حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں ہوں گےامیر کالعدم تحریک طالبان ملا فضل اللہ
ملا فضل اللہ حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے حق میں نہیں ، ترجمان کالعدم تحریک طالبان
HANGU:
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر ملا فضل اللہ نے حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس شمالی وزیرستان میں منعقد کیا گیا جس میں پاکستان اور افغانستان میں موجود تمام ارکان نے شرکت کی، 6 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے دوران ملا فضل اللہ سمیت 5 ناموں پر غور کیا گیا تاہم شوریٰ نے مشاورت کے بعد تحریک طالبان سوات کے سربراہ ملا فضل اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر جبکہ تحریک طالبان صوابی کے سربراہ خالد شیخ حقانی کو نائب امیر مقرر کردیا ہے۔
شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ ملا فضل اللہ کے خیال میں حکومت سے بات نہیں کی جاسکتی اس لئے اب حکومت سے کسی بھی قسم کے امن مذاکرات نہیں ہوں گے، پاکستان میں اقتدار میں آنے والی ہر جماعت ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیلتی ہے، امن مذاکرات کے نام پر حکومتوں نے ہمیں دھوکا دیا اور ہمارے لوگوں کو قتل کیا، ہمیں 100 فیصد یقین ہے کہ موجودہ حکومت ڈرون حملوں کی حامی ہے۔ شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ بطور امیر تحریک طالبان ملا فضل اللہ حکومت سے بدلہ لینے کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
ملا فضل اللہ کا تعلق سوات سے ہے، وہ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کا داماد ہے اور ملا فضل اللہ 2007 میں مالاکنڈ ایجنسی میں شریعت کے نفاذ کے لئے جدو جہد پر منظر عام پر آیا تھا اس دوران وہ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کے ذریعے عوام کو شرعی اصولوں پر چلنے کی تلقین بھی کرتا رہا جس کی وجہ سے اسے ملا ریڈیو کے نام سے پہچانا جاتا تھا، 2008 میں سوات امن معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سوات میں ہونے والے والے آپریشن کے نتیجے میں وہ فاٹا اور افغان صوبے نورستان فرار ہوگیا جہاں سے اس نے پاکستان میں کارروائیاں شروع کیں، اس کی جانب سے گزشتہ برس ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی تاہم گزشتہ ماہ اپنے ایک انٹرویو میں اس نے مالاکنڈ میں میجر جنرل ثنا للہ عباسی سمیت 3 اعلیٰ فوجی افسران کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ ملا فضل اللہ پر حکومت کی جانب سے 50 لاکھ انعام مقرر ہے جبکہ حکومتی سطح پر کئی بار افغان حکومت سے اس کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا جاچکا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر ملا فضل اللہ نے حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس شمالی وزیرستان میں منعقد کیا گیا جس میں پاکستان اور افغانستان میں موجود تمام ارکان نے شرکت کی، 6 روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے دوران ملا فضل اللہ سمیت 5 ناموں پر غور کیا گیا تاہم شوریٰ نے مشاورت کے بعد تحریک طالبان سوات کے سربراہ ملا فضل اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا نیا امیر جبکہ تحریک طالبان صوابی کے سربراہ خالد شیخ حقانی کو نائب امیر مقرر کردیا ہے۔
شاہد اللہ شاہد نے کہا کہ ملا فضل اللہ کے خیال میں حکومت سے بات نہیں کی جاسکتی اس لئے اب حکومت سے کسی بھی قسم کے امن مذاکرات نہیں ہوں گے، پاکستان میں اقتدار میں آنے والی ہر جماعت ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیلتی ہے، امن مذاکرات کے نام پر حکومتوں نے ہمیں دھوکا دیا اور ہمارے لوگوں کو قتل کیا، ہمیں 100 فیصد یقین ہے کہ موجودہ حکومت ڈرون حملوں کی حامی ہے۔ شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ بطور امیر تحریک طالبان ملا فضل اللہ حکومت سے بدلہ لینے کے لئے کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
ملا فضل اللہ کا تعلق سوات سے ہے، وہ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کا داماد ہے اور ملا فضل اللہ 2007 میں مالاکنڈ ایجنسی میں شریعت کے نفاذ کے لئے جدو جہد پر منظر عام پر آیا تھا اس دوران وہ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو کے ذریعے عوام کو شرعی اصولوں پر چلنے کی تلقین بھی کرتا رہا جس کی وجہ سے اسے ملا ریڈیو کے نام سے پہچانا جاتا تھا، 2008 میں سوات امن معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سوات میں ہونے والے والے آپریشن کے نتیجے میں وہ فاٹا اور افغان صوبے نورستان فرار ہوگیا جہاں سے اس نے پاکستان میں کارروائیاں شروع کیں، اس کی جانب سے گزشتہ برس ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی تاہم گزشتہ ماہ اپنے ایک انٹرویو میں اس نے مالاکنڈ میں میجر جنرل ثنا للہ عباسی سمیت 3 اعلیٰ فوجی افسران کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ ملا فضل اللہ پر حکومت کی جانب سے 50 لاکھ انعام مقرر ہے جبکہ حکومتی سطح پر کئی بار افغان حکومت سے اس کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا جاچکا ہے۔