زہر سمیٹے ہوئے
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بازار میں دنیا جہاں کے کھانے پینے کی تیار چیزیں دستیاب ہیں
چند برسوں قبل ٹی وی کے لیے اشتہارات بنانے والے ایک بڑے ایڈ ڈائریکٹر کا انٹرویو کیا تھا، جنھیں بہترین ڈاکومنٹری فلم بنانے پر بیرون ملک ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ جب ان سے سوال کیا کہ کیا وہ تمام اشیا بہترین یا اچھی ہوتی ہیں جنھیں آپ اشتہارات میں ٹی وی پر چلاتے ہیں اور کیا آپ خود بھی انھیں اپنی ذاتی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ جواباً وہ ذرا مسکرائے اور کہنے لگے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جن اشیا کے ہم کمرشلز بناتے ہیں، وہ سب بہت اچھی ہوتی ہیں۔ یقین جانیے ان میں سے تو کچھ بہت مشہور بھی ہیں لیکن اس کے استعمال سے جو انسانی صحت کو نقصان ہوتا ہے نہ پوچھیے۔ انھوں نے خاص طور پر ایک مشروب کا نام لیا جو اصل میں انتہائی فضول قسم کا مشروب ہے، اس کے زیادہ استعمال سے جسم میں نہ صرف فالتو کیلوریز پیدا ہوتی ہیں جو موٹاپے کا باعث بنتی ہیں بلکہ اس سے دانت بھی بہت جلد خراب ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو یہ ان ڈائریکٹر صاحب کی اپنی رائے تھی حقیقتاً ہماری اپنی رائے بھی کچھ ایسی ہی تھی، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس سے موٹاپا ہوتا ہے یا دانت خراب ہوجاتے ہیں بلکہ اپنے کچھ ناگوار تلخ سے ذائقے کی وجہ سے ہمیں وہ پسند ہی نہ تھا، لیکن حیرت تھی کہ لڑکے لڑکیاں بڑے مزے سے پیتے تھے، بہر حال یہ فیشن کی لت تو اب ہر میدان کا خاصا بن چکی ہے۔
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بازار میں دنیا جہاں کے کھانے پینے کی تیار چیزیں دستیاب ہیں، پہلے بات ڈبوں کے تیار مصالحہ جات سے شروع ہوئی اور اب بات پیکٹوں میں تلی ہوئی پیاز تک جا پہنچی ہے، اس جھٹ پٹ کے دور میں جب منٹوں میں بڑے بڑے کھانے ہم مختلف چینلز سے پکتا دیکھتے ہیں تو خود بخود سوچ ابھرتی ہے کہ یہ تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آج نہاری، بریانی، کھیر، پائے، کوفتے سب بازار میں دستیاب ہیں۔ تیز رفتاری کے اس دور میں سب کچھ سہل ہے سوائے انسانی صحت کے۔ جو ایک بار خراب ہوگئی تو اسے اس کی نارمل رفتار میں لانے کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اب کھانے پینے کی تمام اشیا کی دستیابی کے باعث گھروں کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ پہلے جو خواتین دالوں اور سبزیوں کو بھی اپنی غذا میں شامل رکھتی تھیں اب سبزیاں بنانے کی علت سے بچنے کے لیے چکن کا سہارا لیتی ہیں، جو ویسے ہی بچوں میں خوب مقبول ہے۔ اسی طرح ہم خود بخود گوشت خور قوم بنتے جارہے ہیں۔ جس چوزے کو اپنی بلوغت پوری کرکے کھانے کے لیے دستیاب ہونے میں ہفتے لگ جاتے تھے اب انجکشنوں کی مدد سے یہ سکڑ کر دنوں میں منتقل ہوگئے ہیں، لوہے کے پنجروں میں کچھ سست مریل، اپنے ہی وجود کے بوجھ سے نڈھال مرغیاں تو اب زیادہ شور بھی نہیں مچاتی، ذرا تصور تو کریں یہ زبردستی دوائوں کے ذریعے جوان کی ہوئی مرغیاں ہماری صحت کے لیے کتنی مفید ہیں۔
بات ہورہی تھی پکے پکائے کھانوں کی جو مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔ چکن کڑاہی، کٹاکٹ، کباب رول، پراٹھے، پوریاں، کچوریاں اور نجانے کیا کچھ، لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ان اشیا کے بنانے کے مراحل کیا ہیں، ان کی تیاری میں کس قسم کا تیل یا گھی استعمال کیاگیا ہے؟ مشہور دکانوں کے متعلق تو کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن عام ٹھیلے والے اور خوانچے والے کس معیار کے اجزائے ترکیبی استعمال کرتے ہیں، کیا وہ کھانے پکانے کی اشیا صاف پانی سے دھوتے ہیں یا ان کے استعمال کا تیل یا گھی معیاری ہوتا ہے یا قصائیوں کی دکانوں سے حاصل کردہ چربی (رواج) کو پگھلا کر کام چلایا جاتا ہے، جو دل کی شریانوں کے لیے سخت مضر ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اب تو بات مردہ جانوروں کی چربی تک پہنچ چکی ہے۔ کیا گائے بھینس اور کیا گھوڑا گدھا بلکہ فہرست تو اس سے آگے کی بھی ہے لیکن کیا کریں طبیعت اجازت نہیں دیتی۔
صوبہ پنجاب میں تیل یا گھی کا معاملہ خاصا آگے تک پہنچا ہوا ہے، اس لیے کہ اہل پنجاب اپنی خوش خوراکی اور اپنے کھانوں کے حوالے سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ رمضان میں ایک یوٹیلٹی اسٹور جانے کا اتفاق ہوا تھا، بڑی کمپنیوں کے آئل خاصے مہنگے تھے تو ذرا سستے کی جانب رخ کیا، وہاں کے منتظم نے ہمیں مسکراتے ہوئے ایک غیر معروف تیل کے پیک سے متعارف کروایا ۔ یہ لے لیجیے سستا بھی ہے اور استعمال میں بہترین ہے۔ ہم نے بغور معائنہ کیا اور ان سے پوچھا کہ اس کی مینوفیکچرنگ اور ایکسپائری تاریخ تو نظر نہیں آرہی۔ جس پر وہ ذرا گھبرائے پھر قدرے اعتماد سے بولے دیکھیے تو بالکل نیا ہے ابھی بنا ہوگا، کیسے چمک رہا ہے پنجاب میں اس کی فیکٹری ہے۔نا معلوم ایسی کتنی ''گمنام'' فیکٹریاں کراچی ، بلوچستان،خیبر پختونخوا اور سندھ میں چل رہی ہیں۔ بہرحال انھیں تو ہم نے اچھی طرح سمجھادیا لیکن انھوں نے اور کتنے لوگوں کو مطمئن کرکے ایک غیر معیاری تیل بنا حکومتی ادارے کی سیل کے بیچا ہوگا۔ لیکن ہمارے یہاں ان بڑے بڑے معاملوں کو بھی آرام سے لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ کھانے کے ڈھنگ حرام کے بلند درجوں کو چھو رہے ہیں لیکن ہمیں کیا کون کیا کررہا ہے؟ جب حکومت کے اپنے ادارے ایسا مال عوام کو فروخت کررہے ہیں تو پھر عام دکانداروں کو کون پوچھے۔
پچھلے چند برسوں میں پاکستان میں تیس سے چالیس سال کے جوانوں میں تیزی سے شوگر، کولیسٹرول اور دل کے امراض میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ معاشی مسائل کے علاوہ کھانے پینے کی عادت بھی شامل ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں دوستوں کے ساتھ مل جل کر کھانے پینے کے ساتھ ہلا گلا چلتا رہتا ہے۔ ہر گلی محلے کے آس پاس بس اسٹاپ پر چھوٹی موٹی فوڈ اسٹریٹ بن چکی ہے، لہٰذا زیادہ دور جانے کی ضرورت بھی نہیں، کھانے پینے کے ان اسٹالوں سے ایک جانب بیروزگاری کا علاج ہوا ہے، وہیں انسانی صحت کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے اور اس کے علاج میں معیاری اشیا کا استعمال اور طریقہ جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہو۔
ڈنمارک میں 2012 میں دو سے تین فیصد جمنے والی چکنائیوں کے غذائوں میں شامل کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے اور چکنائی کا ٹیکس بھی شامل کیا گیا ہے، اس سلسلے میں میڈیکل ایسوسی ایشن کا مشورہ ہے کہ ہوٹلوں اور بیکریوں وغیرہ میں تیار کی جانے والی غذائی اشیا میں حراروں کی تعداد کم رکھی جائے اور جمنے والی چکنائیوں اور نمک بھی کم سے کم استعمال کیا جائے۔
پاکستان میں ہوٹلوں اور بیکریوں میں دستیاب اشیا میں چکنائیوں کے استعمال پر کسی بھی طرح سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے، یہاں تک کہ مہنگے کیک جو بازار میں مختلف ناموں سے فروخت کیے جاتے ہیں، کریم کے نام پر ان پر عام طور پر گھی کو پھینٹ کر میٹھا کرکے رنگ برنگ کرکے چمکیلی میٹھی گولیوں سے سجاکر راغب کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے اندر کتنا زہر سمیٹے ہوئے ہیں، خدا جانے۔یا ہمارا پیٹو... پیٹ!
بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ بازار میں دنیا جہاں کے کھانے پینے کی تیار چیزیں دستیاب ہیں، پہلے بات ڈبوں کے تیار مصالحہ جات سے شروع ہوئی اور اب بات پیکٹوں میں تلی ہوئی پیاز تک جا پہنچی ہے، اس جھٹ پٹ کے دور میں جب منٹوں میں بڑے بڑے کھانے ہم مختلف چینلز سے پکتا دیکھتے ہیں تو خود بخود سوچ ابھرتی ہے کہ یہ تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ آج نہاری، بریانی، کھیر، پائے، کوفتے سب بازار میں دستیاب ہیں۔ تیز رفتاری کے اس دور میں سب کچھ سہل ہے سوائے انسانی صحت کے۔ جو ایک بار خراب ہوگئی تو اسے اس کی نارمل رفتار میں لانے کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اب کھانے پینے کی تمام اشیا کی دستیابی کے باعث گھروں کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ پہلے جو خواتین دالوں اور سبزیوں کو بھی اپنی غذا میں شامل رکھتی تھیں اب سبزیاں بنانے کی علت سے بچنے کے لیے چکن کا سہارا لیتی ہیں، جو ویسے ہی بچوں میں خوب مقبول ہے۔ اسی طرح ہم خود بخود گوشت خور قوم بنتے جارہے ہیں۔ جس چوزے کو اپنی بلوغت پوری کرکے کھانے کے لیے دستیاب ہونے میں ہفتے لگ جاتے تھے اب انجکشنوں کی مدد سے یہ سکڑ کر دنوں میں منتقل ہوگئے ہیں، لوہے کے پنجروں میں کچھ سست مریل، اپنے ہی وجود کے بوجھ سے نڈھال مرغیاں تو اب زیادہ شور بھی نہیں مچاتی، ذرا تصور تو کریں یہ زبردستی دوائوں کے ذریعے جوان کی ہوئی مرغیاں ہماری صحت کے لیے کتنی مفید ہیں۔
بات ہورہی تھی پکے پکائے کھانوں کی جو مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔ چکن کڑاہی، کٹاکٹ، کباب رول، پراٹھے، پوریاں، کچوریاں اور نجانے کیا کچھ، لیکن کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے کہ ان اشیا کے بنانے کے مراحل کیا ہیں، ان کی تیاری میں کس قسم کا تیل یا گھی استعمال کیاگیا ہے؟ مشہور دکانوں کے متعلق تو کچھ کہا نہیں جاسکتا، لیکن عام ٹھیلے والے اور خوانچے والے کس معیار کے اجزائے ترکیبی استعمال کرتے ہیں، کیا وہ کھانے پکانے کی اشیا صاف پانی سے دھوتے ہیں یا ان کے استعمال کا تیل یا گھی معیاری ہوتا ہے یا قصائیوں کی دکانوں سے حاصل کردہ چربی (رواج) کو پگھلا کر کام چلایا جاتا ہے، جو دل کی شریانوں کے لیے سخت مضر ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اب تو بات مردہ جانوروں کی چربی تک پہنچ چکی ہے۔ کیا گائے بھینس اور کیا گھوڑا گدھا بلکہ فہرست تو اس سے آگے کی بھی ہے لیکن کیا کریں طبیعت اجازت نہیں دیتی۔
صوبہ پنجاب میں تیل یا گھی کا معاملہ خاصا آگے تک پہنچا ہوا ہے، اس لیے کہ اہل پنجاب اپنی خوش خوراکی اور اپنے کھانوں کے حوالے سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ رمضان میں ایک یوٹیلٹی اسٹور جانے کا اتفاق ہوا تھا، بڑی کمپنیوں کے آئل خاصے مہنگے تھے تو ذرا سستے کی جانب رخ کیا، وہاں کے منتظم نے ہمیں مسکراتے ہوئے ایک غیر معروف تیل کے پیک سے متعارف کروایا ۔ یہ لے لیجیے سستا بھی ہے اور استعمال میں بہترین ہے۔ ہم نے بغور معائنہ کیا اور ان سے پوچھا کہ اس کی مینوفیکچرنگ اور ایکسپائری تاریخ تو نظر نہیں آرہی۔ جس پر وہ ذرا گھبرائے پھر قدرے اعتماد سے بولے دیکھیے تو بالکل نیا ہے ابھی بنا ہوگا، کیسے چمک رہا ہے پنجاب میں اس کی فیکٹری ہے۔نا معلوم ایسی کتنی ''گمنام'' فیکٹریاں کراچی ، بلوچستان،خیبر پختونخوا اور سندھ میں چل رہی ہیں۔ بہرحال انھیں تو ہم نے اچھی طرح سمجھادیا لیکن انھوں نے اور کتنے لوگوں کو مطمئن کرکے ایک غیر معیاری تیل بنا حکومتی ادارے کی سیل کے بیچا ہوگا۔ لیکن ہمارے یہاں ان بڑے بڑے معاملوں کو بھی آرام سے لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ کھانے کے ڈھنگ حرام کے بلند درجوں کو چھو رہے ہیں لیکن ہمیں کیا کون کیا کررہا ہے؟ جب حکومت کے اپنے ادارے ایسا مال عوام کو فروخت کررہے ہیں تو پھر عام دکانداروں کو کون پوچھے۔
پچھلے چند برسوں میں پاکستان میں تیس سے چالیس سال کے جوانوں میں تیزی سے شوگر، کولیسٹرول اور دل کے امراض میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی وجہ معاشی مسائل کے علاوہ کھانے پینے کی عادت بھی شامل ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں دوستوں کے ساتھ مل جل کر کھانے پینے کے ساتھ ہلا گلا چلتا رہتا ہے۔ ہر گلی محلے کے آس پاس بس اسٹاپ پر چھوٹی موٹی فوڈ اسٹریٹ بن چکی ہے، لہٰذا زیادہ دور جانے کی ضرورت بھی نہیں، کھانے پینے کے ان اسٹالوں سے ایک جانب بیروزگاری کا علاج ہوا ہے، وہیں انسانی صحت کے دشمنوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے اور اس کے علاج میں معیاری اشیا کا استعمال اور طریقہ جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ہو۔
ڈنمارک میں 2012 میں دو سے تین فیصد جمنے والی چکنائیوں کے غذائوں میں شامل کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے اور چکنائی کا ٹیکس بھی شامل کیا گیا ہے، اس سلسلے میں میڈیکل ایسوسی ایشن کا مشورہ ہے کہ ہوٹلوں اور بیکریوں وغیرہ میں تیار کی جانے والی غذائی اشیا میں حراروں کی تعداد کم رکھی جائے اور جمنے والی چکنائیوں اور نمک بھی کم سے کم استعمال کیا جائے۔
پاکستان میں ہوٹلوں اور بیکریوں میں دستیاب اشیا میں چکنائیوں کے استعمال پر کسی بھی طرح سے کوئی روک ٹوک نہیں ہے، یہاں تک کہ مہنگے کیک جو بازار میں مختلف ناموں سے فروخت کیے جاتے ہیں، کریم کے نام پر ان پر عام طور پر گھی کو پھینٹ کر میٹھا کرکے رنگ برنگ کرکے چمکیلی میٹھی گولیوں سے سجاکر راغب کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے اندر کتنا زہر سمیٹے ہوئے ہیں، خدا جانے۔یا ہمارا پیٹو... پیٹ!