کیا 2019 واقعی یادگار رہا
کارکردگی پر سوال اٹھانے والے چند ہاتھ ہی نہیں دکھائی دیتے باقی لوگوں کو بھی مجبوراً ایسا کرنا پڑتا۔
KARACHI:
میں تھوڑا کنفیوز ہوں، کیا آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں، میں سمجھ رہا تھا کہ 2019پاکستان کرکٹ کیلیے بدترین سال ثابت ہوا، ٹی20میں ہماری ٹیم10میں سے صرف ایک میچ جیت سکی،6 ٹیسٹ میں واحد فتح حالیہ کراچی ٹیسٹ میں نصیب ہوئی،25 ون ڈے انٹرنیشنل میں سے صرف9 جیتے، گوروں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ڈومیسٹک کرکٹ کا تیاپانچہ کر دیاگیا، سیکٹروں کرکٹرز بے روزگار ہو گئے.
سپورٹنگ اسٹاف اور کیوریٹرز کی بھی ملازمتیں ختم ہوئیں، بعض زندگی کی بازی بھی ہار گئے، لاکھوں کمانے والے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو 50 ہزار روپے ماہانہ تک محدود کر دیا گیا، اہل خانہ کیلیے میڈیکل کی سہولت ختم ہو گئی، ڈومیسٹک کرکٹ کو نئے پیکٹ میں رکھ کر پیش کرنے سے کچھ خاص فرق سامنے نہیں آیا،من پسند افراد کی بھاری بھرکم معاوضوں پر تقرریاں کی گئیں، چہرے ذہن میں رکھ کر اشتہار بنایا گیا۔
50، 60 فرسٹ کلاس کرکٹرز کو ماہانہ جتنی تنخواہ ملتی ہے برطانیہ سے آنے والے سی ای او وسیم خان ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر یا زیادہ تر وقت دیار غیر میں رہ کر ہر مہینے اتنی رقم وصول کر لیتے ہیں،مصباح الحق کو 32 لاکھ روپے ماہانہ دے کر پاکستانی ٹیم کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں، اس کے باوجود کیا سوچ کر بورڈ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ2019 اچھا سال رہا۔
دراصل میڈیا ڈپارٹمنٹ کی اب کوشش ہے کہ ناکامی کو بھی کامیابی بنا کر پیش کیا جائے، اس کام میں انھیں بعض لوگوں کا بھرپور ساتھ بھی حاصل ہے، بنی بنائی خبریں اور انٹرویوز وصول کر کے صحافی بھی خوش ہو جاتے ہیں، کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ بھائی کون سے عینک لگا کر دیکھیں جس سے ناقص پرفارمنس اچھی نظر آئے، عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے ہمیں لگتا تھا کہ کھیلوں خصوصاً کرکٹ میں بہت بہتری آئے گی مگر افسوس تاحال ایسا نہیں ہو سکا،میں اس کا قصوروار انھیں بھی قرار نہیں دیتا۔
بدقسمتی سے ملک کو کئی مسائل کا سامنا اور ظاہر ہے وزیر اعظم پہلے انھیں حل کریں گے، کرکٹ ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہے، البتہ انھیں دیکھنا چاہیے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا، اگر ایسا ہی رہا تو قومی کرکٹ مزید زوال کا شکار ہو جائے گی، احسان مانی نے چیئرمین بننے پر بورڈ کے اخراجات کم کرنے اور تمام تفصیلات ویب سائٹ پر دینے کا اعلان کیا تھا مگر حقیقت میں اس وقت سوا کروڑ سے زیادہ رقم تو پانچ بڑے آفیشلزہی ہر ماہ اپنے گھر لے جاتے ہیں، دیگر مراعات الگ ہیں۔
مانی کے اخراجات تو پتا چل جاتے ہیں مگر سی ای او وسیم خان پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے، بورڈ کے بیشتر اعلیٰ آفیشلز کا رویہ متکبرانہ ہے، اپنے ملک میں بھی یہ انداز چل جاتا ہے مگر باہر والے کوئی لفٹ نہیں کراتے، بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے جس کے ساتھ آپ ای میل ای میل کھیلتے رہے اور معاملہ اس سطح پر پہنچ گیا کہ اب سیریز ہی خطرے میں ہے، کسی بورڈ آفیشل نے ڈھاکا جا کر بی سی بی کو سیکیورٹی پر قائل کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اس سے گردن نیچی ہو جاتی۔
سری لنکا سے سیریز میں ہی بنگلہ دیشی حکام کو بلا کر دوبارہ سیکیورٹی انتظامات دکھا دیتے مگر ایسا کچھ نہیں کیا، اب بجائے معاملہ افہام و تفہیم کے حل کرنے کے انھیں قانونی ایکشن کی دھمکی دی جا رہی ہے،کیا آپ کسی کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں اور وہ آنے سے ڈرے تو اسے پیار سے سمجھائیں گے یا عدالت لے جانے کا کہیں گے، اگر یہ سیریز نہ ہوئی تو اس کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا یہ پی سی بی والے سوچ ہی نہیں رہے، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سفرکامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے مگر ایک دم سے ہم پیچھے آ جائیں گے، دیگر ٹیموں اور کھلاڑیوں کو بھی خدشات ہوسکتے ہیں کہ بنگلہ دیشی ٹیم کیوں نہیں گئی؟
بورڈ حکام کی ''خارجہ پالیسی'' کا یہ حال ہے کہ چیئرمین قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور سی ای او اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں منانے برطانیہ میں مقیم ہیں، پی ایس ایل کو بھی بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے، اب اسلام آباد یونائٹیڈ کے شعیب نوید آئے ہیں دیکھتے ہیں معاملات میں کتنی بہتری آتی ہے،یہاں بھی مفادات کے ٹکراؤ والا معاملہ نظرانداز کیا گیا، یہ ٹھیک ہے شعیب نے فرنچائز چھوڑ دی مگر وہ اونر سے رشتہ داری تو ترک نہیں کر سکتے ناں، ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید بھی اسلام آباد یونائٹیڈ سے وابستہ رہ چکے۔
سب سے غلط بات تو ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو فرنچائز کیلیے کام کرنے کی اجازت دینا ہے،خیر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں یہاں سب جانتے ہیں کہ جب تک حکومت ہے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اسی لیے من مانیاں کرتے ہیں، گذشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی اچھی بات تھی،اب ایک اورخوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار پوری پی ایس ایل پاکستان میں ہی ہوگی، اس کا کریڈٹ سیکیورٹی ایجنسیز اور وزیر اعظم کو جاتا ہے، 34میچز کی میزبانی چیلنجنگ تو ہے البتہ اس سے شائقین اسٹار کرکٹرز کو ملک میں ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔
کراچی اور لاہور کے بعد راولپنڈی میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ ہو چکی، اب ملتان کا امتحان ہوگا، جس طرح سیکیورٹی ایجنسیز نے ماضی میں عمدگی سے فرائض نبھائے یقیناً اس بار بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، پی سی بی کو اپنے معاملات میں بہتری لانی چاہیے، وہ تو دعائیں دیں عابد علی و دیگر کرکٹرز کو جنھوں نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ٹیم کو کراچی ٹیسٹ میں کامیابی دلا دی۔
لوگ آخری میچ ہی یاد رکھتے ہیں، اس لیے ٹیم آفیشلز اور بورڈ کی بچت ہو گئی، ورنہ کارکردگی پر سوال اٹھانے والے چند ہاتھ ہی نہیں دکھائی دیتے باقی لوگوں کو بھی مجبوراً ایسا کرنا پڑتا، اب نیا سال آ گیا اس میں بہتری کیلیے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ ٹیم کی کارکردگی کو اچھا ثابت کرنے کیلیے فرضی پریس ریلیز کا سہارا نہ لینا پڑے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
میں تھوڑا کنفیوز ہوں، کیا آپ کچھ مدد کر سکتے ہیں، میں سمجھ رہا تھا کہ 2019پاکستان کرکٹ کیلیے بدترین سال ثابت ہوا، ٹی20میں ہماری ٹیم10میں سے صرف ایک میچ جیت سکی،6 ٹیسٹ میں واحد فتح حالیہ کراچی ٹیسٹ میں نصیب ہوئی،25 ون ڈے انٹرنیشنل میں سے صرف9 جیتے، گوروں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ڈومیسٹک کرکٹ کا تیاپانچہ کر دیاگیا، سیکٹروں کرکٹرز بے روزگار ہو گئے.
سپورٹنگ اسٹاف اور کیوریٹرز کی بھی ملازمتیں ختم ہوئیں، بعض زندگی کی بازی بھی ہار گئے، لاکھوں کمانے والے ڈومیسٹک کھلاڑیوں کو 50 ہزار روپے ماہانہ تک محدود کر دیا گیا، اہل خانہ کیلیے میڈیکل کی سہولت ختم ہو گئی، ڈومیسٹک کرکٹ کو نئے پیکٹ میں رکھ کر پیش کرنے سے کچھ خاص فرق سامنے نہیں آیا،من پسند افراد کی بھاری بھرکم معاوضوں پر تقرریاں کی گئیں، چہرے ذہن میں رکھ کر اشتہار بنایا گیا۔
50، 60 فرسٹ کلاس کرکٹرز کو ماہانہ جتنی تنخواہ ملتی ہے برطانیہ سے آنے والے سی ای او وسیم خان ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر یا زیادہ تر وقت دیار غیر میں رہ کر ہر مہینے اتنی رقم وصول کر لیتے ہیں،مصباح الحق کو 32 لاکھ روپے ماہانہ دے کر پاکستانی ٹیم کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں، اس کے باوجود کیا سوچ کر بورڈ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ2019 اچھا سال رہا۔
دراصل میڈیا ڈپارٹمنٹ کی اب کوشش ہے کہ ناکامی کو بھی کامیابی بنا کر پیش کیا جائے، اس کام میں انھیں بعض لوگوں کا بھرپور ساتھ بھی حاصل ہے، بنی بنائی خبریں اور انٹرویوز وصول کر کے صحافی بھی خوش ہو جاتے ہیں، کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ بھائی کون سے عینک لگا کر دیکھیں جس سے ناقص پرفارمنس اچھی نظر آئے، عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے ہمیں لگتا تھا کہ کھیلوں خصوصاً کرکٹ میں بہت بہتری آئے گی مگر افسوس تاحال ایسا نہیں ہو سکا،میں اس کا قصوروار انھیں بھی قرار نہیں دیتا۔
بدقسمتی سے ملک کو کئی مسائل کا سامنا اور ظاہر ہے وزیر اعظم پہلے انھیں حل کریں گے، کرکٹ ترجیحی فہرست میں شامل نہیں ہے، البتہ انھیں دیکھنا چاہیے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا، اگر ایسا ہی رہا تو قومی کرکٹ مزید زوال کا شکار ہو جائے گی، احسان مانی نے چیئرمین بننے پر بورڈ کے اخراجات کم کرنے اور تمام تفصیلات ویب سائٹ پر دینے کا اعلان کیا تھا مگر حقیقت میں اس وقت سوا کروڑ سے زیادہ رقم تو پانچ بڑے آفیشلزہی ہر ماہ اپنے گھر لے جاتے ہیں، دیگر مراعات الگ ہیں۔
مانی کے اخراجات تو پتا چل جاتے ہیں مگر سی ای او وسیم خان پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے اس کا کوئی حساب ہی نہیں ہے، بورڈ کے بیشتر اعلیٰ آفیشلز کا رویہ متکبرانہ ہے، اپنے ملک میں بھی یہ انداز چل جاتا ہے مگر باہر والے کوئی لفٹ نہیں کراتے، بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے جس کے ساتھ آپ ای میل ای میل کھیلتے رہے اور معاملہ اس سطح پر پہنچ گیا کہ اب سیریز ہی خطرے میں ہے، کسی بورڈ آفیشل نے ڈھاکا جا کر بی سی بی کو سیکیورٹی پر قائل کرنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اس سے گردن نیچی ہو جاتی۔
سری لنکا سے سیریز میں ہی بنگلہ دیشی حکام کو بلا کر دوبارہ سیکیورٹی انتظامات دکھا دیتے مگر ایسا کچھ نہیں کیا، اب بجائے معاملہ افہام و تفہیم کے حل کرنے کے انھیں قانونی ایکشن کی دھمکی دی جا رہی ہے،کیا آپ کسی کو اپنے گھر دعوت پر بلائیں اور وہ آنے سے ڈرے تو اسے پیار سے سمجھائیں گے یا عدالت لے جانے کا کہیں گے، اگر یہ سیریز نہ ہوئی تو اس کا پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا یہ پی سی بی والے سوچ ہی نہیں رہے، ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سفرکامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے مگر ایک دم سے ہم پیچھے آ جائیں گے، دیگر ٹیموں اور کھلاڑیوں کو بھی خدشات ہوسکتے ہیں کہ بنگلہ دیشی ٹیم کیوں نہیں گئی؟
بورڈ حکام کی ''خارجہ پالیسی'' کا یہ حال ہے کہ چیئرمین قانونی چارہ جوئی کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور سی ای او اہل خانہ کے ساتھ چھٹیاں منانے برطانیہ میں مقیم ہیں، پی ایس ایل کو بھی بے یارومددگار چھوڑا ہوا ہے، اب اسلام آباد یونائٹیڈ کے شعیب نوید آئے ہیں دیکھتے ہیں معاملات میں کتنی بہتری آتی ہے،یہاں بھی مفادات کے ٹکراؤ والا معاملہ نظرانداز کیا گیا، یہ ٹھیک ہے شعیب نے فرنچائز چھوڑ دی مگر وہ اونر سے رشتہ داری تو ترک نہیں کر سکتے ناں، ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید بھی اسلام آباد یونائٹیڈ سے وابستہ رہ چکے۔
سب سے غلط بات تو ہیڈکوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو فرنچائز کیلیے کام کرنے کی اجازت دینا ہے،خیر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں یہاں سب جانتے ہیں کہ جب تک حکومت ہے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اسی لیے من مانیاں کرتے ہیں، گذشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی اچھی بات تھی،اب ایک اورخوش آئند بات یہ ہے کہ اس بار پوری پی ایس ایل پاکستان میں ہی ہوگی، اس کا کریڈٹ سیکیورٹی ایجنسیز اور وزیر اعظم کو جاتا ہے، 34میچز کی میزبانی چیلنجنگ تو ہے البتہ اس سے شائقین اسٹار کرکٹرز کو ملک میں ایکشن میں دیکھ سکیں گے۔
کراچی اور لاہور کے بعد راولپنڈی میں بھی انٹرنیشنل کرکٹ ہو چکی، اب ملتان کا امتحان ہوگا، جس طرح سیکیورٹی ایجنسیز نے ماضی میں عمدگی سے فرائض نبھائے یقیناً اس بار بھی کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، پی سی بی کو اپنے معاملات میں بہتری لانی چاہیے، وہ تو دعائیں دیں عابد علی و دیگر کرکٹرز کو جنھوں نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے ٹیم کو کراچی ٹیسٹ میں کامیابی دلا دی۔
لوگ آخری میچ ہی یاد رکھتے ہیں، اس لیے ٹیم آفیشلز اور بورڈ کی بچت ہو گئی، ورنہ کارکردگی پر سوال اٹھانے والے چند ہاتھ ہی نہیں دکھائی دیتے باقی لوگوں کو بھی مجبوراً ایسا کرنا پڑتا، اب نیا سال آ گیا اس میں بہتری کیلیے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ ٹیم کی کارکردگی کو اچھا ثابت کرنے کیلیے فرضی پریس ریلیز کا سہارا نہ لینا پڑے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)