2020ء اعلیٰ عدلیہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا
سپریم کورٹ مشرف،پشاورمیں حراستی مراکزاور جسٹس فائز کیسز کے فیصلے دیگی
اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ ممکنہ لڑائی سے بچنے کیلئے آرمی چیف کی مدت کاتعین کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کے باوجود نیا سال(2020)چیف جسٹس گلزاراحمدکی سربراہی میں اعلیٰ عدالتوں اورملٹری اسٹیبلشمنٹ اہم ہوگا۔
مارچ2009 میں ججوں کی بحالی کے بعدسیاستدانوں/سیاسی لیڈرشپ کوعدالت عظمیٰ کی طرف سے سخت مشکلات کاسامنا کرناپڑاہے۔یہاں تک کہ دووزرائے اعظم کی چھٹی ہوئی جبکہ جعلی اسناد،دوہری شہریت اورکاغذات مامزدگی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پرتین درجن کے قریب ایم این ایز نااہل قرار دئے گئے۔اسی طرح چند عدالتی حکم عدولی کے مرتکب قرارپائے۔
دوسری طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کوکبھی مشکل وقت کاسامنانہیں کرنا پڑا اور عدالتوں نے ان معاملات میں زیادہ ترعدالتی پابندی کی پالیسی اپنائی۔تاہم آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں ان کی مدت ملازمت کے آخری دنوں میںسپریم کورٹ نے چند مقدمات لئے جس نے ملک کی سول اورملٹری قیادت کے ہوش اڑادئے ۔اسی طرح حکومت کی قانونی ٹیم ان معاملات سے نمٹنے کیلئے کوئی موثرحکمت عملی تیارکرنے میں ناکام رہی۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس معاملے میں غیرمتوقع اقدام پر حکومتی قانونی ٹیم خاصی پریشان دکھائی دی۔اگرچہ عدالتی حکم کی روشنی میں قانون سازی جاری رکھنے کافیصلہ کیاتاہم سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے متعلقہ کچھ امور اب بھی فیصلہ طلب ہیں۔
مارچ2009 میں ججوں کی بحالی کے بعدسیاستدانوں/سیاسی لیڈرشپ کوعدالت عظمیٰ کی طرف سے سخت مشکلات کاسامنا کرناپڑاہے۔یہاں تک کہ دووزرائے اعظم کی چھٹی ہوئی جبکہ جعلی اسناد،دوہری شہریت اورکاغذات مامزدگی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پرتین درجن کے قریب ایم این ایز نااہل قرار دئے گئے۔اسی طرح چند عدالتی حکم عدولی کے مرتکب قرارپائے۔
دوسری طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کوکبھی مشکل وقت کاسامنانہیں کرنا پڑا اور عدالتوں نے ان معاملات میں زیادہ ترعدالتی پابندی کی پالیسی اپنائی۔تاہم آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں ان کی مدت ملازمت کے آخری دنوں میںسپریم کورٹ نے چند مقدمات لئے جس نے ملک کی سول اورملٹری قیادت کے ہوش اڑادئے ۔اسی طرح حکومت کی قانونی ٹیم ان معاملات سے نمٹنے کیلئے کوئی موثرحکمت عملی تیارکرنے میں ناکام رہی۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس معاملے میں غیرمتوقع اقدام پر حکومتی قانونی ٹیم خاصی پریشان دکھائی دی۔اگرچہ عدالتی حکم کی روشنی میں قانون سازی جاری رکھنے کافیصلہ کیاتاہم سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے متعلقہ کچھ امور اب بھی فیصلہ طلب ہیں۔