نظر ثانی نئی کہانی
نواز شریف کو اوباما نے کوئی بھی یقین دہانی نہیں کرائی تھی اس کے باوجود طالبان سے گفتگو ’’شروع‘‘ کی گئی
LONDON:
گزشتہ کالم جس کا عنوان تھا ''استدلال پر ملال'' اس میں امریکی دورے کی جو تصویرکشی کی گئی تھی اور بغیر دلائل کے مفروضوں پرجو قلعے تعمیر کیے گئے تھے ان کا یہی حشر ہونا تھا جو کچھ ہوا۔ امریکا نے کسی بھی معاملے پر کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی۔صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے بیان بازیاں ہیں۔ جب حقیقت نے نقاب کشائی کی تو سیاست دان انگشت بدنداں رہ گئے اور اب پہلے سے زیادہ خطرناک باتیں ٹی وی اسکرین پر رہنما کررہے ہیں، سب کی پارٹیاں جدا جدا ہیں مگر سب کے سانچے ایک جیسے ہی قریب قریب ہیں۔ اول مقصد سیاست دانوں کا عوامی مشکلات سے بچ کر نکلنا ہے، غربت، افلاس، بدنظمی، ہر روز کی بڑھتی ہوئی مہنگائی، بازار میں ٹماٹر 160 روپے کلو اس ہفتے چلا اور اس ملک میں جہاں کی معیشت کو زرعی معیشت قرار دیا گیا ہے۔ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ آخر اس دکھ اور درد کی دوا کیا ہے۔ تو اس کا یہ حکمراں یہی جواب دیںگے، بقول غالب: موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
نواز شریف کو اوباما نے کوئی بھی یقین دہانی نہیں کرائی تھی اس کے باوجود طالبان سے گفتگو ''شروع'' کی گئی اور جب حکیم اﷲ محسود کو یہ یقین ہوگیا کہ اب غالباً امریکا گفتگو کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتا ہے، اس لیے وہ ڈرون حملہ نہیں کرے گا، امریکا نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ ادھر پاکستان نے بھی حکیم اﷲ محسود کے سر کی قیمت واپس نہیں لی تھی۔ اس لیے منطقی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اور امریکا کا موقف یکساں تھا۔ اس پر یہ بیان جو چوہدری نثار کی جانب سے آیا کہ اس وقت اس کی موت امن کی موت ہے، اس قدر متضاد بیانات دنیا کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کا عملی موقف اور بیانات تضادات کا شکار ہیں، بلکہ وزارت داخلہ کی جانب سے امریکی سفیر کی طلبی اور احتجاج کیا جانا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حکومت پاکستان کا اس حملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جب کہ طالبان کے دل میں اس پورے معاملے کو شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اسی لیے انھوں نے مذاکرات کو منسوخ کردیا اور شبہات کاسمندر اور بڑا اور مزید گہرا ہوگیا۔
جمشید دستی کا یہ بیان کہ تمام ڈرون حملے پاکستان کے حکمرانوں کی ایماء پر ہوتے ہیں، ہمارے لیڈروں کے بیانات کو ظاہر ہے کہ محض ہم نہیں دوسرے بھی دیکھتے ہیں، آخر وہ ان بیانات سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہوںگے اور پاکستانی حکومت عوام کی عدالت میں کس مقام پر کھڑی ہوگی۔ ہمارے وزارت داخلہ کی جانب سے یہ بیان کہ اب پاک امریکا تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، گویا پاکستان کو امریکا سے تعلقات ختم کردینے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ پاکستان میں نوٹ چھاپے جارہے ہیں، قرضوں کی ترسیل مکمل نہیں ہوئی، کرنسی کمزور تر اور انڈسٹری کی زبوں حالی سب پر ظاہر ہے، ان بیانات کا مقصد کیا ہے؟ کیا اس پر عمل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ پاکستانی حکمران محلات بنانے میں مصروف ہیں، ان کی زندگی پرتعیش ہے۔
کیا یہ نامساعد حالات سے گزرنے کی ہمت کرسکتے ہیں، کیا یہ جو اسلامی مساوات کا نعرہ لگاتے حضرت ابو ذرغفاریؓ کا راستہ یا خلفائے راشدین کا راستہ اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ تمام نعرے عوام کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے لیے لگائے جارہے ہیں، امریکا سے تعلقات پر نظر ثانی تو دور کی بات اس سے تعلقات میں سرد مہری بھی برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ ابھی چند دنوں تک یہی شور رہے گا اور رفتہ رفتہ یہ تمام چیزیں پھر ویسی ہی ہوجائیںگی جیسے کہ کوئی ڈرائونا خواب تھا، جو حکمرانوں نے دیکھا تھا اور اب رات گئی سو بات گئی۔ عوام کو ابھارنا پھر ان کو خواب سحر دکھانا اور ان کے جذبات کا خون کرنا، عوام تو ویسے ہی فکری طور پر منقسم ہیں اور اب ایک اور نیا مباحثہ عمران خان صاحب نے شروع کردیا ہے کہ نیٹو سپلائی KPK کی گورنمنٹ بند کرنے والی ہے اور 20 نومبر سے وہ عملی مظاہرہ کرے گی۔ 20 نومبر بھی آنے کو ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ابھی بھی ووٹ بینک کے نقطہ نظر سے باتیں ہورہی ہیں، بلدیاتی انتخابات کے اعتبار سے یہ معاملات اٹھائے جارہے ہیں، صوبائی حکومتوں کے تو احوال بھی یکساں نہیں، کہیں یہ پارٹی کی بنیاد پر ہوںگے اور کہیں یہ انتخابات پارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوںگے، خصوصاً پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا یہ احوال ہے، عوام کو ورغلانا، کوئی سیاسی اور معاشی ہدف کو طے نہ کرنا عوام کو امن کے نام پر الجھاکر رکھنا۔ ابھی تو ایران اور پاکستان گیس پائپ لائن کا مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، بقول علامہ اقبال: ''ہر شخص جو اسلام کا نعرہ لگاتا ہے درحقیقت یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کے مساوی ہے''۔ ہر شخص خود کو مسلمان سمجھتا ہے، یہ آسان کام نہیں اس کے اصولوں پر عمل کرنا ثابت قدم رہنا، بس اسلام کے نام پر مال غنیمت جمع کرنا اسلام نہیں، یہ فقر ابوذر اور انسان کو انسان سمجھنے کا نام ہے، سلامتی کے دین کو نابودی کی راہ پر چلانا کب اسلام ہے؟ قیصر و کسریٰ کو ختم کرنے والے لوگوں نے شاندار محلات تعمیر کیے اور ان کی پیروی ہمارے حکمران کررہے ہیں اور ہاتھ میں کشکول پکڑ کر اپنی سیاست کو منوانا چاہتے ہیں، ایسا کب ممکن ہے۔
اس وقت ملک میں کئی مکاتب فکر ہیں کچھ مذاکرات کو راہ نجات سمجھتے ہیں مگر اس کے لیے حالات کو سازگار بنانا نہیں چاہتے، وہ بھاگ بھاگ کر ترکی جاتے ہیں، جو ملک اپنی خارجہ پالیسی کا قلم دان چار افراد کے پاس رکھے آخر وہاں مرکزیت اور رائے میں ہم آہنگی کب ہوسکتی ہے۔ بے چارے عوام کو ہر بار دہرے معیار سے کنفیوز کیا جارہا ہے، ہمارا الیکٹرانک میڈیا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہے۔ ہر ایک کا زاویہ نظر الگ ہے، پھر قوم کیونکر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوسکتی ہے۔اور قوم ہے کہاں؟ مجھے تو وہ وقت یاد آرہا ہے جب بنگلہ دیش کا آخری مرحلہ چل رہا تھا اور پولینڈ نے روس کے کہنے پر ایک قرارداد پیش کی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے وہ مسودہ پھاڑکر پھینک دیا، لوگوں نے تالیاں بجائیں زندہ باد کے نعرے لگائے گئے مگر انجام کچھ اور تھا۔ ہمارے حکمران کچھ ایسی ہی طالع آزمائی کررہے ہیں، محض اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کو تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں، نہ تدبر ہے نہ تدبیر، ہے تو محض تقریر۔ پاکستان کے پڑوسی ممالک بھارت، افغانستان، ایران یہاں تک کہ اب چین کے تیور بدلے بدلے نظر آتے ہیں، ایسی صورت میں ملک کو کس طرح چلایا جاسکتا ہے، جہاں توانائی کا بحران ، ہر شخص پریشان اور جن سے امن مذاکرات کررہے ہیں ان کو بھی ان پر اعتماد نہیں۔ہے ہے ۔کیا دل سوزی کا منظر ہے۔