ترکی 2023 کے بعد
اتا ترک مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو نئے سرے سے منظم کیااور انقرہ کو جدید ترکی کا دارالحکومت بنایا۔
جدید ترکی کی بنیاد اس وقت اتاترک مصطفی کمال نے ڈالی جب پہلی جنگ ِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کو شکست ہوئی اور ترکی کے علاقوں کے کئی ملک بن گئے۔ یہ جنگ اٹلی، برطانیہ، فرانس اور سلطنتِ عثمانیہ کے درمیان ہوئی۔ 1923 میں سوئٹرزلینڈ میںایک کانفرنس ہوئی جس میں ایک معاہدہ ''Treaty of Lausanne''ہوا، جس پر فاتح ممالک، برطانیہ، آئرلینڈ، فرانس، روس اور اٹلی اور مغلوب ترک عصمت انونو نے دستخط کیے۔
اس معاہدے کی اہمیت اس قدر تھی کہ تمام فاتح ممالک جسے ''برطانوی اتحاد'' بھی کہا جاتا ہے کے قائدین جن میں نکولس ثانی، الیکسی بروسیلوف، جورجس کلیمنکیو، جوزف جوفری، فرڈیننڈ فوش، رابرٹ نیویل، ہربرٹ ہنری ایسکوئتھ، سر ڈوگلس ہیگ، سر جون جیلیکو، وکٹر ایمانوئیل ثالث، لوگی کاڈورنا، ارمانڈو ڈیاز، ووڈرو ولسن، جون پیرشنگ جیسے نامی گرامی جرنیل شامل تھے جب کہ دوسری طرف جرمنی و ترک عثمانی خلافت والی قیادت کے شکست خوردہ جرنیلوں میں فرانز جوزف اول، کونراڈ وون ہوزینڈورف، ولہیم ثانی، ایرچ وون فالکنہین، پال وون ہنڈنبرگ، رینہارڈ شیر،ایرچ لوڈنڈورف، محمد خامس، اسماعیل انور، مصطفی کمال اتاترک اور فرڈیننڈ اول جیسے جرنیل شامل تھے۔ اس زبردستی کے معاہدے کی شرائط کچھ اس طرح تھیں کہ ترک خلافت کو ختم کیا جائے گا۔
اس کی جگہ سیکولر ریاست قائم کی جائے گی۔ خلیفہ کو ملک بدر کیا جائے گا، اس کے سارے اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔ ترکی اپنے ملک کے حصے موصل وغیرہ میں بھی تیل کے ذخائر نہیں نکال سکے گا۔ ترکی اپنے سمندروں سے گزرنے والا بحری جہازوں سے فیس بھی وصول نہیں کرے گا۔ ان شرائط پرعمل کرتے ہوئے مصطفی کمال اتاترک نے سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی۔
اب 2023 میں یہ سوسال کا معاہدہ ختم ہو رہا ہے۔ جس کے بعد ترکی تیل نکالنے اور فروخت میں آزاد ہو گا۔ اتا ترک مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو نئے سرے سے منظم کیااور انقرہ کو جدید ترکی کا دارالحکومت بنایا۔ ترکی دنیا کی وہ واحد مسلمان قوم ہے جس پر کسی ''غیر'' نے آج تک حکمرانی نہیں کی۔ ترکوں نے سخت ترین پابندیوں کے باوجودغیر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور اپنے کم وسائل میں ترقی کا سفر جاری رکھا۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چند سالوں میں ترقی خود بول رہی ہے ، صدر اردوگان کے دورِ حکومت میں ترکی معاشی طور پر ابھرتا ہوا ملک ثابت ہو رہا ہے۔جس کی سب سے بڑی نشانی ترک صدر نے IMF کا تمام قرض ختم کرکے اسے عالمی معاشی چنگل سے نکال باہر کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ترکی اس وقت 17نمبر پر دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔اس کی 31 فیصد عوام کا انحصار زراعت پر ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے خالص ترین اشیاء تیار کی جا رہی ہیں۔ ترکی ٹرانسپورٹ، روڈ مشنری،ہوزری کا سامان، الیکٹریکل کا سامان بڑے پیمانے پر برآمد کرتا ہے۔ترکی جی 20 میں بھی شامل ہے۔
اس کی اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 95700 شیئر پر مشتمل ہے۔طیب ارودگان کے دورِ حکومت میں کنسٹرکشن کے شعبے نے بہت ترقی کی ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہر ترک کو گھر دینے کے خواب کو انھوں نے کنسٹرکشن کے شعبہ ہی سے پورا کیا ہے اور کم و بیش 30لاکھ گھر تعمیر کیے ہیں۔ترک آرمی نیٹو کی دوسری بڑی آرمی ہے۔ ترک آرمی نے جنوبی کوریا میں بھی جنگیں لڑی ہیں۔
ترکی نے نیٹو میں شمولیت کے بعد اپنی فوج میں بڑی جدت پیدا کی ہے۔وہ کسی بھی نیٹو فوج سے کم نہیں ہیں۔ ترک فوج یورپی یونین کے جنگی گروپ میں بھی شامل ہے۔ اسے 2023 کی آمد کی تیاریاں کہہ لیں یا کچھ اور مگر حقیقت یہی ہے کہ ترکی پابندیوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے 100فیصد تیار دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ اس کے حریف ممالک ترکی کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
لیکن اس دوران طیب اردوگا ن نے بھی ہمت نہیں ہا ری اور اپنی عوام کو بھی ہمت سے رہنے کی تلقین کی۔اور ''وژن 2023'' کا اعلان کر دیا۔ جس کے مطابق 2023 میں ساڑھے سات کروڑ سیاحوں کی میزبانی کاپلان ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم اردوگان کا خواب ہے کہ 2023 میں جب اعلان جمہوریہ کے 100 سال مکمل ہوں تو ترکی دنیا کی مضبوط ترین دس عالمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہو۔ یہ ہونا ناممکن نہیں کیونکہ ایک کے بعد دوسرا کامیاب ہونے والا منصوبہ اس خواب کی تعبیر پیش کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا ترکی جیسی ترقی کرنا چاہتی ہے۔
مگر نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف سوچنے سے تقدیر نہیں بدلا کرتی اس کے لیے ہمت، محنت سوچ، جذبے، جدوجہد اور حب الوطنی کا ہونا ضروری ہے۔خیر 2023 کے بعد وہ بحرِ اسود سے ڈیڈ سی کی آبی گزرگاہوں سے روس سے یورپ جانے والے اور یورپ سے روس اور اس کی ریاستوں کی طرف جانے والے جہازوں سے محصولات لینے شروع کرے گا اور سمندر سے وسیع پیمانے پر تیل نکالے گا جسے وہ اپنے استعمال کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی برآمد کر ے گا جس کی وجہ سے ترکی دنیا کا امیر ترین ملک بن جائے گا۔یہ بات امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جس کی وجہ سے وہ آئے دن ترکی کے لیے کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔
اور ہاں سب سے پہلے تو اس غلط فہمی سے نکل آئیں کہ واقعی 2023 میں ترکی کی خلافت قائم ہوجائے گی اور مسلم امہ یکجا ہوجائے گی۔ اس کے لیے میرا گزشتہ کالم ''مسلم ممالک کی سیاست'' میں ''مفادات'' کا ذکر ضرور پڑھ لیں۔ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ (خاکم بدہن) اس کھینچا تانی میں کوئی عالمی جنگ ہوجائے۔ اوراس خوش فہمی سے بھی نکل آئیں کہ پاکستان جدید دنیا کی جنگوں کا مقابلہ کر سکے گا! ہمیں بھی آنے والے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اور ہر ملک کے ساتھ ڈبل گیم کرنے کے بجائے اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ فی الوقت ملک میں جہاں کرپشن کا بازار گرم ہے وہاں سیاست دانوں کا بھی تماشا جاری ہے۔
لہٰذافی الوقت کرنے کا کام یہ ہے کہ اسلامی ممالک میڈیا وار لڑنے کی تیاری کریں۔ اس وقت سی این این، فاکس نیوز، بی بی سی، الجزیرہ چھائے ہوئے ہیں۔ ہمیںبھی ایسے طاقتور چینل پیش کرنا ہوں گے جو ان کا مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم لوگوں کا دھیان اپنی طرف کریں گے تو ہی ہم اپنے خیالات اُن کے ذہنوں میں منتقل کرسکتے ہیں۔بقول شاعر
''کاش کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات''
اس معاہدے کی اہمیت اس قدر تھی کہ تمام فاتح ممالک جسے ''برطانوی اتحاد'' بھی کہا جاتا ہے کے قائدین جن میں نکولس ثانی، الیکسی بروسیلوف، جورجس کلیمنکیو، جوزف جوفری، فرڈیننڈ فوش، رابرٹ نیویل، ہربرٹ ہنری ایسکوئتھ، سر ڈوگلس ہیگ، سر جون جیلیکو، وکٹر ایمانوئیل ثالث، لوگی کاڈورنا، ارمانڈو ڈیاز، ووڈرو ولسن، جون پیرشنگ جیسے نامی گرامی جرنیل شامل تھے جب کہ دوسری طرف جرمنی و ترک عثمانی خلافت والی قیادت کے شکست خوردہ جرنیلوں میں فرانز جوزف اول، کونراڈ وون ہوزینڈورف، ولہیم ثانی، ایرچ وون فالکنہین، پال وون ہنڈنبرگ، رینہارڈ شیر،ایرچ لوڈنڈورف، محمد خامس، اسماعیل انور، مصطفی کمال اتاترک اور فرڈیننڈ اول جیسے جرنیل شامل تھے۔ اس زبردستی کے معاہدے کی شرائط کچھ اس طرح تھیں کہ ترک خلافت کو ختم کیا جائے گا۔
اس کی جگہ سیکولر ریاست قائم کی جائے گی۔ خلیفہ کو ملک بدر کیا جائے گا، اس کے سارے اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے۔ ترکی اپنے ملک کے حصے موصل وغیرہ میں بھی تیل کے ذخائر نہیں نکال سکے گا۔ ترکی اپنے سمندروں سے گزرنے والا بحری جہازوں سے فیس بھی وصول نہیں کرے گا۔ ان شرائط پرعمل کرتے ہوئے مصطفی کمال اتاترک نے سیکولر حکومت کی بنیاد رکھی۔
اب 2023 میں یہ سوسال کا معاہدہ ختم ہو رہا ہے۔ جس کے بعد ترکی تیل نکالنے اور فروخت میں آزاد ہو گا۔ اتا ترک مصطفی کمال پاشا نے ترکی کو نئے سرے سے منظم کیااور انقرہ کو جدید ترکی کا دارالحکومت بنایا۔ ترکی دنیا کی وہ واحد مسلمان قوم ہے جس پر کسی ''غیر'' نے آج تک حکمرانی نہیں کی۔ ترکوں نے سخت ترین پابندیوں کے باوجودغیر کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور اپنے کم وسائل میں ترقی کا سفر جاری رکھا۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ چند سالوں میں ترقی خود بول رہی ہے ، صدر اردوگان کے دورِ حکومت میں ترکی معاشی طور پر ابھرتا ہوا ملک ثابت ہو رہا ہے۔جس کی سب سے بڑی نشانی ترک صدر نے IMF کا تمام قرض ختم کرکے اسے عالمی معاشی چنگل سے نکال باہر کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ترکی اس وقت 17نمبر پر دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔اس کی 31 فیصد عوام کا انحصار زراعت پر ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرکے خالص ترین اشیاء تیار کی جا رہی ہیں۔ ترکی ٹرانسپورٹ، روڈ مشنری،ہوزری کا سامان، الیکٹریکل کا سامان بڑے پیمانے پر برآمد کرتا ہے۔ترکی جی 20 میں بھی شامل ہے۔
اس کی اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس 95700 شیئر پر مشتمل ہے۔طیب ارودگان کے دورِ حکومت میں کنسٹرکشن کے شعبے نے بہت ترقی کی ہے اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہر ترک کو گھر دینے کے خواب کو انھوں نے کنسٹرکشن کے شعبہ ہی سے پورا کیا ہے اور کم و بیش 30لاکھ گھر تعمیر کیے ہیں۔ترک آرمی نیٹو کی دوسری بڑی آرمی ہے۔ ترک آرمی نے جنوبی کوریا میں بھی جنگیں لڑی ہیں۔
ترکی نے نیٹو میں شمولیت کے بعد اپنی فوج میں بڑی جدت پیدا کی ہے۔وہ کسی بھی نیٹو فوج سے کم نہیں ہیں۔ ترک فوج یورپی یونین کے جنگی گروپ میں بھی شامل ہے۔ اسے 2023 کی آمد کی تیاریاں کہہ لیں یا کچھ اور مگر حقیقت یہی ہے کہ ترکی پابندیوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے 100فیصد تیار دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ اس کے حریف ممالک ترکی کو دباؤ میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
لیکن اس دوران طیب اردوگا ن نے بھی ہمت نہیں ہا ری اور اپنی عوام کو بھی ہمت سے رہنے کی تلقین کی۔اور ''وژن 2023'' کا اعلان کر دیا۔ جس کے مطابق 2023 میں ساڑھے سات کروڑ سیاحوں کی میزبانی کاپلان ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم اردوگان کا خواب ہے کہ 2023 میں جب اعلان جمہوریہ کے 100 سال مکمل ہوں تو ترکی دنیا کی مضبوط ترین دس عالمی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہو۔ یہ ہونا ناممکن نہیں کیونکہ ایک کے بعد دوسرا کامیاب ہونے والا منصوبہ اس خواب کی تعبیر پیش کر رہا ہے۔ اسلامی دنیا ترکی جیسی ترقی کرنا چاہتی ہے۔
مگر نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف سوچنے سے تقدیر نہیں بدلا کرتی اس کے لیے ہمت، محنت سوچ، جذبے، جدوجہد اور حب الوطنی کا ہونا ضروری ہے۔خیر 2023 کے بعد وہ بحرِ اسود سے ڈیڈ سی کی آبی گزرگاہوں سے روس سے یورپ جانے والے اور یورپ سے روس اور اس کی ریاستوں کی طرف جانے والے جہازوں سے محصولات لینے شروع کرے گا اور سمندر سے وسیع پیمانے پر تیل نکالے گا جسے وہ اپنے استعمال کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی برآمد کر ے گا جس کی وجہ سے ترکی دنیا کا امیر ترین ملک بن جائے گا۔یہ بات امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جس کی وجہ سے وہ آئے دن ترکی کے لیے کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا کر رہے ہیں۔
اور ہاں سب سے پہلے تو اس غلط فہمی سے نکل آئیں کہ واقعی 2023 میں ترکی کی خلافت قائم ہوجائے گی اور مسلم امہ یکجا ہوجائے گی۔ اس کے لیے میرا گزشتہ کالم ''مسلم ممالک کی سیاست'' میں ''مفادات'' کا ذکر ضرور پڑھ لیں۔ ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ (خاکم بدہن) اس کھینچا تانی میں کوئی عالمی جنگ ہوجائے۔ اوراس خوش فہمی سے بھی نکل آئیں کہ پاکستان جدید دنیا کی جنگوں کا مقابلہ کر سکے گا! ہمیں بھی آنے والے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا اور ہر ملک کے ساتھ ڈبل گیم کرنے کے بجائے اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ فی الوقت ملک میں جہاں کرپشن کا بازار گرم ہے وہاں سیاست دانوں کا بھی تماشا جاری ہے۔
لہٰذافی الوقت کرنے کا کام یہ ہے کہ اسلامی ممالک میڈیا وار لڑنے کی تیاری کریں۔ اس وقت سی این این، فاکس نیوز، بی بی سی، الجزیرہ چھائے ہوئے ہیں۔ ہمیںبھی ایسے طاقتور چینل پیش کرنا ہوں گے جو ان کا مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم لوگوں کا دھیان اپنی طرف کریں گے تو ہی ہم اپنے خیالات اُن کے ذہنوں میں منتقل کرسکتے ہیں۔بقول شاعر
''کاش کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات''