فضل اللہ نے2007ء میں سوات میں متوازی حکومت قائم کی
2009 میں فوجی آپریشن کے بعدسوات چھوڑکرافغان علاقے نورستان میں ٹھکانہ بنالیا
تحریک طالبان پاکستان کے منتخب امیر مولانا فضل اللہ کا تعلق سوات کی تحصیل کبل کے گائوں امام ڈھیرئی سے ہے،جب ملاکنڈ ڈویژن میں تحریک نفاذ شریعت کے نفاذ سے شدت پسندی نے جنم لیا ۔
تو سوات کے طالبان نے ملک بھر کو ہلاکررکھ دیا اوران طالبان کے رہنما مولانا فضل اللہ تھے جنھوں نے علاقے میں شریعت کے نفاذ کا دعویٰ کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے،تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بانی مولانا صوفی محمد کے داماد نے 2007 میں لال مسجد کے واقعے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کیساتھ اتحاد کرتے ہوئے سوات میں حکومت کی رٹ کو چیلنج کردیا تھا،10ہزار سے زائد مسلح جنگجوئوں کیساتھ سوات میں انھوں نے متوازی حکومت قائم کی تھی، مولانا فضل اللہ کے بندوبستی علاقے میں حکومتی رٹ چیلنج کرنا پہلا واقع تھا، سوات میں شدت پسندی کے دوران 460سے زائد سرکاری اسکول اور دیگر سرکاری عمارات کو دھماکوں سے اڑانے سمیت علاقے کے نامی گرامی افراد کی ہلاکتوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
2009ء میں جب پاک فوج کے جوانوں نے سوات میں باقاعدہ طور پر حکومتی رٹ قائم رکھنے کیلیے فوجی آپریشن شروع کیا تو 5مئی 2009ء میں سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن سے 25لاکھ لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر تاریخی نقل مکانی کی اور اس دوران مولانا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سوات چھوڑ کر باجوڑ کے راستے افغانستان داخل ہوگیا اور پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے نورستان میں مورچہ زن ہوگئے ،2009،2010اور 2011میں مولوی فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں بھی کئی دفعہ سامنے آئی تھیں،2011ء میں مولانا فضل اللہ پہلی دفعہ ایک وڈیو میں سامنے آئے جب وہ نورستان کے پہاڑوں میں اپنے جنگجوئوں کیساتھ پیش قدمی کررہے تھے ۔ بعد میں انھوں نے 2012ء میں طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمے داری قبول کی اورمیجرجنرل آپریشن ثناء اللہ نیازی کوضلع دیرکے مقام پرنشانہ بنانے اور وڈیو میں جشن مناتے ہوئے دیکھا گیا۔ادھر مولانا فضل اللہ کو امیرپاکستان مقررہونے پرسوات کے سنجیدہ حلقوں نے اسے علاقے کیلیے خطرہ قراردیا ہے۔
تو سوات کے طالبان نے ملک بھر کو ہلاکررکھ دیا اوران طالبان کے رہنما مولانا فضل اللہ تھے جنھوں نے علاقے میں شریعت کے نفاذ کا دعویٰ کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے،تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بانی مولانا صوفی محمد کے داماد نے 2007 میں لال مسجد کے واقعے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کیساتھ اتحاد کرتے ہوئے سوات میں حکومت کی رٹ کو چیلنج کردیا تھا،10ہزار سے زائد مسلح جنگجوئوں کیساتھ سوات میں انھوں نے متوازی حکومت قائم کی تھی، مولانا فضل اللہ کے بندوبستی علاقے میں حکومتی رٹ چیلنج کرنا پہلا واقع تھا، سوات میں شدت پسندی کے دوران 460سے زائد سرکاری اسکول اور دیگر سرکاری عمارات کو دھماکوں سے اڑانے سمیت علاقے کے نامی گرامی افراد کی ہلاکتوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔
2009ء میں جب پاک فوج کے جوانوں نے سوات میں باقاعدہ طور پر حکومتی رٹ قائم رکھنے کیلیے فوجی آپریشن شروع کیا تو 5مئی 2009ء میں سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن سے 25لاکھ لوگوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر تاریخی نقل مکانی کی اور اس دوران مولانا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سوات چھوڑ کر باجوڑ کے راستے افغانستان داخل ہوگیا اور پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے نورستان میں مورچہ زن ہوگئے ،2009،2010اور 2011میں مولوی فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں بھی کئی دفعہ سامنے آئی تھیں،2011ء میں مولانا فضل اللہ پہلی دفعہ ایک وڈیو میں سامنے آئے جب وہ نورستان کے پہاڑوں میں اپنے جنگجوئوں کیساتھ پیش قدمی کررہے تھے ۔ بعد میں انھوں نے 2012ء میں طالبہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمے داری قبول کی اورمیجرجنرل آپریشن ثناء اللہ نیازی کوضلع دیرکے مقام پرنشانہ بنانے اور وڈیو میں جشن مناتے ہوئے دیکھا گیا۔ادھر مولانا فضل اللہ کو امیرپاکستان مقررہونے پرسوات کے سنجیدہ حلقوں نے اسے علاقے کیلیے خطرہ قراردیا ہے۔