سیاست میں خاندانی اقربا پروری

ارکان اسمبلی اپنے بعد انتخاب لڑانے کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرتے رہتے ہیں

KINGSTON:
پاکستان کی سیاست دنیا بھر میں نرالی اور مختلف ہے، جہاں سیاسی اصولوں کے نام پر وہ سب کچھ کرلیا جاتا ہے جو دنیا ہی میں نہیں خود اپنے ہی ملک میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وراثتی سیاست کو تو برصغیر میں برائی سمجھا ہی نہیں گیا اور بادشاہت کی طرح اقتدار ورثے میں منتقل ہوتا رہا اور یہ سب کچھ جمہوریت ہی کے نام پر شروع ہوا اور مسلسل فروغ پاتا ہے، جس کی واضح مثالیں بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں نمایاں ہیں، جسے بھارت میں نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی، پھر ان کے بیٹے راجیو اور اب راجیو کے بیٹے راہول حصول اقتدار کے لیے کوشاں ہیں۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کی صاحبزادی حسینہ واجد اور جنرل ضیاء الرحمن کی اہلیہ خالدہ ضیاء اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو پھر ان کے شوہر آصف زرداری اور اب ان کے صاحبزادے بلاول زرداری اپنی ذات ہی کی منفرد تبدیلی سے بلاول بھٹو زرداری بن کر وزیراعظم بننے کے لیے اپنی سیاست کا آغاز کرچکے ہیں۔

ہمارے یہاں مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی دو بڑے واضح نام ہیں جنھیں وراثت میں اپنے والدین کی پارٹیاں مل گئی تھیں، جب کہ وراثتی سیاست سے اقتدار میں شامل ہونے والوں کی بے شمار مثالیں ہیں جن کے بڑے اسمبلیوں میں منتخب ہوتے ہوتے فوت ہوگئے تو ان کی جگہ ان کے صاحبزادوں، بھائیوں اور بیٹیوں نے لی لی۔ وہ مختلف پارٹیوں میں آتے جاتے رہے اور انھوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ انتخابی حلقہ ان کے خاندان سے باہر نہ جائے اور اگر کبھی چلا بھی گیا تو دولت اور اثر و رسوخ سے دوبارہ مل جاتا ہے۔

ارکان اسمبلی اپنے بعد انتخاب لڑانے کے لیے اپنی اولاد کی تربیت کرتے رہتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں تو سیاست سے کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، البتہ موت، نااہلی یا بیماری کے باعث ہی انھیں سیاست چھوڑنا پڑتی ہے، جب کہ کوشش ان کی یہی ہوتی ہے کہ پیر قبر میں لٹکنے تک سیاست کرتے رہیں۔

سیاسی خاندانوں اور سیاست کرنے والوں کی سیاسی وفاداریاں تو وقت کی ضرورت کے مطابق اکثر تبدیل ہوتی رہی ہیں اور ان کے گھروں میں موجود بڑی سیاسی پارٹیوں کے پرچم ہر وقت تیار رکھے جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ سیاسی وفاداری تبدیل کرتے ہیں ان کی کوٹھیوں پر لہراتا پرچم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چار عشروں سے اب ہماری سیاست میں یہ رجحان بھی پروان چڑھا ہے کہ ایک بھائی کسی ایک پارٹی میں ہے تو دوسرا بھائی کسی اور پارٹی میں ہے۔ یہ سلسلہ بھائیوں ہی تک محدود نہیں رہا بلکہ ماں باپ، میاں بیوی اور بہنوں تک میں آگیا ہے۔ اس وقت ملک میں تین بڑی پارٹیاں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ہیں اور ملک کے اہم سیاسی گھرانے ان تینوں پارٹیوں میں تقسیم ہیں، اس تقسیم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جو پارٹی حکومت بنائے گی اقتدار گھر ہی میں رہے گا۔


ویسے بھی سیاست دانوں کے باہمی اختلافات زیادہ تر دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار میں ہوں تو اپوزیشن والوں کا مکمل خیال رکھتے ہیں تاکہ جب وہ خود اپوزیشن میں آجائیں تو اقتدار میں آنے والے ان کا بھی ایسا ہی خیال رکھیں جیسے انھوں نے اقتدار میں ہوتے ہوئے ان کا رکھا تھا۔

پاکستان کے 66 سال میں گنے چنے سیاست دان ہی ایسے ہوںگے جنھوں نے اپنی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کی اور مرتے وقت تک اپنی آبائی پارٹی سے وفاداری نبھاتے رہے اور اﷲ سے جاملے۔ ان کی اولاد نے بہت کم اپنے بڑوں کی پارٹیوں سے وفا نبھائی اور جیسے ہی اقتدار کی تبدیلی کو محسوس کیا وہ بھی فوراً تبدیل ہوگئے۔

اقتدار میں موجود تین بڑی پارٹیوں پر ہی نظر ڈالیں تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ اکثریت تحریک انصاف میں وہی ہے جو ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں شامل رہی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں میں سیاسی وفاداری کی تبدیلی کم ہی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی میں کوئی گروپ بندی نہیں ہوئی اور ان کے مقررہ اصولوں پر چلنے والے اب بھی وہیں ہیں جب کہ جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان اور اہل حدیث میں متعدد گروپ موجود ہیں، ان مسلک کے لوگوں نے اپنی پارٹیوں کے نام کو برقرار رکھا مگر مختلف گروپوں میں پارٹی اختلافات کے باعث جانا ضروری سمجھا تاکہ سیاست جاری رکھ سکے۔ ملک میں مذہبی پارٹیاں مختلف گروپوں میں تقسیم ہیں۔ علاقائی قوم پرست پارٹیاں بھی باہمی طورپر تقسیم ہے جو اپنی پارٹی سے ناراض ہوتاہے اپنا گروپ بنالیتا ہے اور لیڈر بن جاتاہے۔ خواہ اس کے ساتھ گنتی ہی کے لوگ ہوں مگر وہ اپنے آپ کو صوبائی سطح کا لیڈر سمجھنے لگتا ہے اور میڈیا میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ اقربا پروری ہر جماعت میں موجود ہے، جہاں رہنمائوں نے اپنوں کو زیادہ سے زیادہ نواز رکھا ہے اس سلسلے میں مذہبی پارٹیاں کم ہیں نہ علاقائی، سب نے بندر بانٹ کررکھی ہے۔

موجودہ سیاست میں دو حقیقی بھائی میاں نواز شریف اور شہباز شریف تو نمایاں ہیں ہی، دور ماضی میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی نمایاں تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے بھائیوں کا بڑا خیال رکھا، تو آصف علی زرداری اپنی بہنوں کو آگے بڑھانے کے بعد اب اپنے منہ بولے بھائی کو اقتدار میں لاچکے ہیں۔ میاں شہباز شریف اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کو اپنی جگہ لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اصول پرستی کے دعویدار محمود خان اچکزئی اپنے بھائی کو گورنر بنوا چکے ہیں، گزشتہ حکومت میں اسفندیار ولی نے اپنے حقیقی بھانجے کو وزیراعلیٰ اور ماموں کو سینیٹر بنایا تھا اور آج کل اسفندیار ولی کے وہی ماموں اعظم ہوتی ان پر برس رہے ہیں اور ان پر کرپشن کے ہی نہیں بلکہ پختونوں کے خون کا سودا کرنے کے بھی سنگین الزامات لگارہے ہیں۔ یہ بھی سیاست کا کمال ہے کہ سابق وزیراعلیٰ اپنے والد کے بجائے اپنے ماموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس سے قبل اسفندیار ولی کی والدہ بیگم نسیم ولی بھی اپنے بیٹے پر الزامات لگاچکی ہیں اور سیاست میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خاندانی اقربا پروری سے پروان چڑھنے والے آج ان ہی پر برس رہے ہیں جن کی وجہ سے وہ اہم عہدوں پر آئے تھے۔

خاندانی اقربا پروری دنیا میں ہوئی ضرور مگر وہ پاکستان سے کم رہی ہے۔ مگر اب مسلسل بڑھ رہی ہے اور گھر کے ایک بھیدی نے پہلی بار لنکا ڈھایا ہے، بیٹا باپ کے پول کھول رہا ہے جس کے جواب میں باپ نے اپنے سابق پارٹی سربراہ اور بھانجے اسفندیار ولی کے ذاتی معاملات سے پردہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ سیاست میں قریبی عزیز ہی ایک دوسرے کے نجی معاملات، کرپشن کی کہانیاں زیادہ جانتے ہیں۔ اس لیے اب سیاست میں ذاتیات کا عمل دخل بڑھنے لگا ہے جو ہماری بدنام سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا۔
Load Next Story