حکومت نے جو کام کرنے ہیں وہ تو کرے

پیر کی شام جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وہاں سب سے پہلے خود کھڑے ہو گئے۔


Nusrat Javeed November 07, 2013
[email protected]

اس بحث میں اُلجھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے دوسرے دن چوہدری نثار علی خان نے جو پریس کانفرنس فرمائی، اس کے دوران میں پاکستان کے وزیر داخلہ کے الفاظ، لہجہ اور رویہ مناسب تھے یا نہیں۔ سہاگن تو وہی کہلاتی ہے جسے پیا چاہے اور میرے پاس ایک سے زیادہ بااعتماد ذرایع سے بات یہ پہنچی ہے کہ لندن سے اپنی واپسی کے فوراََ بعد نواز شریف نے اپنے وزیر داخلہ کے انداز بیان کو پوری طرح سراہا ہے۔ راز ہائے درونِ خانہ کی خبر رکھنے کے دعوے دار اس ضمن میں جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے، مجھے تو اقتدار کے کسی بھی ایوان میں زیر بحث سنائی نہ دیے۔ وزیر اعظم کے اطمینان کا اصل سبب مختلف انٹیلی جنس اداروں کی وہ رپورٹیں تھیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے فوراََ بعد پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پھیلے ہوئے ہمہ وقت خودکش حملوں کو تیار افراد بار بار اپنے ''استادوں'' سے رابطہ کر کے یہ دریافت کر رہے تھے کہ ''امیر'' کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کب اور کہاں حملہ کیا جائے۔ زیادہ پریشانی اس بات پر بھی تھی اب کی بار احکامات کے سب سے زیادہ منتظر پنجاب کے چند بڑے شہروں میں موجود Sleepers پائے گئے۔

چوہدری نثار علی خان کے چاہنے والے بڑے خلوص سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے دوسرے روز اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے ہمارے وزیر داخلہ نے ملک کو دہشت گردی کے ہولناک واقعات سے بچا لیا۔

چوہدری صاحب صرف ایک پریس کانفرنس کے بعد خاموش نہیں ہوئے۔ پیر کی شام جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وہاں سب سے پہلے خود کھڑے ہو گئے۔ سوالات کا وقفہ نہ ہونے دیا اور نہ ہی کسی تحریک استحقاق یا التواء کا انتظار کیا۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد کھڑے ہو کر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بارے میں حکومتِ پاکستان کا موقف بیان کرنا شروع کر دیا۔ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے امریکا کے خلاف وہ جارحانہ رویہ برقرار رکھا جو انھوں نے اپنی پریس کانفرنس میں اختیار کیا تھا۔ شاید ان کے اسی جارحانہ رویے کی بدولت عمران خان نے بھی تھوڑا نرم رویہ اختیار کیا۔ وہ محسود کی ہلاکت کے بعد پاکستانی راستوں سے افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کی رسد کو فوراََ روکنا چاہتے تھے۔ چوہدری نثار علی خان کی تقریر کی وجہ سے انھوں نے 20 نومبر تک انتظار کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس دوران وہ حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک مربوط پالیسی اپنانے پر آمادہ بھی کریں گے جس کے ذریعے واشنگٹن تک یہ پیغام پہنچے کہ پاکستان میں اب اس کے ''غلاموں کی حکومت'' نہیں رہی۔ ہمارا آزاد اور خود مختار ملک اب ایک جاندار معاشرہ بن گیا ہے جہاں تمام فیصلے صرف اور صرف عوام کے منتخب نمایندے کیا کرتے ہیں۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ جب امریکا کا کوئی نائب وزیر صرف ایک فون کے ذریعے پاکستان کے فوجی آمر سے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی توقع سے کہیں زیادہ تعاون کی یقین دہانیاں حاصل کر لیتا تھا۔ پیر کو سے قومی اسمبلی کا اجلاس مسلسل جاری ہے۔ وہاں کوئی اور کام نہیں ہو رہا۔ صرف حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر تقریر ہو رہی ہے۔ بڑی جان دار اور لہو گرما دینے والی تقاریر۔

امریکا مگر ہمارے ملک سے بہت دور ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہونے والی تقاریر کسی چینل پر Live نہیں دکھائی جاتیں۔ امریکا میں کوئی چینل ایسا کر بھی دے تو زبان کی وجہ سے امریکی عوام اور حکمرانوں تک ہمارے جذبات نہیں پہنچیں گے۔ امریکا تک ہمارا غصہ پہنچانے کے لیے کوئی اور ذرایع اختیار کرنا پڑیں گے اور اپنے غصے کے اظہار کے لیے کسی بھی ملک کو سب سے پہلے اس حوالے سے ایک ٹھوس پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی میں کی جانے والی تقاریر ایسی پالیسی نہیں بناتیں۔ یہ کام چند مخصوص حکومتی اداروں کو کرنا ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں سنا ہے اس ملک میں ایک وزارتِ خارجہ ہوا کرتی ہے۔ دوسرے ملکوں تک اپنا غصہ، غم یا خوشی کیسے پہنچانا ہے یہ وزارت طے کر دیا کرتی تھی۔ مگر پھر افغانستان میں ''جہاد'' شروع ہو گیا۔ پاکستان میں ان دنوں فیصلہ سازی کی اصل قوت جنرل ضیاء الحق کے پاس تھی۔ انھیں انگریزی بولنے والے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے سوٹ بوٹ پہنے بابو ویسے ہی ناپسند تھے۔ انھوں نے جنرل اختر عبدالرحمن اور ان کے ادارے سے رجوع کر لیا۔ پھر سوویت افواج افغانستان سے رسوا ہو کر چلی گئیں مگر ضیاء الحق نہ رہے اور جنرل اختر عبدالرحمن بھی۔ ان کا ''ادارہ'' مگر اپنی جگہ قائم رہا اور قومی مفاد میں دوسرے ممالک سے معاملات طے کرنے میں یکتا و تنہا۔

نواز شریف صاحب مگر جمہوریت کے دلدادہ ہیں۔ ان کی بڑی خواہش ہے کہ اب فیصلہ سازی کا اختیار منتخب حکومتوں کے پاس ہو۔ خواہش بڑی سچی اور مناسب مگر بگلے کے سر پر موم کیسے رکھی جائے۔ طویل اجلاس ہوئے۔ بہت سوچ بچار ہوئی۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ ایک ''قومی سلامتی کمیٹی ہو۔ وزیر اعظم اس کمیٹی کے سربراہ ہوں۔ اس کا ایک اپنا الگ سیکریٹریٹ ہو۔ اس سیکریٹریٹ میں وزارتِ خارجہ اور قومی سلامتی کے تمام اداروں کی معلومات اور تجزیے اکٹھے کیے جائیں۔ ان پر سوچ بچار ہو اور پھر ایک پالیسی وضع کی جائے جو وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے سامنے رکھ کر منظور کرائی جائے۔ بالآخر جو بھی طے شدہ پالیسی ہو پاکستان کے تمام سیاسی و عسکری ادارے اس میں وضع شدہ ہدایات کی روشنی میں اپنا اپنا کام کریں۔

جو فیصلے میں نے آپ کو بتائے ہیں وہ آج سے کئی ہفتے پہلے ہمارے تمام اخبارات میں بڑی تفصیل کے ساتھ چھپ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی جناب سرتاج عزیز بدستور اپنی تجویز کردہ کمیٹی کے کسی دفتر میں نہیں ہماری وزارتِ خارجہ کے ہیڈ کوارٹر میں تیسرے فلور پر موجود ایک کمرے میں بیٹھتے ہیں۔ افغانستان میں ان دنوں پاکستان کے سفیر محمد صادق کو اس کمیٹی کا مستقل سیکریٹری بننا تھا۔ وہ پتہ نہیں پاکستان واپس تشریف لے آئے ہیں یا نہیں اور اگر آئے ہیں تو ان کا دفتر کہاں ہے۔

اس ساری کہانی کا مقصد صرف یہ التجا کرنا ہے کہ امریکا تک حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی وجہ سے پاکستان کی مشکلات اور غصے کو ٹھوس ذرایع سے پہنچانا ہے تو قومی اسمبلی میں گرجدار تقاریر کروانے کے بجائے فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیجیے۔ وہاں عسکری قیادت بھی بیٹھی ہو گی اور قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والے دوسرے اداروں کے سربراہان بھی۔ ان سب کی سنئے اور پھر وزیر اعظم چند ٹھوس اقدامات کا اعلان کر دیں۔ قوم کو اس بحث میں کیوں دیا گیا ہے کہ حکیم اللہ محسود ''شہید'' ہوا یا نہیں۔ حکومت نے جو کام کرنا ہوتے ہیں وہ تو کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں