رئیس غلام محمد بھرگڑی کی یاد میں
بھرگڑی صاحب نہ صرف ایک دلیر سیاستدان تھے بلکہ ایک ذہین زمیندار بھی تھے۔
رئیس غلام محمد بھرگڑی کی شخصیت نے پاکستان بنانے کی جدوجہد میں بڑا اہم رول رہا ہے جس نے صاف ستھری سیاست کرکے سندھ کے اہم سیاستدانوں کی فہرست میں شامل رہے جس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ بھرگڑی ایک بااعتماد، سچا ساتھی ہے اگر وہ زندہ ہوتے تو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم وہی ہوتے۔
وہ پہلے کانگریس پارٹی میں پورے ہندوستان کے جنرل سیکریٹری تھے جس کے خیالات ترقی پسند تھے اور وہ اپنی ذمے داری بھی اسی سوچ کے تحت چلاتے تھے جس نے ہمیشہ غریبوں اور ہاریوں کے حقوق کی بات بھی کی اور انھیں تحفظ دینے کے لیے کام بھی کرتے رہے۔
انھوں نے کانگریس پارٹی 1913 میں شامل ہوئے اور وہ سیاست کے ساتھ ساتھ ایگری کلچر اور تعلیم کی ترقی کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے سندھ کو بمبئی ریزیڈنسی سے سندھ کو الگ کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ 1920 فروری میں جب بمبئی میں خلاف کانفرنس منعقد ہوئی جس کے لیے انھیں کانفرنس کے صدر منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ نومبر 1923میں جب سینٹرل لیجسلیٹیو اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو وہ اس کے ممبر منتخب ہوگئے۔ جب 1923 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنو میں ہوا تو اس کی صدارت انھوں نے کی تھی اور وہاں پر اس کی صدارتی تقریر نے اجلاس میں شرکا کو بڑا متاثر کیا۔
بھرگڑی صاحب نہ صرف ایک دلیر سیاستدان تھے بلکہ ایک ذہین زمیندار بھی تھے جس کے زراعت کو شعبہ میں نئے اصلاحات لا کر اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1921 میں جب لاڑکانہ میں ایک بہت بڑی زمینداروں کی کانفرنس اپریل کے مہینے میں منعقد ہوئی جہاں پر سندھ زمیندار ایسوسی ایشن قائم کی گئی جس کا انھیں پہلا صدر بنایا گیا۔ اس نے اپنے پیریڈ میں زرعی ترقی کے لیے ماڈرن طریقے ایجاد کروائے اور نئی زرعی مشینوں کو سندھ میں متعارف کروایا جس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ کپاس کی فصل سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے جننگ فیکٹریاں قائم کروائیں۔
سیکنڈری تعلیم سے اوپر کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اس نے انگریز سرکار سے گورنر بمبئی سے کہہ کر نیشنل کالج کام کروانے کے لیے اجازت مانگی تاکہ غریب افراد کے بچے بھی کالج کی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس سلسلے میں وہ غریب شاگردوں کو وظیفہ دیا کرتے تھے اور غریب لوگ اسے اپنا دوست اور ہمدرد سمجھتے تھے کیونکہ وہ، وہ زمیندار تھا جس کا جینا غریبوں کے لیے ہوتا تھا جو بہ وقت ضرورت اس کے پاس آتے تھے۔
ایک مرتبہ ان کا تھرپارکر کے ایک چھوٹے شہر شادی پلی جانا ہوا جہاں پر وہ ایک ڈاک بنگلے میں ٹھہرے اور جب رات ہوئی تو وہاں کے ملازم نے اسے آکر کہا کہ وہ ڈاک بنگلہ خالی کردیں کیونکہ وہاں برٹش حکومت کے افسر آئے ہیں وہ وہاں پر ٹھہریں گے لیکن بھرگڑی نے بنگلہ خالی کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے اس کے خلاف سی آر پی سی 110 قلم کے تحت کیس داخل کیا گیا اور یہ کیس اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر نے داخل کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ وہ انگریزوں سے قانونی جنگ لڑنے کے لیے قانون کی ڈگری حاصل کریں گے جس کے لیے وہ انگلینڈ چلے گئے۔جہاں سے اس نے تین سال کے عرصے میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے 1908 میں سندھ واپس آئے اور یہ پہلا شخص تھا جس نے زمیندار خاندان میں بیرسٹری کی ڈگری حاصل کی تھی۔
ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے حیدرآباد شہر میں قانون کی پریکٹس شروع کردی اور یہ زمانہ وہ تھا جب سندھ کے اندر سیاسی ہلچل اور awareness بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی اور نئی سیاسی جماعتیں قائم ہو رہی تھیں اور سب کا کام تھا کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کی جائے جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں اور خاص طور پر سندھ میں آزادی کی تحریک بڑے زور پر تھی۔ جب آل انڈیا نیشنل کانگریس کی طرف سے سندھ سے چار رکنی ڈیلیگیشن کو بمبئی لیجسلیٹیو کونسل میں نمایندگی کے لیے بھیجا گیا تو ان میں یہ شامل تھے۔
ان دنوں میں ان کا ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ سندھ کی حالت کو مالی، تعلیمی، معاشرتی اور معاشی طور پر زیادہ مستحکم کرنے کے لیے بہت محنت اور کوشش کرتے رہے جس کے لیے سندھ کی آواز کو سندھ میں پہنچانے اور شعور پیدا کرنے کے لیے بھرگڑی نے 1917 میں الامین اخبار کا اجرا کیا جو حیدرآباد سے نکلتا تھا۔ اب بھرگڑی پاکستان مسلم لیگ کی طرف آگئے اور 1918 میں انھوں نے اپنے دوستوں کی مدد سے سندھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برانچ قائم کی۔ وہ مسلمانوں کی حالت کے بارے میں انگریز حکومت کی ہائی کمان کو بتانے کے لیے انگلینڈ گئے جس میں خاص طور پر سندھ کے مسلمانوں کے لیے بتایا تاکہ سندھ اور ہندوستان میں رہنے والوں کی بہتری اور خوشحالی آجائے جس کے لیے حکومت برطانیہ کی سپورٹ چاہیے۔ جب وہ انگلینڈ سے 1920 میں واپس سندھ آئے تو اس وقت خلافت تحریک چل رہی تھی جس میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس سلسلے میں اپنے اخبار کو بھی متحرک رکھا۔
بیرسٹر رئیس غلام محمد بھرگڑی 23 جولائی 1878 میں سندھ کے شہر جیمس آباد کے گاؤں دینگان میں اپنے والد ولی محمد خان کے گھر میں پیدا ہوئے۔ اس نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے ایک مدرسہ اسکول سے حاصل کی اور اس کے بعد چرچ مشن ہائی اسکول اور نیول رائے ہیرا نند اکیڈمی حیدرآباد سے اور پھر سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی سے حاصل کی جب کہ میٹرک کا امتحان علی گڑھ کالج سے پاس کیا۔ وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ آکر اپنی ذمے داری کو سنبھالنے لگے۔
اپنی زندگی کی جدوجہد کرتے کرتے 9 مارچ 1924 کو حیدرآباد میں اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کی وفات کی خبر سن کر دور دراز سے لوگ ان کے گاؤں پہنچے جس میں ہندو اور مسلم کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ جنازہ نماز ادا کرنے کے بعد ان کے خاکی جسم کو آخری آرام گاہ میں رکھا گیا۔ کئی عرصے تک ان کی قبر پر لوگ آتے رہے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے نام سے ایک میموریل سوسائٹی قائم کی گئی۔