شیرشاہ سوری کے پانچ سال آخری حصہ
شیرشاہ سوری اختیارات تفویض کرنے کے خلاف تھا، بنگال کی بغاوت کے بعد اس کا یہ خیال اور زیادہ پختہ ہوگیا۔
DUSHANBE, TAJIKISTAN:
شیرشاہ سوری کی فتوحات 1۔ مالوہ ۔2۔ رائے سین 1543۔ میں شیر شاہ سوری نے رائے سین فتح کرنے کے بعد 3۔ملتان و سندھ 1543 میں شیر شاہ سوری کے سپہ سالار ہیبت خان نیازی نے ملتان اور سندھ کو فتح کرلیا۔ بلوچ رہزنوں کوکچل دیا۔
شیر شاہ سوری نے سکھر اور بھکر کے قلعوں کو مضبوط کیا۔ 4۔ راجپوتانہ فتح کیا۔ 1543 میں موسم برسات کے خاتمے پر شیر شاہ آگرہ سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی فوج لے کر نکلا اور ہر منزل پر احتیاطاً مورچہ بندی کرتا رہا اور آگے بڑھتا گیا مارواڑ کا رخ کیا چتوڑ کا قلعہ اس کی آخری فتح تھی۔
شیرشاہ سوری اختیارات تفویض کرنے کے خلاف تھا، بنگال کی بغاوت کے بعد اس کا یہ خیال اور زیادہ پختہ ہوگیا اور اس نے صوبائی نظام کار کا سارا ڈھانچہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ قدیم صوبہ ختم کرکے ساری سلطنت 47سرکاری اضلاع میں تقسیم کردی گئی۔ ہر سرکار متعدد پرگنوں (تحصیلوں) میں تقسیم تھی اور ہر پرگنہ (تحصیل) متعدد دیہات پر مشتمل تھا۔
برصغیر کے قدیم دستور کا احترام کرتے ہوئے دیہات کی مقامی آزادی کو برقرار رکھا گیا۔ ہر گاؤں میں پٹواری اور مقدم ہوتا تھا، ان کی وساطت سے حکومت اور رعایا کے درمیان رابطہ رکھا جاتا تھا۔
شیرشاہ سوری نے سلطنت کی زمین کی پیمائش گز سکندری کو معیاری پیمانہ قرار دیتے ہوئے رسی کی جریبوں کے ذریعے ساری زمین کو بیگھوں میں منقسم کیا گیا۔ تمام مالکان اراضی کی زمین الگ الگ پیمائش کی گئی۔ درمیانہ اور معمولی فصلوں کے اعداد جمع کرکے فی بیگھہ اوسط پیداوار کا تعین کیا گیا۔ شرح لگان اوسط پیداوار کا ڈھائی فیصد مقرر کی گئی۔ سلطنت کے بعض حصوں مثلاً ملتان میں شرح لگان اوسط پیداوار کا 1/4 فیصد حصہ تھی۔
کاشتکار اپنی مرضی کے مطابق مالیہ جنس یا نقدی کی صورت میں ادا کرتے تھے تاہم نقدی کو ترجیح دی جاتی تھی۔ مقدم مالیہ کی وصولی کرتے تھے اس لیے انھیں اس سے حصہ ملتا تھا۔ کاشتکاروں کو مالیہ براہ راست حکومت کے خزانے میں داخل کرانے کی بھی اجازت تھی۔
امین ہر کاشت کار سے اک دستخط شدہ قبولیات حاصل کرتا تھا جس پر اس کی مملوکہ زمین اور مالیہ کا اندراج ہوتا تھا۔ اس کے عوض کاشتکار کو اپنے دستخطوں کا ایک بٹہ دیتا تھا جس پر واجب الادا مالیہ کا اندراج ہوتا تھا۔ شیرشاہ سوری کو ہمیشہ رعایا کا خیال رہتا تھا اس کو رعیت کے مفادات عزیز رہتے۔ وہ اکثر کہتا ''اگر رعیت کو معمولی رعایت بھی دی جائے تو حکمران کو اس سے بڑا فائدہ پہنچتا ہے۔'' قحط سالی یا فصلوں کی تباہی کی صورت میں نہ صرف مالیہ معاف کیا جاتا تھا بلکہ کاشت کاروں کو تقاوی قرضے بھی دیے جاتے تھے۔
فوج کی ازسر نو تنظیم کرتے وقت شیر شاہ سوری نے اپنے عظیم پیش رو علاؤ الدین خلجی کی اصلاحات کو پیش نظر رکھا۔ اس سے پہلے حکومت کی قوت کا انحصار جاگیرداری فوج پر تھا یعنی ضرورت پڑنے پر مختلف جاگیردار اور قبائل سردار مقررہ تعداد میں فوج مہیا کرتے تھے۔ جس کی کفالت کے ذمے دار وہ خود ہوتے تھے لیکن شیر شاہ سوری نے یہ طریقہ ختم کرکے مستقل شاہی فوج کو منظم کیا جسے مرکزی حکومت کی طرف سے بھرتی کیا جاتا اور نقدی تنخواہ دی جاتی۔ اس عہد میں فوج کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک لاکھ پچاس ہزار سوار اور پچیس ہزار پیادہ ہمیشہ بادشاہ کے پاس رہتے تھے۔
شاہی فیل (ہاتھی) خانہ میں پچاس ہزار ہاتھی تھے۔ سلطنت کے مختلف حصوں میں فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں ان میں دہلی، رہتاس، گوالیار، بیانہ، رنتھمبور، چتوڑ، مانڈو، رائے سین، چنار، ناگور، جودھ پور، اجمیر ،کاپی، لکھنو، کانپور وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان چھاؤنیوں میں فوجی دستے ہر وقت موجود رہتے تھے ایک چھاؤنی میں متعین دستہ کو فوج کہا جاتا تھا۔ اس کا کماندار ''فوجدار'' کہلاتا تھا عام حالات میں فوج نظم و نسق میں کوئی مداخلت نہیں کرتی تھی۔ البتہ نقص امن کی صورت میں فوج سول حکام سے تعاون کرتی تھی۔
پولیس کا نظام بڑا موثر تھا، انسداد جرائم کے سلسلے میں ہمیشہ مقامی ذمے داری کا اصول مدنظر رکھا جاتا ۔ شیر شاہ سوری کی رائے تھی کہ جرائم مقامی مقدم یا بڑے زمیندار کراتے ہیں یا کم ازکم انھیں مجرمان کا علم ہوتا ہے اس لیے چوری یا ڈاکہ کی صورت میں اگر مجرموں کا پتا نہ چل سکتا تو مقدم گرفتار کرلیا جاتا۔
شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سی سڑکیں بنوائیں، یہ سڑکیں فوجی نقطہ نگاہ سے بھی بڑی اہم تھیں۔ سب سے بڑی سڑک رہتاس (جہلم) سے شروع ہوکر سنارگاؤں (بنگال) تک چلی گئی اس کی لمبائی 1500 کوس تھی آج کل اسے جرنیلی سڑک کہا جاتا ہے ۔ برٹش راج میں اس کا نام گرانٹ روڈ رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بڑی سڑکوں میں آگرہ سے برہان پور، آگرہ سے جودھ پور وچتوڑ اور لاہور سے ملتان تک سڑکیں قابل ذکر ہیں۔
ان کے دو رویہ سایہ دار درخت لگوائے گئے تھے۔ ہر دو کوس کی مسافت پر ایک سرائے تعمیر کی گئی، سلطنت کی مختلف سڑکوں پر کل 1700 سرائیں تھیں ان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے الگ الگ قیام و طعام کا بندوبست تھا۔ ہر سرائے کے بڑے دروازے پر لب سڑک ٹھنڈے پانی کے مٹکے بھرے رہتے تھے تاکہ مسافر پیاس بجھا سکیں۔ ہر مسافر کو کھانا، چارپائی اور اس کے مویشیوں کو چارہ مفت دیا جاتا، ہر سرائے میں ایک کنواں اور ایک مسجد کی تعمیر ہوئی۔ مسجد کے لیے امام اور موذن علاوہ ازیں مسافروں کے سامان کی حفاظت کے لیے کئی چوکیدار مقرر تھے۔ سرائے کے ناظم اعلیٰ کو ''شور'' کہا جاتا تھا۔ ان سرائے کے اخراجات کی کفالت کے لیے ملحقہ میر کی آمدنی الگ کردی جاتی تھی۔
ان سراؤں سے ڈاک چوکیوں کا کام بھی لیا جاتا تھا، ہر سرائے میں ڈاک کے دو گھوڑے موجود رہتے اور اس طرح بادشاہ سلطنت کے حالات سے باخبر رہتا تھا۔ سرکاری حکام یہاں آکر ٹھہرتے رفتہ رفتہ بعض سرائیں پررونق تجارتی مراکز بن گئیں۔ یہ سرائیں گویا سلطنت کی رگیں تھیں جنھوں نے ان اعضا میں نئی جان ڈال دی جوکہ اب تک مفلوج پڑے تھے۔
بے شمار چھوٹی عمارتوں کے علاوہ بعض عظیم عمارتیں اس عہد کی یادگار ہیں، ان میں سے سہسرام میں واقعہ شیرشاہ کا مقبرہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ مقبرہ بادشاہ نے اپنی زندگی میں تعمیر کرایا تھا، ایک مصنوعی جھیل کے درمیان بلند کرسی پر اس کی عمارت شیرشاہ سوری کی اپنی شخصیت کی آئینہ دار معلوم ہوتی ہے۔ اس میں ہیبت ، شوکت اور دل کشی کا حسین امتزاج ہے، برصغیر کی بہت کم عمارتیں نقشے اور موزونیت کے اعتبار سے اس کی ہم پلہ ہیں۔ شیر شاہ ہر سرکار میں ایک قلعہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ نئے قلعوں میں رہتاس (جہلم) زیادہ اہم ہے، جس کی دس گز آثار کی فصیل پندرہ سو گز بلند تھی۔
اس کا دور اڑھائی (ڈھائی) میل تھا جس میں 68 برج تھے۔ راجہ ٹوڈرمل کی نگرانی میں آٹھ کروڑ پانچ لاکھ درہم کے صرفہ سے تکمیل کو پہنچا۔ جمنا کے کنارے دہلی کا نیا شہر تعمیر کیا، دہلی میں دو قلعے اور ایک مسجد بنوائی۔ قنوج کا قدیم شہر گرا کر اسے ازسر نو خوبصورت طریقے پر بنوایا اور وہاں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا۔
شیرشاہ نے ملکی سکہ کی تنظیم نو کی، سکوں کے معیاری اوزان مقرر کیے اور ان کی ساخت میں نفاست پیدا کی۔ اس کے سکے شکل میں گول تھے، تانبے کے نئے سکے جاری کیے گئے جن کو دام کہا جاتا تھا۔ سونے اور چاندی کے سکے الگ تھے جن کو 1/2، 1/4، 1/8، 1/16 کے حساب سے چھوٹے سکوں میں منقسم کیا گیا تھا۔
ان پر بادشاہ کا نام فارسی اور ناگری رسم الخط میں لکھا جاتا تھا، اس کے علاوہ خلفائے راشدین کے نام بھی کندہ تھے، شیر شاہ سوری کی ان اصلاحات کو مغلوں اور برطانیہ نے برقرار رکھا اور عشاری سکہ رائج ہونے تک شیرشاہ سوری کا نظام ہی ہمارے سکہ کی بنیاد تھا۔ معیاری سکے اور قیام امن سے تجارت کے فروغ میں بڑی مدد ملی۔
شیرشاہ سوری کی آخری مہم کالنجر کی فتح تھی، کالنجر کے راجہ کیرت سنگھ نے اطاعت سے انکار کردیا تھا چنانچہ نومبر 1544 میں اس قلعہ کا محاصرہ کرلیا گیا جو کم و بیش سات ماہ جاری رہا۔ محاصرہ کے دوران ایک دن 22 مئی 1545 جب کہ شیرشاہ خود گولہ باری کی نگرانی کر رہا تھا۔ ایک گولہ فصیل سے ٹکرا کر پلٹا اور اس کے قریب آتش بازی کے ٹوکروں میں آگرا۔ ان میں اچانک آگ لگ گئی جس سے بادشاہ شیر شاہ سوری کا جسم جھلس گیا اور اسے خیمے میں اٹھا لائے۔ اسی حالت مخدوش پا کر شیر شاہ نے فوج کو عام جمع کا حکم دیا، مغرب کے قریب اسے قلعہ فتح ہونے کی خوش خبری ملی اور اس نے الحمدللہ کہتے ہوئے جان دے دی۔
پانچ برس کے قلیل عرصے میں مغلوں، راجپوتوں اور شورش زدہ عناصر کو شکست دے کر شمالی برصغیر کی سیاسی وحدت اور قیام امن کوئی معمولی کارنامہ نہیں نظام مملکت بھی اس کا عظیم کارنامہ ہے۔