سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کیلئے وزیر اعلیٰ نے رابطے بڑھا دیئے
وزیراعلیٰ جام کمال ، عبدالقدوس بزنجو اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو قریب لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ایک طرف ملکی سیاست استحکام کی جانب جا رہی ہے تو دوسری جانب بلوچستان کے سیاسی درجہ حرارت میں گرمی آتی جا رہی ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ صوبے کے سیاسی موسم میں منڈلاتے بادل گہرے ہونے کے ساتھ ساتھ برسنے کا بھی پیغام دے رہے ہیں حالانکہ ٹھنڈی اور تیز ہوائیں ان بادلوں کو اپنے ساتھ لے جا رہی ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد ان بادلوں کی واپسی سیاسی موسم کے خراب ہونے کا اشارہ دے رہی ہے؟۔
گذشتہ دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی اور بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند جو کہ بیرون ملک دورے پر جا رہے تھے اچانک بیرون ملک دورے کا پروگرام ملتوی کرکے کوئٹہ پہنچ گئے جہاں اُنہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے ون آن ون ملاقات کی۔
اُن کی اس ملاقات کو صوبے کے سیاسی حلقے اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ دونوں رہنماؤں میں کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی جس میں صوبے کی موجودہ صورتحال پر کھل کر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُنہیں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ملاقات میں دونوں جانب سے ورکنگ ریلیشن کو مزید مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
سیاسی حلقوں میں اس ملاقات کو صوبے کی سیاست کے موجودہ تناظر میں اس لئے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ ایک طرف وزیراعلیٰ جام کمال کو اپنی ہی جماعت کے پارلیمانی گروپ کے بعض ارکان خصوصاً اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو جو کہ آج کل قائم مقام گورنر بھی ہیں کی مسلسل تنقیدکا سامنا ہے اور بعض ارکان کچھ ناراض بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں دوسری طرف اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ جام کمال کی حمایت اُنہیں مضبوط بنانے میں مدد گار ثابت ہورہی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس تمام صورتحال میں بڑے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے ڈیڑھ سال کے دور اقتدار میں کئے گئے اقدامات کو زیر بحث لارہے ہیں حال ہی میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں منعقدہ نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کئی ریکوڈک ہیں قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہماری دس سے پندرہ ارب روپے سے زائد آمدنی نہیں جس کی وجہ سے بلوچستان پسماندہ ہے۔
2013ء سے2018ء کا عرصہ سی پیک منصوبے کی منظوری کا تھا لیکن بدقسمتی سے گذشتہ صوبائی حکومت سماجی شعبے کی ترقی کیلئے اس منصوبے سے فائدہ نہیں اُٹھا سکی۔ صوبے کو ریکوڈک پر کئے گئے جذباتی فیصلوں سے6 ارب ڈالر ہرجانے کا سامنا ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتوں کو ذاتی خواہشات اور سیاسی مقاصد کے حصول کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا بلکہ اس کیلئے پروفیشنل ازم کی ضرورت ہے ہمیں ذاتی مفادات سے باہر نکلنا ہوگا۔ سیاسی مخالفت سے نہ تو گھبرانا چاہیے اور نہ ہی دباؤ میں آنا چاہیے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھاکہ صوبے کے سات ڈویژنوں میں کوئی کمشنر سیاسی بنیادوں پر تعینات نہیں کیا گیا جبکہ مختلف محکموں کے سیکرٹری اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر تعینات کئے گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مسائل کا انبار ہے اور نظام دباؤ اور مختلف قسم کے اثرات کا شکار ہے ہم نظام اور گڈ گورننس کو بہتر بنا کر خدمت کی فراہمی کے عمل کو موثر بنا رہے ہیں، اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی ضلع ایسا نہیں جہاں ان کی حکومت بلا امتیاز اربوں روپے ترقی کیلئے خرچ نہیں کر رہی۔
سیاسی حلقوں اور مبصرین کے مطابق بلوچستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جس طرح سے اپنی ڈیڑھ سالہ حکومت کی کارکردگی اور گڈ گورننس کا پرچار کر رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو زچ کرنے اور اُن کی حکومت کی کمزوریوں اور خامیوں کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اسے زائل کرنے کیلئے میدان میں اُترے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس تمام صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی آن بورڈ لے رہے ہیں جس کیلئے اُنہوں نے اپنے رابطے بھی تیز کردیئے ہیں۔
ان کے قریبی ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ کچھ عرصے میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنی حکومت کی مضبوطی کا عملی مظاہرہ کرنے کیلئے بعض بولڈ فیصلے کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جس میں اپنی کابینہ اور وزراء کے محکموں میں ردوبدل سمیت تحریک انصاف اور بی اے پی کے ایک ایک رکن کو کابینہ میں نمائندگی دینے کے فیصلے بھی شامل ہیں۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق کابینہ سے تحریک انصاف ، بی اے پی کے ایک ایک وزراء کی برخاستگی کے بعد دو وزراء کی نمائندگی باقی ہے جبکہ کارکردگی کی بنیاد پر بعض وزراء کے محکموں کا معاملہ بھی کافی عرصے سے زیر بحث ہے جس میں وزیراعلیٰ جام کمال کی اپنی جماعت کے وزراء کی تعداد اتحادیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ میں بھی کابینہ میں ایک وزیر لینے کے حوالے سے بھی رسہ کشی جاری ہے قرعہ کس کے حق میں نکلتا ہے اس بات کا فیصلہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت ہی کرے گی، تاہم ان حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ قرعہ جس کے بھی حق میں نکلے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں اس حوالے سے سخت ردعمل آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بی اے پی کی نمائندگی کیلئے پارٹی کے بعض رہنما ناراض سابق صوبائی وزیر سردار سرفراز ڈومکی کو راضی کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ انہیں راضی کرکے دوبارہ کابینہ میں لایا جائے تاکہ پارٹی کے اندر جو اختلافات کی باتیں چل رہی ہیں۔
انہیں زائل کیا جائے تاہم اس حوالے سے ابھی تک سردار سرفراز ڈومکی کی جانب سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آیا ہے۔ پارٹی کے اندر اختلافات کو دور کرنے کیلئے پارٹی کے بانی اورسابق وزیر و سینیٹر سعید احمد ہاشمی بھی سرگرم ہوگئے ہیں جنہوں نے گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ جام کمال جو کہ پارٹی کے مرکزی صدر بھی ہیں اور اسپیکر و قائم مقام گورنر میر عبدالقدوس بزنجو سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں پارٹی کے ذرائع کے مطابق سعید احمد ہاشمی پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال ، عبدالقدوس بزنجو اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو قریب لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں روز تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ابھی وہ کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں تاہم یہ مبصرین منڈلاتے بادلوں کو آگے چل کر گہرا ہوکر برستا دیکھنے کی بھی پیشن گوئی کر رہے ہیںجو کہ سیاسی موسم کی تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔
بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ صوبے کے سیاسی موسم میں منڈلاتے بادل گہرے ہونے کے ساتھ ساتھ برسنے کا بھی پیغام دے رہے ہیں حالانکہ ٹھنڈی اور تیز ہوائیں ان بادلوں کو اپنے ساتھ لے جا رہی ہیں لیکن کچھ وقت کے بعد ان بادلوں کی واپسی سیاسی موسم کے خراب ہونے کا اشارہ دے رہی ہے؟۔
گذشتہ دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی اور بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند جو کہ بیرون ملک دورے پر جا رہے تھے اچانک بیرون ملک دورے کا پروگرام ملتوی کرکے کوئٹہ پہنچ گئے جہاں اُنہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے ون آن ون ملاقات کی۔
اُن کی اس ملاقات کو صوبے کے سیاسی حلقے اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ دونوں رہنماؤں میں کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی جس میں صوبے کی موجودہ صورتحال پر کھل کر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اُنہیں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ملاقات میں دونوں جانب سے ورکنگ ریلیشن کو مزید مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
سیاسی حلقوں میں اس ملاقات کو صوبے کی سیاست کے موجودہ تناظر میں اس لئے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے کہ ایک طرف وزیراعلیٰ جام کمال کو اپنی ہی جماعت کے پارلیمانی گروپ کے بعض ارکان خصوصاً اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو جو کہ آج کل قائم مقام گورنر بھی ہیں کی مسلسل تنقیدکا سامنا ہے اور بعض ارکان کچھ ناراض بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں دوسری طرف اتحادی جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ جام کمال کی حمایت اُنہیں مضبوط بنانے میں مدد گار ثابت ہورہی ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس تمام صورتحال میں بڑے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے ڈیڑھ سال کے دور اقتدار میں کئے گئے اقدامات کو زیر بحث لارہے ہیں حال ہی میں صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں منعقدہ نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کئی ریکوڈک ہیں قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہماری دس سے پندرہ ارب روپے سے زائد آمدنی نہیں جس کی وجہ سے بلوچستان پسماندہ ہے۔
2013ء سے2018ء کا عرصہ سی پیک منصوبے کی منظوری کا تھا لیکن بدقسمتی سے گذشتہ صوبائی حکومت سماجی شعبے کی ترقی کیلئے اس منصوبے سے فائدہ نہیں اُٹھا سکی۔ صوبے کو ریکوڈک پر کئے گئے جذباتی فیصلوں سے6 ارب ڈالر ہرجانے کا سامنا ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومتوں کو ذاتی خواہشات اور سیاسی مقاصد کے حصول کے ساتھ نہیں چلایا جا سکتا بلکہ اس کیلئے پروفیشنل ازم کی ضرورت ہے ہمیں ذاتی مفادات سے باہر نکلنا ہوگا۔ سیاسی مخالفت سے نہ تو گھبرانا چاہیے اور نہ ہی دباؤ میں آنا چاہیے ۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھاکہ صوبے کے سات ڈویژنوں میں کوئی کمشنر سیاسی بنیادوں پر تعینات نہیں کیا گیا جبکہ مختلف محکموں کے سیکرٹری اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر تعینات کئے گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس مسائل کا انبار ہے اور نظام دباؤ اور مختلف قسم کے اثرات کا شکار ہے ہم نظام اور گڈ گورننس کو بہتر بنا کر خدمت کی فراہمی کے عمل کو موثر بنا رہے ہیں، اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی ضلع ایسا نہیں جہاں ان کی حکومت بلا امتیاز اربوں روپے ترقی کیلئے خرچ نہیں کر رہی۔
سیاسی حلقوں اور مبصرین کے مطابق بلوچستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال جس طرح سے اپنی ڈیڑھ سالہ حکومت کی کارکردگی اور گڈ گورننس کا پرچار کر رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو زچ کرنے اور اُن کی حکومت کی کمزوریوں اور خامیوں کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے اسے زائل کرنے کیلئے میدان میں اُترے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس تمام صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی اتحادی جماعتوں کو بھی آن بورڈ لے رہے ہیں جس کیلئے اُنہوں نے اپنے رابطے بھی تیز کردیئے ہیں۔
ان کے قریبی ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ کچھ عرصے میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اپنی حکومت کی مضبوطی کا عملی مظاہرہ کرنے کیلئے بعض بولڈ فیصلے کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جس میں اپنی کابینہ اور وزراء کے محکموں میں ردوبدل سمیت تحریک انصاف اور بی اے پی کے ایک ایک رکن کو کابینہ میں نمائندگی دینے کے فیصلے بھی شامل ہیں۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق کابینہ سے تحریک انصاف ، بی اے پی کے ایک ایک وزراء کی برخاستگی کے بعد دو وزراء کی نمائندگی باقی ہے جبکہ کارکردگی کی بنیاد پر بعض وزراء کے محکموں کا معاملہ بھی کافی عرصے سے زیر بحث ہے جس میں وزیراعلیٰ جام کمال کی اپنی جماعت کے وزراء کی تعداد اتحادیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
ان سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ میں بھی کابینہ میں ایک وزیر لینے کے حوالے سے بھی رسہ کشی جاری ہے قرعہ کس کے حق میں نکلتا ہے اس بات کا فیصلہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت ہی کرے گی، تاہم ان حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ قرعہ جس کے بھی حق میں نکلے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی میں اس حوالے سے سخت ردعمل آنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق بی اے پی کی نمائندگی کیلئے پارٹی کے بعض رہنما ناراض سابق صوبائی وزیر سردار سرفراز ڈومکی کو راضی کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ انہیں راضی کرکے دوبارہ کابینہ میں لایا جائے تاکہ پارٹی کے اندر جو اختلافات کی باتیں چل رہی ہیں۔
انہیں زائل کیا جائے تاہم اس حوالے سے ابھی تک سردار سرفراز ڈومکی کی جانب سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں آیا ہے۔ پارٹی کے اندر اختلافات کو دور کرنے کیلئے پارٹی کے بانی اورسابق وزیر و سینیٹر سعید احمد ہاشمی بھی سرگرم ہوگئے ہیں جنہوں نے گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ جام کمال جو کہ پارٹی کے مرکزی صدر بھی ہیں اور اسپیکر و قائم مقام گورنر میر عبدالقدوس بزنجو سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں پارٹی کے ذرائع کے مطابق سعید احمد ہاشمی پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال ، عبدالقدوس بزنجو اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو قریب لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں روز تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ابھی وہ کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں تاہم یہ مبصرین منڈلاتے بادلوں کو آگے چل کر گہرا ہوکر برستا دیکھنے کی بھی پیشن گوئی کر رہے ہیںجو کہ سیاسی موسم کی تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔