہتری کے نمایاں آثار نظر آرہے ہیں ۔
پی آئی اے کو بحالی کی جانب لے جانا اور اس کی تنظیم نو کرنے کے لیے مضبوط قوت ارادی اور دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے، گزشتہ ایک دہائی سے زائد کے عرصہ میں اس اہم قومی ادارے کے جتنے بھی سربراہ مقرر ہوئے انھوں نے ترقی کے دعوے تو بہت کیے مگر کوئی سربراہ بھی اپنے ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہا ۔
میرے مرحوم دوست چوہدری احمد سعید کی پی آئی اے کے لیے خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا وہ پی آئی اے کو بوئنگ طیاروں کا تحفہ دے گئے جن کی وجہ سے اس وقت پی آئی اے کا فضائی آپریشن رواں دواں ہے وہ بطور سربراہ ادارے سے کسی بھی قسم کی کوئی مراعات نہیں لیتے تھے بلکہ وہ اپنے فضائی سفر کے اخراجات بھی خود ادا کرتے تھے ۔ ائر مارشل ارشد ملک بھی پی آئی اے سے کسی قسم کی مراعات نہیں لے رہے ہیں۔
قومی ادارے کو بحال کرنے کے لیے یہ وقت مشکل فیصلوں کا ہے اور ان مشکل فیصلوں سے ہی پی آئی اے میں دوبارہ زندگی کے آثار نمودار ہوں گے ۔ بحالی کے اس سفر میں غیر معمولی اورموثر فیصلے ہی اس اہم قومی ادارے کی بقاء کی ضمانت ہیں ۔ ارشد ملک کو اپنے سینئر ملک نورخان کے یہ الفاظ ضرور یاد رکھنا ہوں گے کہ '' جب تک آپ غیر معمولی جرات اور کسی خطرے سے نپٹنے کا نمونہ پیش نہ کریں تو آپ کے ساتھی ایسا کیسے کریں گے''۔ادارے انسان بناتے ہیں پی آئی اے کو ائر مارشل ارشد ملک کے ساتھ اب دعاؤں کی بھی ضرورت ہے تا کہ ماہرین کی مہارت اور دعائیں مل کر پی آئی اے کو اونچا اڑا سکیں ۔
پی آئی اے والے ہر پرواز کے شروع میں ایک دعا مسنونہ پڑھتے ہیں اس میں پی آئی اے کے لیے بھی ایک دعا شامل کر لیں۔ ہمیں اپنے قومی ادارے کو بحال کرنے اور ایک نئی پی آئی اے کے لیے اس کے سربراہ پر بھر پور اعتماد کرنا ہو گا تا کہ امید کی جوکرن جاگی ہے وہ کہیں ماند نہ پڑ جائے ۔
سفر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے اور سفر کی کلفتوں کو دور کرنے کے لیے لازم ہے کہ جہاں سروس اچھی ہو کھانا پینا بہتر ہو ،سروس کرنے والے بھی خوشگوار ہوں جو دیکھنے والوںکو بھی بھلے لگیں تو مسافروں کی بے شمار شکائتیں جو وہ دل میں لے کر سفر کرتے ہیں وہ دور ہوجاتی ہیں ۔
میں بات کر رہاہوں قومی ائر لائن پی آئی اے کی جس کے متعلق جب بھی بات کی جاتی ہے توسب سے پہلے اس کے دو مرتبہ سربراہ رہنے والے ائر مارشل ملک نور خان کے تذکرہ کے بغیر بات تشنہ رہ جاتی ہے۔
ائر مارشل نورخان کی سربراہی میں پی آئی اے کا شماردنیا کی بہترین لائنوں میں ہوتا تھا انھوں نے اس ادارے کی ایک باپ بن کر پرورش کی اور اس کو ترقی کی ان بلندیوں پر لے گئے جہاں تک پہنچنا ان کے بعد آنے والے پی آئی اے کے سربراہوں کی صرف خواہش ہی رہی ۔ ائر مارشل ملک نور خان اپنے ملک کے لیے فضاؤںکو تسخیر کرنے کے بعد جب ہوائی جہاز سے نیچے زمین پر اترے تو پھر انھوں نے زندگی کے جس شعبے میں بھی قدم رکھا اسے قابل ِرشک بنا دیا۔
ائر فورس سے پی آئی اے میں آئے تو اس فضائی کمپنی کو دنیا کی چند بہترین کمپنیوں میں شامل کر دیا مگر اس بات کا افسوس رہے گا کہ وہ جب دنیا سے رخصت ہو رہے تھے تو نور خان کی پی آئی اے پہچانی نہیں جاتی تھی۔ یہ بہادر ہو اباز جری اس قدر تھا کہ پی آئی اے کے طیارے کو کراچی ائر پورٹ پر ہائی جیکروں سے چھڑاتے ہوئے گولی بھی کھا لی لیکن اپنا جہاز بچا لیا۔
پی آئی اے کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ماضی قریب میں کوئی مثبت بات سامنے نہیں تھی سوائے اس کے محنتی ملازمین کے جو ہر طرح کے حالات میں اپنی ائر لائن کے طیاروں کو اڑان بھرنے کے قابل بنا کر دنیابھر کی فضاؤں میں پاکستان کا پرچم بلند رکھتے ہیں گو کہ اس پرچم کو پی آئی اے کے طیاروں سے اتارنے کی کئی بار کوشش کی گئی لیکن قومی پرچم تو موجود رہا البتہ پرچم اتارنے والے خود اتر گئے ۔ گزشتہ ایک برس سے پی آئی اے کی سربراہی ارشد ملک کے پاس ہے انھوں نے مشکل وقت میں ایک ایسے ادارے کی سربراہی کا چیلنج قبول کیا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں تھی ۔
گزشتہ دنوں وہ ایک ٹی وی پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پی آئی اے کا تین برس سے حساب کتاب ہی مکمل نہیں کیاگیا تھا انھوں نے اس کو نہ صرف مکمل کیا بلکہ اسے شیئر ہولڈرز کے سامنے پیش بھی کیا۔ انھوں نے تمام طیاروں کو قابل پرواز بنایا جس کی وجہ سے ادارے کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔
نئے طیارے شامل کیے ہیں، قومی ایوی ایشن پالیسی میں اپنا کردار اداکیا ہے ماہانہ نقصانات میں کمی کی ہے ۔سفارش کے کلچر کو ختم کیا ہے ، میرٹ کو لاگو کیا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کہ پی آئی اے کے مسافرایک مدت سے اس کی سروس سے نالاں ہیں پروازوں کی آمدورفت ہو یا اس کی خدمات کا معیار ہو ملک کے ہر ادارے کی طرح اس کی حالت بھی خراب ہی ہے اور اسی حالت کو تبدیل کرنے کاچیلنج ائر مارشل ارشد ملک نے قبول کیا ہے۔
بے شمار مشکلات ہیں پی آئی اے کے پاس طیاروں کی کمی ہے اور اس کی استعداد کار ابھی تک اس سطح تک نہیں پہنچ پائی کہ وہ پاکستان سے سفر کرنے والے تمام مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کر سکے لیکن گزشتہ ایک برس میں ایک واضح فرق دیکھنے میں آرہا ہے موجود طیاروں کو قابل پرواز بنا کر پروازوں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جارہا ہے اور موثر انتظامی کنٹرول سے ادارے کی سروس میں بہتری کے نمایاں آثار نظر آرہے ہیں ۔
پی آئی اے کو بحالی کی جانب لے جانا اور اس کی تنظیم نو کرنے کے لیے مضبوط قوت ارادی اور دلیرانہ فیصلوں کی ضرورت ہے، گزشتہ ایک دہائی سے زائد کے عرصہ میں اس اہم قومی ادارے کے جتنے بھی سربراہ مقرر ہوئے انھوں نے ترقی کے دعوے تو بہت کیے مگر کوئی سربراہ بھی اپنے ان دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہا ۔
میرے مرحوم دوست چوہدری احمد سعید کی پی آئی اے کے لیے خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا وہ پی آئی اے کو بوئنگ طیاروں کا تحفہ دے گئے جن کی وجہ سے اس وقت پی آئی اے کا فضائی آپریشن رواں دواں ہے وہ بطور سربراہ ادارے سے کسی بھی قسم کی کوئی مراعات نہیں لیتے تھے بلکہ وہ اپنے فضائی سفر کے اخراجات بھی خود ادا کرتے تھے ۔ ائر مارشل ارشد ملک بھی پی آئی اے سے کسی قسم کی مراعات نہیں لے رہے ہیں۔
قومی ادارے کو بحال کرنے کے لیے یہ وقت مشکل فیصلوں کا ہے اور ان مشکل فیصلوں سے ہی پی آئی اے میں دوبارہ زندگی کے آثار نمودار ہوں گے ۔ بحالی کے اس سفر میں غیر معمولی اورموثر فیصلے ہی اس اہم قومی ادارے کی بقاء کی ضمانت ہیں ۔ ارشد ملک کو اپنے سینئر ملک نورخان کے یہ الفاظ ضرور یاد رکھنا ہوں گے کہ '' جب تک آپ غیر معمولی جرات اور کسی خطرے سے نپٹنے کا نمونہ پیش نہ کریں تو آپ کے ساتھی ایسا کیسے کریں گے''۔ادارے انسان بناتے ہیں پی آئی اے کو ائر مارشل ارشد ملک کے ساتھ اب دعاؤں کی بھی ضرورت ہے تا کہ ماہرین کی مہارت اور دعائیں مل کر پی آئی اے کو اونچا اڑا سکیں ۔
پی آئی اے والے ہر پرواز کے شروع میں ایک دعا مسنونہ پڑھتے ہیں اس میں پی آئی اے کے لیے بھی ایک دعا شامل کر لیں۔ ہمیں اپنے قومی ادارے کو بحال کرنے اور ایک نئی پی آئی اے کے لیے اس کے سربراہ پر بھر پور اعتماد کرنا ہو گا تا کہ امید کی جوکرن جاگی ہے وہ کہیں ماند نہ پڑ جائے ۔