معاشی استحکام کے لیے امن ضروری ہے

ملائیشیا کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا گیا


Editorial November 07, 2013
یہ حقیقت ہے کہ حکومت ہر شخص کو روز گار فراہم نہیں کر سکتی‘ اس لیے پوری دنیا میں روز گار کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے نجی شعبے کو تقویت دی جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قرض حسنہ اسکیم میں خواتین کے لیے 50 فیصد قرضے مختص کیے جائیں اور کم سے کم ممکنہ وقت میں قرضوں کے حصول کا طریقہ کار آسان بنایا جائے۔

ملک بھر میں اس وقت نوجوانوں کی بڑی تعداد بے روز گاری کا شکار ہے خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے نوکری کی تلاش میں خاک چھانتے دکھائی پڑتے ہیں' بہت سے نوجوان تو نوکری کی تلاش میں مطلوبہ عمر کی حد ہی عبور کر چکے ہیں' ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور لاقانونیت نے معیشت پر بہت برا اثر ڈالا ہے' اس صورت حال سے نوجوان طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ایسے میں معاشرے میں بے روز گاروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد بے روز گار نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کے لیے وزیراعظم یوتھ پروگرام کا اعلان کیا جو چھ اسکیموں پر مشتمل ہے جس میں قرض حسنہ'چھوٹے کاروبار کے قرضے' نوجوانوں کے لیے تربیتی اسکیم' نوجوانوں کو ہنر سکھانے کی اسکیم' لیپ ٹاپ کی فراہمی اور کم ترقی یافتہ علاقوں کے طالب علموں کے لیے فیس کی ادائیگی کی اسکیم شامل ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ حکومت ہر شخص کو روز گار فراہم نہیں کر سکتی' اس لیے پوری دنیا میں روز گار کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے نجی شعبے کو تقویت دی جاتی ہے کیونکہ یہ شعبہ ہی بڑے پیمانے پر روز گار فراہم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ کسی ملک کی ترقی کا انحصار نجی شعبے کے استحکام پر ہوتا ہے۔ نجی شعبہ جتنا مضبوط ہو گا' ملک اتنی ہی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرے گا۔ ن لیگ کی حکومت نے بھی انھیں امور کا ادراک کرتے ہوئے یوتھ پروگرام شروع کیا تاکہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی بے روز گاری کے خاتمے کے لیے نجی شعبے کو آگے بڑھایا جائے۔ اس پروگرام کے تحت قرض حسنہ کی اسکیم شروع کی گئی ہے۔ وزیراعظم کا خواتین کے لیے 50 فیصد قرضے مختص کرنے کا فیصلہ صائب ہے۔ خواتین ہماری آبادی کا تقریباً نصف فیصد ہیں، اتنے بڑے حصے کی شمولیت کے بغیر ترقی کا تصور ناممکن ہے۔ دیہات اور شہروں میں خواتین کی ایک تعداد مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے مگر اس کے باوجود ان کی بڑی تعداد خاص طور پر دیہات میں جہالت اور غربت کا شکار ہے۔

قرض حسنہ ملنے سے خواتین کو بھی اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کا موقع ملے گا اور اس طرح ملک میں خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ بڑے ادارے اور صنعتیں قائم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسمال انڈسٹریز کے قیام سے کم سرمائے پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روز گار ملتا ہے اور صنعتی شعبہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نوجوانوں کو چھوٹے کاروبار کے آغاز کے لیے قرضہ ملنے سے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا اور یہ عمل ملک میں موجود کاروباری جمود توڑنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہو گا۔ معاشی سرگرمیاں سست ہونے کے باعث کاروباری طبقہ پریشانی کا شکار ہے دوسری جانب بڑھتی ہوئی مہنگائی نے بھی کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے۔ جب نوجوان چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کریں گے تو اس سے جہاں بے روز گاری میں کمی ہو گی وہاں صنعتی شعبے میں بھی تیزی آئے گی مناسب تربیت اور رہنمائی ملنے سے یہ محنتی نوجوان چھوٹے کاروبار کو ترقی دے کر ملک میں انقلاب لا سکتے ہیں۔

نوجوانوں کو ہنر سکھانے کا فیصلہ بالکل صائب ہے۔ وہ نوجوان جو کم پڑھے لکھے ہیں یا مالی طور پر کاروبار چلانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ہنر سیکھ کر معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جائزہ اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر 25 لاکھ نوجوانوں کو قرضے فراہم کیے جائیں گے اور ایک لاکھ لیپ ٹاپ جنوری 2014ء میں فراہم کیے جائیں گے۔ بڑے شہروں میں تو ترقی اور کاروبار کے مواقع موجود ہوتے ہیں مگر دیہات اور پسماندہ علاقوں میں کاروباری سہولتیں نہ ہونے کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد معاشی کسمپرسی کا شکار ہوتی ہے۔ جہالت اور غربت جیسے دو عذابوں کے باعث لوگوں کی زندگی سست روی اور طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتی ہے۔ انھیں امور کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے ان اسکیموں میں بلوچستان' گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت کم ترقی یافتہ علاقوں کے نوجوانوں کو ترجیح دینے کی ہدایت کی ہے۔ کم ترقی یافتہ علاقوں کو نظر انداز کرکے ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ملائیشیا کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا گیا نتیجتاً آج ملائیشیا تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور آج اسے منی یورپ کہا جاتا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے مگر غربت اور پسماندگی کے باعث ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی صنعتی شعبہ نہ ہونے کے باعث روز گار کے مواقع بہت کم ہیں۔ ان علاقوں میں نوجوانوں کو ترجیح دینے سے یہاں بے روز گاری کم ہونے میں خاصی مدد ملے گی اوروہ ملکی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ جرائم کی ایک بڑی وجہ بے روز گاری بھی ہے۔ نوجوانوں کی ایک تعداد جب روز گار کے حصول میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ مایوس ہو کر جرائم کی طرف راغب ہو جاتی ہے۔ یوتھ پروگرام کے تحت شروع ہونے والی اسکیموں کے تحت جب نوجوانوں کو روز گار کے مواقع ملیں گے تو جرائم کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی۔

نوجوانوں کی فلاح اور بے روز گاری پر قابو پانے کے لیے ییلو کیب اسکیم شروع کی گئی تھی مگر اس اسکیم کے بارے میں یہ شکایات بھی سننے میں آئیں کہ بہت سے غیر متعلقہ افراد نے یہ گاڑیاں حاصل کر لیں اور مستحق افراد کی حق تلفی کا باعث بنے۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت شروع کی جانے والی اسکیموں میں بھی 100 فیصد شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانا ہو گا۔ اگر یہ اسکیم سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی اور اصل حق دار اس کے فوائد سے مستفیض نہ ہو سکے تو یہ اسکیم اپنی افادیت کھو بیٹھے گی۔ اس لیے اس امر کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے کہ اس اسکیم کو بدعنوانی اور لوٹ مار سے بچانے کے لیے میرٹ اور شفافیت کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت ملک میں امن و امان اور دہشت گردی کی جو صورتحال ہے' وہ سرمایہ کاری کے لیے ساز گار نہیں ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار ہو یا ملکی سرمایہ کار' وہ اس وقت اپنا سرمایہ کسی کاروبار میں لگائے گا جب اسے اور اس کے کاروبار کو تحفظ ہو گا' حکومت کو اس جانب سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |