خیبرپختونخوا کابینہ میں ردوبدل کئی چہرے ناراض

خیبرپخونخوا کابینہ میں ردوبدل کے معاملے پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں

طویل انتظار کے بعد خیبرپختونخوا کابینہ میں توسیع کردی گئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

QUETTA:
طویل انتظار کے بعد خیبرپختونخوا کابینہ میں توسیع کردی گئی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد کابینہ میں آئینی ضرورت سے کم وزرا کابینہ میں لیے گئے اور فیصلہ کیا گیا کہ بعد میں کابینہ میں توسیع کی جائے گی۔ لیکن کابینہ میں توسیع کا معاملہ لٹک گیا۔ کابینہ کے پہلے مرحلے میں وزارت کے خواہشمند حکومتی ایم پی ایز جب کابینہ میں شامل نہ ہوئے تو انہوں نے پارٹی قیادت سے ناراضگی کا اظہار کیا اور وہ ارکان اسمبلی بیک بنچز پر چلے گئے۔ ڈیڑھ سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً کابینہ میں توسیع کی خبریں آتی رہیں لیکن کابینہ میں توسیع کا معاملہ طوالت اختیار کرتا رہا۔ جس کی وجہ نظرانداز ہونے کی صورت میں ایم پی ایز کی ناراضگی بتائی گئی۔

گزشتہ دنوں وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے پشاور پریس کلب کے دورے کے موقع پر یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ہفتے کابینہ میں تبدیلی نظر آئے گی۔ بالآخر خیبرپختونخوا حکومت نے طویل انتظار کے بعد صوبائی کابینہ میں توسیع اور ردوبدل کردی۔ کابینہ میں دو نئے وزرا، ایک مشیر اور 8 معاون خصوصی کو شامل کیا۔ نئے وزرا میں قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے اقبال وزیر اور بنوں سے شاہ محمد کو صوبائی کابینہ میں بطور وزرا شامل کیا گیا ہے۔ اقبال وزیر کو محکمہ ریلیف وبحالی جبکہ شاہ محمد وزیر کو دوبارہ ٹرانسپورٹ کا محکمہ دیا گیا ہے۔ نئے وزرا میں قبائلی اضلاع سے خاتون رکن کو بھی شامل کرنے کی اطلاعات تھیں، لیکن صرف قبائلی اضلاع سے صرف ایک رکن کو وزیر بنایا گیا ہے۔

کابینہ میں ردوبدل اور توسیع کے معاملے پر اختلافات آنا شروع ہوگئے ہیں۔ انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا کہ جب کابینہ میں ردوبدل کا اعلامیہ جاری ہوا تو اسے دیکھ کر کئی ناراض وزرا نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ لیکن انھیں اس فیصلے سے روکا گیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ معاملہ اتنا پیچیدہ تھا کہ وزیراعلیٰ کو اپنا موبائل بند کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی میں اٹھنے والے اس طوفان سے ہی بچنے کےلیے کابینہ میں توسیع کا معاملہ طوالت اختیار کررہا تھا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ وزرا محکموں کی تبدیلی سے بھی خوش نہیں، جبکہ خواتین ارکان میں کافی غصے کا اظہار پایا جارہا ہے اور وزیراعلیٰ کی جانب سے انھیں یقین دہائی کرائی گئی تھی کہ کابینہ میں انھیں شامل کیا جائے گا۔ لیکن کابینہ میں توسیع پر انھیں بھی نظرانداز کیا گیا ہے۔


کابینہ میں توسیع سے قبل وزرا کے محکموں میں تبدیل کرنے کی باتیں بھی گردش کررہی تھیں اور کابینہ میں توسیع کے وقت وہی ہوا جس خدشے کا اظہار کیا جارہا تھا۔ پی ٹی آئی کے گزشتہ دور حکومت میں وزیر صحت شہرام تراکئی کو ان کی خواہش کے مطابق بلدیات کی وزارت دی گئی، لیکن اب ان سے بلدیات کی وزارت لینے کے بعد واپس صحت کا محکمہ دے دیا گیا ہے۔ وزیر صحت ہشام اللہ خان کے بارے میں گزشتہ چھ سات ماہ سے یہی افواہیں گردش کررہی تھیں کہ ان سے صحت کا محکمہ واپس لے لیا جائے گا۔ جب ڈاکٹرز اور حکومت کے درمیان ایم ٹی آئی ایکٹ کے معاملے پر تنازعہ شروع ہوا اور خیبر ٹیچنگ اسپتال میں اس وقت وزیر صحت پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ایک ڈاکٹر کو تشدد کا نشانہ بنایا تو اس وقت سے وزیر صحت کی تبدیلی کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں۔ لیکن حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر صحت کی تبدیلی کی وجہ ڈاکٹرسے تنازعہ نہیں بلکہ کچھ اور معاملات ہیں جس پر وزیراعظم کی منظوری کے بعد وزیر صحت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعض ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں ہشام اللہ حکومت اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور بعض حلقے یہ بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں پولیو کے بڑھتے کیسز بھی ہشام اللہ سے صحت کی وزرات جانے کا باعث بنے۔ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے کئی بار اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ خیبرپختونخوا میں پولیو کے کیسز خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔

حیران کن طور پر تعلیم، سی اینڈ ڈبلیو، معدنیات اور آئی ٹی کے قلمدان بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔ وزیر صحت ہشام انعام اللہ کو سماجی بہبود کا محکمہ حوالے کیا گیا ہے۔ یہ محکمہ وزیراعلیٰ کے پاس تھا۔ اکبرایوب خان سے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو واپس لیتے ہوئے انھیں محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم کا قلمدان دے دیا گیا ہے۔ مشیر برائے ابتدائی وثانوی تعلیم ضیاءاللہ بنگش سے ان کا قلمدان واپس لیتے ہوئے انھیں انفارمیشن ٹیکنالوجی حوالے کیا گیا ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا قلمدان لے کر انھیں محکمہ بلدیات حوالے کردیا گیا ہے۔ وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان سے معدنیات کا محکمہ واپس لیتے ہوئے انھیں گزشتہ دورحکومت کی طرح دوبارہ ہاﺅسنگ کا محکمہ حوالے کردیا گیا ہے۔ کابینہ میں بطور مشیر شامل کیے جانے والے خلیق الرحمٰن کو اعلیٰ تعلیم کا قلمدان دیا گیا ہے، جبکہ نئے شامل کردہ معاونین خصوصی میں سے عارف احمد زئی کو معدنیات جبکہ غزن جمال کو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے دیے گئے ہیں۔ دیگر 8 معاونین خصوصی میں شفیع اللہ خان کوانٹی کرپشن، شکایات سیل وصوبائی معائنہ ٹیم، ریاض خان سواتی کو پبلک ہیلتھ اینڈ انجنیئرنگ، ظہور شاکر اوقاف ومذہبی امور، سابق وزیر احمد حسین شاہ کو بہبود آبادی، تاج محمد ترند جیل خانہ جات اور چترال سے پی ٹی آئی کے اقلیتی رکن وزیر زادہ اقلیتی امور شامل ہیں۔ صوبائی حکومتی ٹیم میں دو وزرا کی شمولیت سے 16 رکنی کابینہ مکمل ہوگئی ہے۔ خلیق الرحمٰن کی بطور مشیر شمولیت سے مشیروں کی تعداد 4 ہوگئی ہے، جن میں اجمل خان وزیر، حمایت اللہ خان، ضیا اللہ بنگش اور خلیق الرحمٰن شامل ہیں۔ جبکہ معاونین خصوصی کی تعداد بڑھ کر 10 ہوگئی ہے۔ جن میں عبدالکریم خان اور کامران بنگش کے علاوہ اب عارف احمد زئی، احمد حسین شاہ، غزل جمال، شفیع اللہ خان، ریاض خان، ظہور شاکر، احمد خان سواتی، تاج محمد ترند اور وزیر زادہ شامل ہیں۔

وزرا کو عموماً کارکردگی کی بنیاد پر تبدیل کیا جاتا ہے اور خیبرپخونخوا کابینہ میں ردوبدل کے معاملے پر کئی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ جن وزرا کے محکمے تبدیل کیے گئے ہیں وہ کن وجوہات پر تبدیل کیے گئے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ اگر کارکردگی کی بنیاد پر تبدیل کیے گئے ہیں تو کیا تبدیل کیے گئے وزرا نئے ملنے والے محکموں میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے؟ دوسری طرف کابینہ میں شامل ہونے کے خواہشمند ارکان اسمبلی کی جانب سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق ناراض اراکین نے پارٹی قیادت سے رابطے کرلیے ہیں اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ بعض ناراض ارکان نے اپنی ناراضگی کی خبر وزیراعلیٰ تک بھی پہنچادی ہے۔ حکومت کی جانب سے ناراض ارکان کو رام کرنے کےلیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ ان ارکان کو ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں خوش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کابینہ میں توسیع اور ردوبدل کے بعد اب حکومت کو ردعمل کےلیے تیار رہنا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story