مقامی حکومتیں اور نظام ……
جمہوری معاشروں میں جمہوریت کا خاصا یہ رہا ہے کہ ان معاشروں میں لوگوں کو انفرادی آزادی حاصل ہوتی ہے
ناکام جنگ آزادی کے فوراً بعد 1858 میں حکومت نے انگلستان کے ہائوس آف کامنز میں ہندوستان کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہد ہ قائم کرنے کے لیے مسودہ قانون پیش کیا، اس کے مطابق ہر ضلع میں مجسٹریٹ کو ضلع انتظامیہ کا سربراہ بھی بنایا جاتا تھا اور مالیہ کا کلکٹر بھی۔ اس مسودہ قانون کے مطالعے کے بعد برطانوی پارلیمنٹ کے کچھ ارکان نے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے انسانیت کشی اور انتہائی ظالمانہ عمل قرار دیا، اس لیے کہ اس طرح ضلع میں عوام کی گردنوں پر ایک جابر قسم کا ڈکٹیٹر متعین کرنا تھا جو انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ اعتراضات کے جواب میں حکومتی ارکان نے جواب دیا کہ ایسے عہدے قائم کرنے کا مقصد ہی ہندوستان میں غلامی کو مزید مضبوط کرنا تھا، مقامی لوگوں کو جمہوری حقوق دینے کا مطلب تو ہندوستان کی آزادی دینے کے مترادف ہوگا۔ اس طرح یہ جابر افسر شاہی کا مسودہ قانون پاس ہوگیا۔
جمہوری معاشروں میں جمہوریت کا خاصا یہ رہا ہے کہ ان معاشروں میں لوگوں کو انفرادی آزادی حاصل ہوتی ہے، انفرادی صلاحیت اجاگر ہوتی ہیں، معاشرے کے تمام لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ہوتے ہیں، سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اور معشیت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں 1970 سے لے کر 2013 تک تقریباً دس بار الیکشن ہوئے اور اس کے نتیجے میں جمہوری حکومتوں کا قیام عمل میں آیا لیکن لوگوں کو مندرجہ بالا جمہوریت کے ثمر حاصل نہیں ہوئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ درحقیقت پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں۔ کبھی آمریت ملک پر مسلط رہی ہے، تو کبھی منتخب آمریت (Vice Ragency) کے تحت کمشنری نظام کے ہوتے ہوئے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم جمہوری معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ جب تک انگریزوں کا بنایا ہوا کمشنری نظام اور اس کے ساتھ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی گلی سڑی سوچ کی لاش پاکستان کے معاشرے سے نہیں نکالی جاتی اس وقت تک ہزار بار بھی الیکشن کروالیے جائیں نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان جیسے معاشرے کے بارے میں جس میں الیکشن بھی ہوتے ہیں اور افسر شاہی کا نظام بھی اپنی تمام طاقت کے ساتھ موجود رہتا ہے، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری بھی قائم رہتی ہے، اسی جمہوری معاشرے کے بارے میں فرانسیسی فلسفی روسونے کہا تھا، عوام چار یا پانچ سال میں صرف ایک بار آزاد ہوتے ہیں جب حق رائے دہی کا فریضہ عوام ادا کرتے ہیں، اس کے بعد پھر غلامی کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح نینی بالکھی والا جو ہندوستان کے ایک بہت بڑے وکیل تھے، کہتے ہیں، آزادی اور جمہوریت ہم معنی نہیں ہوتے، حقِ اظہار رائے دہی تو ایک ظالم کو ہٹا کر دوسرے ظالم کو اپنے اوپر مسلط کرنا ہوتا ہے۔ امریکی دانشور ہنری فرنیک گڈ نائو اپنی کتاب ''دی سول سروس آف پاکستان'' میں کہتے ہیں ''نو آبادیاتی سے آزاد ہونے والی ہر قوم اپنے آقائوں سے وہ تمام نظام ورثے میں لیتی ہے جو بطور خاص مقامی آبادی پر موثر کنٹرول اور جبر قائم کرنے کے لیے وضع کیا جاتا ہے، یہ ادارہ حکومت اور بطورخاص حکومت کی انتظامیہ ہوتی ہے، جو اس انتظامی نوکر شاہی کو مدد دیتی ہے۔''
گڈ نائو کے بقول ایک دفعہ اندھی قوت حاصل کرنے کے بعد بیوروکریسی کا خاصا ہوتا ہے کہ نہ صرف اسے محفوظ رکھے بلکہ اس میں مزید اضافہ کریں۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ آئی سی ایس اور پولیس سروس وہ مضبوط فولادی شکنجہ ہے جس کے ذریعے انگریزوں نے برصغیر کو اپنی گرفت میں رکھا تھا۔ اس امریکی دانشور کو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں ابھی تک اس فولادی یا آئینی شکنجے کو قائم رکھا گیا ہے جو کسی آزاد ملک کے شایانِ شان نہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک بشمول پارلیمانی جمہوریت میں وہاں کی سول سروس میں آئی سی ایس امپیریل سول سروسز (پاکستان کاC.S.S) کمیشن سول سروسز اور پولیس سروس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔ امریکی پروفیسر چارلس ایچ کینیڈی اپنی کتاب ''بیوروکریسی ان پاکستان'' میں اس طرح لکھتا ہے، درحقیقت پاکستان میں سرمایہ دار، جاگیردار، سیاسی اجارہ دار کیوں ملکی سطح پر عوام کے ساتھ فراڈ کرتے ہوئے ملک میں غلامی کے دور کا نو آبادیاتی نظام طاری کیے ہوئے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام وہ سیاسی نظام ہے جو اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ آمرانہ قسم کا اقتدار حاصل کرکے اپنے آپ کو اور زیادہ مراعات سے نوازتا رہے اور عوام کو غربت، جہالت اور ماحول کی گندگی میں ملوث کرکے انھیں بیوقوف بناتا رہے، اس طرح عوام کو خوشنما نعروں سے بہلاکر یہ طبقہ موجودہ Status کو قائم رکھنے پر پوری توجہ رکھتا ہے۔
مقامی حکومتیں 1973 کے آئین کی دفعہ 32 کے مطابق مملکت متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی حکومت کے اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کو مخصوص نمائندگی دی جائے گی۔ 32(i) اس شق میں کہا گیا ہے کہ ''نظم و نسق'' کی مرکزیت دور کرے گی تاکہ عوام کو سہولت بہم پہنچانے اور ان کی ضرور یات پوری کرنے کے لیے اس کے کام کے مستعد تصفیہ میں آسانی پیدا ہوسکے۔ حیرت کی بات ہے کہ 73 کے آئین کے مطابق جب بھی الیکشن ہوئے اور ان الیکشن کی بنیاد پر جو بھی جمہوری حکومت قائم ہوئی ان میں سے کسی نے بھی بلدیاتی الیکشن کرنے کی زحمت گوارہ نہین کی ناکہ مقامی حکومتوں کے اداروں کی حوصلہ افزائی تو دور کی بات ہے، اگر پاکستان میں آئین کی ان دو شقوں سمیت پورے آئین پر عمل درآمد کو یقینی بنا دیا جائے تو ملک میں دیگر جمہوری ممالک کی طرح عوامی سطح پر حقیقی جمہوریت کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ امریکا سے لے کر جاپان تک تمام جمہوری ممالک بشمول انگلستان میں منتخب مقامی حکومتوں کے بغیر جمہوریت کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ صرف اسی سطح پر عوام کو حکومت کے کارناموں میں حصہ لینے کا موقع ملتا ہے۔ یورپی دانشور انتھونی برک کہتا ہے۔ جمہوری نظام کی بہترین نشانی اس کے اداروں اور طور طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے نہ کہ ان بلند و بالا نصب العینوں کے اظہار سے جن کا مقصد جمہوریت کا فروغ ہوتا ہے۔
چنانچہ عوام کی حقیقی فلاح و بہبود اور ان کی شخصیات کی اعلیٰ پیمانے پر نشوونما کے لیے ان کا نچلی سے نچلی سطح پر شریک ہونا اشد ضروری بلکہ ناقابل گریز سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے نمائندے ملک برطانیہ میں اس کا امر کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا کہ وہاں ایک دن کے لیے بھی منتخب مقامی حکومت کا وجود نہ ہو، وہاں مقامی حکومت پر کائونٹی اوسطاً پاکستان کی ایک تحصیل کے برابر کی سطح پر قائم ہوئی ہوتی ہے جو وزیراعظم یا کسی اور کے حکم سے کبھی بھی برطرف نہیں کی جاسکتی ہے، وہاں کی لوکل گورنمنٹ کی مندرجہ ذیل ذمے داریاں اور اختیارات ہوتے ہیں، پولیس، تعلیم، ہائوسنگ، سماجی خدمات، ٹرانسپورٹ ، سڑکیں، گلیوںکی صفائی، ناپ تول کا نظام، خوراک اور صحت کے سلسلے میں معائنے، عجائب گھر، آرٹ گیلریاں، تفریحی پارک اور کھیلوں کے مراکز، مقامی پلاننگ اور ترقیاتی کام، لائبریاں، قبرستان، مارکیٹیں اور ہوائی اڈے وغیرہ، جس میں نو منتخب کونسلر ہوتے ہیں، تین مقامی مجسٹریٹ ہوتے ہیں جن کی تعیناتی کائونٹی کرتی ہے اور پانچ ممبران حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے منتخب کونسلر متعدد کمیٹیوں کی صورت میں اوپر دیے گئے اختیارات کا استعمال مقامی لوگوں کے درمیان رہ کر عوام کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان کا معاملہ ہی عجب ہے کبھی بھی جمہوری مرکزی حکومت لوکل گورنمنٹ کے انتخاب کو موقع ہی نہیں دیتی اور پہلے سے اگر کوئی لوکل گورنمنٹ کام بھی کر رہی ہو تو ایک آرڈیننس کے ذریعے اس نظام کا خاتمہ کردیا جاتا ہے۔ ہمیں اس فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اس فرسودہ نظام کی وجہ سے ملک میں حقیقی جمہوریت نہ پنپ سکی۔ حیرت انگیر طور پر پاکستان کے پاس کبھی کسی جمہوری نظام میں ایسا کوئی نچلی سطح پر مقامی حکومتوں کا نظام نہیں رہا لہٰذا تمام صوبے مقامی حکومت کا ایسا نظام واضح کریں جس کے تحت سیاسی انتظامی اور مالی ذمے دارایاں اور اختیارات صوبوں کو منتقل کیے جاسکیں۔ مقامی حکومتوں کو مکمل خود مختاری دی جائے، اختیارات، طاقت، ذمے داریوں اور وظائف کو مقامی سطح تک لایا جائے، جو ضلع سطح سے تعلقہ/ تحصیل/ ٹائون کی سطح پر اور پھر مزید یوسی اور وارڈ کی سطح تک سیاسی خودمختاری اور مقامی حکومتوں تک اختیارات کی منتقلی کا مسئلہ حل ہوسکے۔