پنجاب حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث شترمرغ فارمنگ میں 80 فیصد کمی
گزشتہ دوسال کے دوران بیرون ملک سے شترمرغ کا کوئی چوزہ درآمد نہیں کیاگیا
پنجاب حکومت کی عدم دلچسپی اور واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے صوبے میں شترمرغ کی فارمنگ کوشدیدنقصان پہنچا ہے اور پرندوں کی تعدادمیں 80 فیصدتک کمی آگئی ہے۔
پنجاب حکومت کا محکمہ لائیو اسٹاک ایک طرف تو شہریوں کو انڈوں اور گوشت کی طلب پوری کرنے اور مقامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے مرغیاں اور کٹے تقسیم کررہا ہے لیکن دوسری طرف شترمرغ کی فارمنگ کا شعبہ ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ چندبرسوں میں شترمرغ فارمنگ پر کروڑوں روپے کی سبسڈی دی تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد سے اب تک یہ شعبہ لاوارث ہے اوراس پرکوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
پاکستان میں شترمرغ فارمنگ کے بانی اورپاکستان آسٹرچ کمپنی کے سربراہ راجہ طاہرلطیف نے بتایا کہ 2017 اور 2018 میں پنجاب میں شترمرغ کی فارمنگ کے لئے 450 کے قریب فارم بنائے گئے تھے جن کی تعداد اب انتہائی کم ہوچکی ہے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد کئی ماہ تک لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کا کوئی سیکرٹری نہیں تھا اوراب بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران اس محکمے کے 5 سیکرٹری تبدیل ہوچکے ہیں۔
راجہ طاہرلطیف نے بتایا کہ جب نئی حکومت آئی اس وقت پنجاب کے فارموں میں شترمرغ گوشت کے لئے تیارہوچکے تھے لیکن فارمرزکو حکومت کی طرف سے سبسڈی نہیں دی جارہی تھی۔ فارمرز کو سبسڈی کے حصول کے لیے پرندوں کو 7 سے 8 ماہ تک رکھنا پڑا ان کی دیکھ بھال اوراضافی خوراک سے تمام بجٹ خراب ہوگیا۔ حکومت نے ان پرندوں سے انڈے لینے اورپھر مقامی سطح پر چوزے نکالنے کے حوالے سے کوئی پالیسی اورطریقہ کار وضع نہیں کیا۔
سابق سیکرٹری لائیو اسٹاک نسیم صادق نے شترمرغ فارمنگ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ان کی کوشش تھی کہ ایک سال کی عمر تک کے پرندے گوشت کے لئے استعمال کئے جائیں جبکہ دو،ڈھائی سال کے پرندے انڈے دینا شروع کردیتے ہیں۔ 2018 میں پنجاب میں شترمرغ کی کل تعدادکا تخمینہ 18 سے 20 ہزار کے قریب لگایا گیاتھا جو2019 کے آخرتک 20 فیصد تک رہ گئے ہیں کیونکہ فارمرزنے شترمرغ سلاٹرنگ کرکے اونے پونے داموں ان کا گوشت بیچ دیا۔ گزشتہ دوسال کے دوران بیرون ملک سے شترمرغ کا کوئی چوزہ درآمد نہیں کیاگیا جبکہ شترمرغ کی برامد بھی کوئی ٹھوس پالیسی اورطریقہ کارنہ ہونے کی وجہ سے متاثرہوئی ہے۔
راجہ طاہرنے بتایا کہ ازبکستان شترمرغ کا سب سے بڑا خریدار ہے لیکن ماضی میں چند فارمرز نے وہاں کی کمپنیوں سے ایڈوانس پیسے لئے اورپرندے نہیں بھیجے جس کی وجہ سے وہاں سے آرڈر کم ہوگئے ۔ گزشتہ روز لاہورسے ایک بند کنٹنیر میں کچھ بڑے پرندے طورخم کے راستے ازبکستان بھیجے گئے ہیں لیکن جس طرح ان کو بھیجا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ آدھے پرندے پاکستان کی سرحدعبور کرنے سے پہلے ہی مرجائیں گے۔
پنجاب حکومت کا محکمہ لائیو اسٹاک ایک طرف تو شہریوں کو انڈوں اور گوشت کی طلب پوری کرنے اور مقامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لئے مرغیاں اور کٹے تقسیم کررہا ہے لیکن دوسری طرف شترمرغ کی فارمنگ کا شعبہ ختم ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے گزشتہ چندبرسوں میں شترمرغ فارمنگ پر کروڑوں روپے کی سبسڈی دی تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد سے اب تک یہ شعبہ لاوارث ہے اوراس پرکوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
پاکستان میں شترمرغ فارمنگ کے بانی اورپاکستان آسٹرچ کمپنی کے سربراہ راجہ طاہرلطیف نے بتایا کہ 2017 اور 2018 میں پنجاب میں شترمرغ کی فارمنگ کے لئے 450 کے قریب فارم بنائے گئے تھے جن کی تعداد اب انتہائی کم ہوچکی ہے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد کئی ماہ تک لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ کا کوئی سیکرٹری نہیں تھا اوراب بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران اس محکمے کے 5 سیکرٹری تبدیل ہوچکے ہیں۔
راجہ طاہرلطیف نے بتایا کہ جب نئی حکومت آئی اس وقت پنجاب کے فارموں میں شترمرغ گوشت کے لئے تیارہوچکے تھے لیکن فارمرزکو حکومت کی طرف سے سبسڈی نہیں دی جارہی تھی۔ فارمرز کو سبسڈی کے حصول کے لیے پرندوں کو 7 سے 8 ماہ تک رکھنا پڑا ان کی دیکھ بھال اوراضافی خوراک سے تمام بجٹ خراب ہوگیا۔ حکومت نے ان پرندوں سے انڈے لینے اورپھر مقامی سطح پر چوزے نکالنے کے حوالے سے کوئی پالیسی اورطریقہ کار وضع نہیں کیا۔
سابق سیکرٹری لائیو اسٹاک نسیم صادق نے شترمرغ فارمنگ کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ان کی کوشش تھی کہ ایک سال کی عمر تک کے پرندے گوشت کے لئے استعمال کئے جائیں جبکہ دو،ڈھائی سال کے پرندے انڈے دینا شروع کردیتے ہیں۔ 2018 میں پنجاب میں شترمرغ کی کل تعدادکا تخمینہ 18 سے 20 ہزار کے قریب لگایا گیاتھا جو2019 کے آخرتک 20 فیصد تک رہ گئے ہیں کیونکہ فارمرزنے شترمرغ سلاٹرنگ کرکے اونے پونے داموں ان کا گوشت بیچ دیا۔ گزشتہ دوسال کے دوران بیرون ملک سے شترمرغ کا کوئی چوزہ درآمد نہیں کیاگیا جبکہ شترمرغ کی برامد بھی کوئی ٹھوس پالیسی اورطریقہ کارنہ ہونے کی وجہ سے متاثرہوئی ہے۔
راجہ طاہرنے بتایا کہ ازبکستان شترمرغ کا سب سے بڑا خریدار ہے لیکن ماضی میں چند فارمرز نے وہاں کی کمپنیوں سے ایڈوانس پیسے لئے اورپرندے نہیں بھیجے جس کی وجہ سے وہاں سے آرڈر کم ہوگئے ۔ گزشتہ روز لاہورسے ایک بند کنٹنیر میں کچھ بڑے پرندے طورخم کے راستے ازبکستان بھیجے گئے ہیں لیکن جس طرح ان کو بھیجا گیا ہے اس سے لگتا ہے کہ آدھے پرندے پاکستان کی سرحدعبور کرنے سے پہلے ہی مرجائیں گے۔