جھوٹے وعدے گلے پڑ گئے

اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ حکومت نے بھی گیس، بجلی کی قلت کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

ہر جمہوری ملک میں انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتیں عوام سے ان کے مسائل حل کرنے کے ایسے دعوے کرتی ہیں جن کے بارے میں ان وعدہ کرنے والوں کو علم ہوتا ہے کہ اگر وہ برسر اقتدار آئیں تو ان وعدوں کو پورا کرنا ہرگز ممکن نہیں۔ لیکن انتخابی مہم چونکہ عوام کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے چلائی جاتی ہے، سیاسی جماعتوں میں وعدوں کا یا جھوٹ کا مقابلہ ہوتا ہے لہٰذا ہر جماعت کے رہنما کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ بڑے وعدے کرے یا دوسروں سے زیادہ بڑے جھوٹ بولے۔ حالیہ انتخابات میں عوام کے بڑے مسائل یعنی مہنگائی، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دہشتگردی جلد سے جلد حل کرنے کا مقابلہ ہو رہا تھا، لہٰذا مسلم لیگ (ن) نے ان مسائل کو نہ صرف چٹکی بجا کر حل کرنے کے وعدے کیے بلکہ ان مسائل کی ذمے داری سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو ان جرائم سے پاک رکھنے کی کوشش بھی کی۔ اس انتخابی مہم میں میاں برادران نے جن دو مسائل پر خاص طور پر پیپلز پارٹی کو ذمے دار ٹھہرایا ان میں ایک آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول، دوسرے کرپشن ہے، چھوٹے میاں صاحب تو پیپلز پارٹی کو علی بابا چالیس چور کہتے رہے، بڑے میاں صاحب یہ الزام لگاتے رہے کہ وہ کشکول لے کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کی بھینک مانگتی رہی ہے اور اگر مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی تو کشکول توڑ دے گی اور اپنے وسائل کے استعمال سے عوامی مسائل حل کرے گی۔

بوجوہ جن میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلیوں کے الزامات بھی شامل ہیں، مسلم لیگ ن نے اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ نے برسر اقتدار آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ آئی ایم ایف سے بدترین عوام دشمن شرائط کے ساتھ قرض حاصل کرنے کی کوشش شروع کی اور ایسی سخت شرائط کے ساتھ قسط وار لگ بھگ 5 ارب ڈالر کے قرض کے حصول کا معاہدہ کر لیا جن کو پورا کرنے کے لیے غریب عوام کو مہنگائی اور ٹیکسوں کے سمندر میں ڈبونا ضروری تھا، چنانچہ بلاتاخیر جی ایس ٹی سمیت مختلف ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ تواتر کے ساتھ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کیا جانے لگا جس کی مثال ماضی کی کسی حکومت کے دور میں نہیں ملتی۔ گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ تو انتخابی وعدوں کے مطابق فوری ختم کیا جانا تھا، لیکن کیا یہ گیا کہ ان کے دورانیے میں اور اضافہ کیا گیا اور اس کا جواز سابقہ حکومت کی نا اہلی کو بنایا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے دور میں اس مسئلے کو حل کرنے کی ایماندارانہ کوشش کرتی تو عوام کو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سابقہ حکومت نے بھی گیس، بجلی کی قلت کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی لیکن ان کوششوں کا تعلق صرف سابقہ پی پی پی حکومت سے ہی نہیں تھا بلکہ ان کوششوں کی ضرورت کئی عشروں پہلے سے تھی اور مسلم لیگ (ن) کے دو ادوار حکومت کے دوران بھی گیس، بجلی کی قلت دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جس کی ذمے داری مسلم لیگ (ن) پر بھی اتنی ہی عائد ہوتی ہے جتنی پی پی پی پر۔ لیکن اس کی شرائط اتنی سخت نہیں تھیں جتنی سخت مسلم لیگ (ن) کے قرض کے ساتھ وابستہ کی گئی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مہنگائی اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، ٹیکسوں کی بھرمار نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور بار بار گیس، بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بلا جواز اضافے سے تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے کہ غریب عوام کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس بھی چیخ اٹھی ہے۔ ان جرائم سے جان یہ کہہ کر چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ سارے مسائل انھیں ورثے میں ملے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہمارے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے نہ جادو کی چھڑی کہ جس کی مدد سے ہم پلک جھپکتے میں یہ مسائل حل کریں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کی حکومت کو یہ علم نہیں تھا کہ اسے بھی آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانا پڑے گا۔ کیا مسلم لیگ (ن) کو یہ علم نہیں تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے عوام کا گلا کاٹنا پڑے گا اور مہنگائی آسمان تک چلی جائے گی؟ کیا مسلم لیگ کے رہنمائوں کو یہ علم نہیں تھا کہ گیس، بجلی کی کمی یا لوڈ شیڈنگ کو فوری کم کرنا ممکن نہیں۔ اگر (ن) کے رہنمائوں کو یہ علم تھا تو پھر ان مسائل کو اقتدار میں آتے ہی حل کرنے کے اس نے جھوٹے وعدے عوام سے کیوں کیے۔ اور آج عوام سے یہ بات کیوں کر رہی ہے کہ اس کے پاس نہ الہ دین کا چراغ ہے نہ جادو کی چھڑی کہ وہ گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو فوری ختم کرے۔ مسلم لیگ کے رہنمائوں نے پیپلز پارٹی پر کشکول لے کر قرض کے لیے در در پھرنے کا الزام لگایا اور آج وہ خود پی پی پی سے بڑا کشکول اٹھائے آئی ایم ایف اور امریکا کے دروازے پر کیوں کھڑے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ سیاست دان ہر قیمت پر جن میں جھوٹے وعدے سرفہرست ہیں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، انھیں اچھی طرح یہ علم ہوتا ہے کہ ان وعدوں کو پورا کرنا ممکن ہی نہیں لیکن دھڑلے سے وہ جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ عوام انتخابات میں اپنا ووٹ کسی سیاسی جماعت کو کیوں دیتے ہیں؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عوام مسائل کے عذابوں میں مبتلا ہیں، ان سے نجات چاہتے ہیں اور اسی کے لیے زیادہ جھوٹ بولنے والے رہنمائوں کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے سیاسی رہنما عوام کے ملازم ہوتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران یہ رہنما کہتے بھی ہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں لیکن جیسے ہی انھیں عوام کے ووٹوں کے طفیل اقتدار مل جاتا ہے وہ خادم سے آقا بن جاتے ہیں اور عوام سے ان کا رابطہ اور تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ یہ رائج الوقت جمہوریت کا وہ مکروہ چہرہ ہے جسے معصوم بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ سول آمریت اور خاندانی سیاست اور خاندانی حکمرانی کے مسترد کردہ نظام کو ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام سے عوام میں روشناس کرایا جا رہا ہے اور اسے عوام کی ناگزیر ضرورت قرار دے کر عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کا مجموعی دورانیہ 36 سال کے لگ بھگ رہا ہے، اس دوران بھٹو تقریباً 6 سال برسر اقتدار رہے، بے نظیر نے دو باریاں لیں۔ نواز شریف اٹھارویں ترمیم کروا کر تیسری بار وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہیں۔ اس 36 سالہ جمہوریت میں سوائے لوٹ مار، اقربا پروری اور عوام کو تقسیم کرنے اور لڑانے کے عوامی مسائل حل کرنے کی کسی نے ایماندارانہ اور سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ کیونکہ یہ کام ان نام نہاد جمہوری رہنمائوں کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں، یہ کام یعنی عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کا مقدس کام انتخابی مہم کے دوران ہی کیا جاتا ہے۔ اس جمہوریت کو بلکہ عوامی جمہوریت کو محفوظ بنانے کے لیے ولی عہدی کے نظام کو مستحکم کیا جا رہا ہے۔ ہر سیاسی رہنما اپنے بیٹوں، بیٹیوں، دامادوں، بھانجے، بھتیجوں کو عوام کے سروں پر مسلط کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ عوام کی محنت کی کمائی کے اربوں روپوں کے ترقیاتی پروجیکٹس کا افتتاح شہزادوں، شہزادیوں کے ہاتھوں کروا کر انھیں عوام میں مقبول بنانے کی شاطرانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ان جمہوری خدمات سے گھبرائے ہوئے عوام آج اگر فوجی آمروں کے دور کو یاد کر کے روتے ہیں تو ان کا یہ رونا فوجی آمریت کی حمایت نہیں بلکہ جمہوریت کے سوگ میں رونا ہے۔ عوام فوجی حکومتوں کو اس لیے یاد کرتے ہیں کہ ان کے دور میں آٹا 15 روپے، چینی 22 روپے، تیل گھی 50،60 روپے، دالیں 40،45 روپے کلو ملتی تھیں، رشوت بے ایمانی جرائم بھتہ خوری اغوا برائے تاوان دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے عوام محفوظ تھے۔ اگر جمہوری حکمران فوجی حکمرانوں جیسی سہولتیں اور پر امن زندگی گزارنے کے مواقع عوام کو فراہم کرتے اور عوام کے حقیقی نمایندوں کو قانون ساز اداروں میں رسائی کو ممکن بناتے تو بلاشبہ عوام فوجی حکمرانوں کا نام نہ لیتے جمہوری حکمرانوں اور جمہوریت کی پوجا کرتے۔ کاش جمہوری مجاہدین عوام کی آرزوئوں کو سمجھتے اور جھوٹ بولنا جھوٹے وعدے کرنا چھوڑ دیتے تو اس ملک میں یقیناً جمہوریت مستحکم ہوتی، عوام جمہوری حکمرانوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے، انھیں آئی ایم ایف اور امریکا سے بھیک مانگنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
Load Next Story