قومی اسمبلی کی قرارداد عدالتی حکم غیرموثرنہیں کرسکتی ماہرین

قرارداد کی حیثیت محض ایک اخلاقی پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے، اے کے ڈوگر

قرارداد کی حیثیت محض ایک اخلاقی پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے، اے کے ڈوگر. فوٹو: فائل

قومی اسمبلی کی کوئی قرارداد سپریم کورٹ کے حکم کو غیر موثر نہیں کر سکتی، پارلیمنٹ کی قراردادکے ذریعے سپریم کورٹ کے احکام کو غیر موثر بنانے کی زد میں آنے والے تمام سیاسی عہدیدار و سرکاری ملازمین توہین عدالت کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔

سینئر وکلاء اورآئینی ماہرین نے ان خیالات کااظہار بلدیاتی انتخابات کے التواء کی قومی اسمبلی میں منظورکردہ قرارداد کے آئینی وقانونی پہلوؤں کے حوالے سے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کیا ہے۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ قرارداد کی حیثیت محض ایک اخلاقی پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے۔18 ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل140 اے کے ذریعے واضح طور پر بلدیاتی انتخابات کا تمام ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے، اب بلدیاتی انتخابات کی ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہے ،اعلیٰ عدلیہ کی آئینی ذمے داری آئین پر عملدرآمدکی ہے۔ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقادکے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکام آئین پر عملدرآمدکے ہیں۔


انھوں نے کہا جب بھی حکومتیں عدالتی احکام پر عملدرآمدکی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں تو ذمے داری چیف ایگزیکٹو پر آجاتی ہے،این آر اوکے معاملے پر سپریم کورٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کا کیس ایسی عدالتی مثال ہے، قومی اسمبلی میں قرار دادکے ذریعے حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کو معرض التوا میں ڈالنے کا جواز بنائے گی تو ذمہ داری وزیر اعظم پر عائد ہو جائے گی۔

سابق نگران وزیر قانون احمر بلال صوفی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے ساتھ قومی اسمبلی کی قراردادکی قانونی حیثیت کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ریاست کے تمام ادارے مل بیٹھ کر اس صورتحال کا مناسب حل نکالیں، اداروں کے درمیان ٹکراؤ مناسب نہیں ہوگا۔اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم اور فیصلے کے آگے پارلیمنٹ کی کوئی قرارداد رکاوٹ نہیں بن سکتی، اگرکوئی ادارہ سپریم کورٹ کے حکم کو قراردادکے ذریعے ماننے سے انکار کرے گا تو اس کا سربراہ توہین عدالت کا مرتکب ہوگااور اس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

Recommended Stories

Load Next Story