احتساب
اب گلشن میں پرانی روش لوٹ آنے کا اندیشہ ہے۔
کسی چور، لٹیرے اور کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا، وزیر اعظم بننے سے قبل اور بعد میں عمران خان کی تقریروں کے یہ خاص فقرے رہے ہیں۔حکومت سنبھالنے کے بعد وہ بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک جہاں بھی گئے، بڑی دلسوزی سے بتایا کہ کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ چین کی مثال عمران خان اکثر دیتے ہیں کہ کس طرح چین نے کرپشن کے خلاف انتہائی سخت اقدامات اٹھائے ۔ چار سو سے زائد کرپٹ لوگوں کوموت کی سزائیں دی گئیں، ہزاروں کو قید و بند کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کے جوشیلے حامیوں میں یہ فارمولا بہت پسندیدہ ہے۔
وفاقی وزیر فیصل وائوڈا تو برسرِ عام اس خواہش کا اظہار کر چکے کہ پانچ ہزار افراد کو سرِ عام پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو کرپشن کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دیگر کئی احباب اکثر چین سے منسوب ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں جن میں کرپشن کے الزام میں عدالت سے سزا پانے یا بعد از سزا کے مناظر مع اس طعن و تشنیع ہوتے ہیں کہ کاش کرپشن کے مجرموں کے ساتھ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو تو ملک جنت نظیر ہو جائے۔
اس پسِ منظر میں یہ نرا اتفاق نہیں کہ نیب پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران مصروف ترین ادارہ رہا ۔ یہ ادارہ پہلے بھی موجود رہا مگر بقول شخصے وہ بات کہاں تھی مولوی مدن کی سی۔اس ادارے کی رپورٹ صدرِ پاکستان کو پیش کرکے تصاویر میڈیا میں جاری ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی تو نیب نے کرپشن ، منی لانڈرنگ ، اختیارات سے تجاوز اور ذرایع آمدن سے زائد کے اثاثوں کے ضمن میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی اور بزنس مینوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔ حسبِ توقع مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اعلی قیادت کے ساتھ ساتھ نمایاں قائدین میں سے بیشتر کو انکوائری یا تحقیقاتی اسٹیج پر ہی حراست میں لے لیا گیا۔
میڈیا میں ان کی کرپشن کی جو ہوشربا داستانیں آئیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کو سزا ملنا ٹھہر گیا ہے، صبح ملی کہ شام ملی ۔ مگر پھر یوں بھی ہوا کہ نوے دن کے حراستی اختیار کے بعد بھی تفتیش ختم ہونے میں کم ہی آتی، یوں ملزمان ریفرنس دائر ہونے اور عوام ان کرپشن اسکینڈلز پر سزا کے انتظار میں لٹکنے لگے۔ اس انتظار میں البتہ مایوسی یوں نہ آنے پائی کہ پی ٹی آئی کے وزراء ہر دو تین ماہ بعد چند نئے کرپٹ ملزموں کی نشاندہی کردیتے کہ اب ان کی بھی باری آنے والی ہے اور وہ باری آ بھی جاتی۔ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ چیئرمین نیب تواتر کے ساتھ یقین دہانی کراتے رہے کہ سب کا بلا امتیاز احتساب ہوگا ، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، حساب تو دینا پڑے گا۔
بیوروکریسی کے بارے میں بالعموم یہ خبریں عام ہونے لگیں کہ ماضی کے انتظامی فیصلوں میں معمولی سی لغزش پر فلاں فلاں کو نیب کے نوٹس جاری ہوئے اور بات گرفتاری اور تفتیش تک جا پہنچی۔ اس طرح بزنس مینوں کو بھی نوٹسز اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑا جن میں کچھ سرکاری گٹھ جوڑ سے کرپشن اور منی لانڈرنگ پر مبنی تھے اور بہت سے ٹیکس میں کرپشن الزامات پر مبنی تھے۔ بعدازاں بیوروکریسی اور نمایاں کاروباری افراد کو یقین دِہانیاں ہوئیں اور یہ تاکید کہ بیوروکریسی دل چھوٹا نہ کرے اور فیصلہ سازی سے گریز نہ کرے۔ بزنس مینوں کو بھی یقین دہانی ہوئی کہ ـ
اللہ کریسی چنگیاں ،مُک ویسن تنگیاں، دل چھوٹا نہ کروں (اللہ خیر کرے گا، تنگی کے دن ختم ہو جائیں گے، تم دل چھوٹا نہ کرو)۔ کچھ اشارے ملنا شروع ہوگئے کہ احتساب کے طریقے اور دائرہ کار میں کچھ تبدیلیاں لائی جائیں گی تاکہ احتساب کے ساتھ ساتھ گلشن کا بھی کچھ کاروبارچلے۔ یک طرفہ احتساب کا شور حد سے بڑھا تو چیئرمین نیب کی طرف سے وضاحت آئی کہ اب ہوا کا رخ بدلنے کو ہے اور حالیہ مدت کے معاملات کو بھی دیکھا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے گلے میں بی آر ٹی، مالم جبہ سمیت کئی کیسز ایسے ہیں جن میں ان کی اعلیٰ قیادت کے نام آتے ہیں۔
عدالتوں سے اسٹے وغیرہ سے کام چلایا جا رہا تھا لیکن کب تک؟ جب ہوائوں کے رخ بدلنے کی پیشین گوئی سامنے آئی تو چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ اب فلاں فلاں کا کیا بنے گا تو اسی دوران اچانک ایک اور پیش رفت سامنے آ گئی۔ حکومت نے نیب کے قوانین میں ترامیم کا فیصلہ کر لیا۔ وزیر اعظم نے گذشتہ ہفتے کراچی کی ایک تقریب میں کہا کہ سرمایہ کاروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ٹیکس معاملات کی شکایات پر اب نیب کوئی کاروائی نہیں کرے گا بلکہ ایف بی آر کے نظم اور دائرہ کار کے مطابق ان کے معاملات کی جانچ پرکھ ہوگی۔
ان ترامیم کے لیے جلدی میں بلائے گئے پارلیمنٹ کے اجلاس کا انتظار کرنے کی بجائے ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے ان ترامیم کے نفاذ کا فیصلہ ہوا۔شور اٹھا کہ اپنوں کو بچانے کے لیے عجلت میں یہ قدم اٹھایا گیا تو شہزاد اکبر، وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے وضاحت کی کہ یہ ترامیم بہت دیر سے واجب تھیں لیکن گذشتہ حکومتوں نے پہلو تہی کی ، لہٰذا یہ مشکل کام کرنے کا سہرا بھی ان کی حکومت کے سر سجا ہے۔
ان ترامیم کے مطابق بیوروکریٹس کی پروسیجر سے معمولی بلا ارادہ انحراف یا فیصلہ سازی کرتے ہوئے ان کی صوابدید پر گرفت نہیں ہوگی بلکہ محکمانہ فورم پر بازپرس کی جائے گی، اگر مالی منفعت کے واضح شواہد موجود ہوئے تو پھر معاملہ دیگر است ۔ ان کی جائدادکو منجمد کرنے کے ضوابط بھی تبدیل کر دئے گئے ہیں۔ یوں بیوروکریٹس کو اب نیب کی گرفت اور پوچھ گچھ کا اس انداز میں سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ کاروباری افراد کے ٹیکس معاملات میں گڑ بڑ اب پھر سے ایف بی آر کی ذمے داری ہوں گے۔ حکومت کا خیال ہے کہ یوں بیوروکریسی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا ، ملک میں سکھ چین کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جسے لکھنے کے انتظار میں راوی کو بھی اونگھ آنے لگی تھی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے ان ترامیم کے ناقدین پر پھبتی کسی کہ سب سے زیادہ وہ تنقید کر رہے ہیں جنھوں نے آرڈی نینس تک نہیں پڑھا۔ پی پی پی نے اسے حکومت کا سب سے برا یو ٹرن کہا ہے تو یقیناً انھوں نے آرڈی نینس نہیں پڑھا ہو گا ۔ البتہ جنھوں نے وطنِ عزیز میں احتساب کی تاریخ پڑھی ہے ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کرپشن کے کیسز کے لیے مختلف چینلز بنانے سے بلا امتیاز احتساب کا کرو فر تو جاتا رہا۔ اب گلشن میں پرانی روش لوٹ آنے کا اندیشہ ہے۔اور ہاں ، اب بات بے بات چھوڑوں گا نہیں والے تذکرے شاید سیاستدانوں کے لیے مخصوص رہیں گے۔
وفاقی وزیر فیصل وائوڈا تو برسرِ عام اس خواہش کا اظہار کر چکے کہ پانچ ہزار افراد کو سرِ عام پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو کرپشن کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے دیگر کئی احباب اکثر چین سے منسوب ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں جن میں کرپشن کے الزام میں عدالت سے سزا پانے یا بعد از سزا کے مناظر مع اس طعن و تشنیع ہوتے ہیں کہ کاش کرپشن کے مجرموں کے ساتھ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو تو ملک جنت نظیر ہو جائے۔
اس پسِ منظر میں یہ نرا اتفاق نہیں کہ نیب پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران مصروف ترین ادارہ رہا ۔ یہ ادارہ پہلے بھی موجود رہا مگر بقول شخصے وہ بات کہاں تھی مولوی مدن کی سی۔اس ادارے کی رپورٹ صدرِ پاکستان کو پیش کرکے تصاویر میڈیا میں جاری ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت اقتدار میں آئی تو نیب نے کرپشن ، منی لانڈرنگ ، اختیارات سے تجاوز اور ذرایع آمدن سے زائد کے اثاثوں کے ضمن میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی اور بزنس مینوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کردیا۔ حسبِ توقع مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی اعلی قیادت کے ساتھ ساتھ نمایاں قائدین میں سے بیشتر کو انکوائری یا تحقیقاتی اسٹیج پر ہی حراست میں لے لیا گیا۔
میڈیا میں ان کی کرپشن کی جو ہوشربا داستانیں آئیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کو سزا ملنا ٹھہر گیا ہے، صبح ملی کہ شام ملی ۔ مگر پھر یوں بھی ہوا کہ نوے دن کے حراستی اختیار کے بعد بھی تفتیش ختم ہونے میں کم ہی آتی، یوں ملزمان ریفرنس دائر ہونے اور عوام ان کرپشن اسکینڈلز پر سزا کے انتظار میں لٹکنے لگے۔ اس انتظار میں البتہ مایوسی یوں نہ آنے پائی کہ پی ٹی آئی کے وزراء ہر دو تین ماہ بعد چند نئے کرپٹ ملزموں کی نشاندہی کردیتے کہ اب ان کی بھی باری آنے والی ہے اور وہ باری آ بھی جاتی۔ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ چیئرمین نیب تواتر کے ساتھ یقین دہانی کراتے رہے کہ سب کا بلا امتیاز احتساب ہوگا ، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، حساب تو دینا پڑے گا۔
بیوروکریسی کے بارے میں بالعموم یہ خبریں عام ہونے لگیں کہ ماضی کے انتظامی فیصلوں میں معمولی سی لغزش پر فلاں فلاں کو نیب کے نوٹس جاری ہوئے اور بات گرفتاری اور تفتیش تک جا پہنچی۔ اس طرح بزنس مینوں کو بھی نوٹسز اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑا جن میں کچھ سرکاری گٹھ جوڑ سے کرپشن اور منی لانڈرنگ پر مبنی تھے اور بہت سے ٹیکس میں کرپشن الزامات پر مبنی تھے۔ بعدازاں بیوروکریسی اور نمایاں کاروباری افراد کو یقین دِہانیاں ہوئیں اور یہ تاکید کہ بیوروکریسی دل چھوٹا نہ کرے اور فیصلہ سازی سے گریز نہ کرے۔ بزنس مینوں کو بھی یقین دہانی ہوئی کہ ـ
اللہ کریسی چنگیاں ،مُک ویسن تنگیاں، دل چھوٹا نہ کروں (اللہ خیر کرے گا، تنگی کے دن ختم ہو جائیں گے، تم دل چھوٹا نہ کرو)۔ کچھ اشارے ملنا شروع ہوگئے کہ احتساب کے طریقے اور دائرہ کار میں کچھ تبدیلیاں لائی جائیں گی تاکہ احتساب کے ساتھ ساتھ گلشن کا بھی کچھ کاروبارچلے۔ یک طرفہ احتساب کا شور حد سے بڑھا تو چیئرمین نیب کی طرف سے وضاحت آئی کہ اب ہوا کا رخ بدلنے کو ہے اور حالیہ مدت کے معاملات کو بھی دیکھا جائے گا۔ پی ٹی آئی کے گلے میں بی آر ٹی، مالم جبہ سمیت کئی کیسز ایسے ہیں جن میں ان کی اعلیٰ قیادت کے نام آتے ہیں۔
عدالتوں سے اسٹے وغیرہ سے کام چلایا جا رہا تھا لیکن کب تک؟ جب ہوائوں کے رخ بدلنے کی پیشین گوئی سامنے آئی تو چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں کہ اب فلاں فلاں کا کیا بنے گا تو اسی دوران اچانک ایک اور پیش رفت سامنے آ گئی۔ حکومت نے نیب کے قوانین میں ترامیم کا فیصلہ کر لیا۔ وزیر اعظم نے گذشتہ ہفتے کراچی کی ایک تقریب میں کہا کہ سرمایہ کاروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ٹیکس معاملات کی شکایات پر اب نیب کوئی کاروائی نہیں کرے گا بلکہ ایف بی آر کے نظم اور دائرہ کار کے مطابق ان کے معاملات کی جانچ پرکھ ہوگی۔
ان ترامیم کے لیے جلدی میں بلائے گئے پارلیمنٹ کے اجلاس کا انتظار کرنے کی بجائے ایک صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے ان ترامیم کے نفاذ کا فیصلہ ہوا۔شور اٹھا کہ اپنوں کو بچانے کے لیے عجلت میں یہ قدم اٹھایا گیا تو شہزاد اکبر، وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے وضاحت کی کہ یہ ترامیم بہت دیر سے واجب تھیں لیکن گذشتہ حکومتوں نے پہلو تہی کی ، لہٰذا یہ مشکل کام کرنے کا سہرا بھی ان کی حکومت کے سر سجا ہے۔
ان ترامیم کے مطابق بیوروکریٹس کی پروسیجر سے معمولی بلا ارادہ انحراف یا فیصلہ سازی کرتے ہوئے ان کی صوابدید پر گرفت نہیں ہوگی بلکہ محکمانہ فورم پر بازپرس کی جائے گی، اگر مالی منفعت کے واضح شواہد موجود ہوئے تو پھر معاملہ دیگر است ۔ ان کی جائدادکو منجمد کرنے کے ضوابط بھی تبدیل کر دئے گئے ہیں۔ یوں بیوروکریٹس کو اب نیب کی گرفت اور پوچھ گچھ کا اس انداز میں سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ کاروباری افراد کے ٹیکس معاملات میں گڑ بڑ اب پھر سے ایف بی آر کی ذمے داری ہوں گے۔ حکومت کا خیال ہے کہ یوں بیوروکریسی اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا ، ملک میں سکھ چین کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا جسے لکھنے کے انتظار میں راوی کو بھی اونگھ آنے لگی تھی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے ان ترامیم کے ناقدین پر پھبتی کسی کہ سب سے زیادہ وہ تنقید کر رہے ہیں جنھوں نے آرڈی نینس تک نہیں پڑھا۔ پی پی پی نے اسے حکومت کا سب سے برا یو ٹرن کہا ہے تو یقیناً انھوں نے آرڈی نینس نہیں پڑھا ہو گا ۔ البتہ جنھوں نے وطنِ عزیز میں احتساب کی تاریخ پڑھی ہے ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کرپشن کے کیسز کے لیے مختلف چینلز بنانے سے بلا امتیاز احتساب کا کرو فر تو جاتا رہا۔ اب گلشن میں پرانی روش لوٹ آنے کا اندیشہ ہے۔اور ہاں ، اب بات بے بات چھوڑوں گا نہیں والے تذکرے شاید سیاستدانوں کے لیے مخصوص رہیں گے۔