سندھ حکومت میں دیانتدار بیورو کریٹس کا کام کرنا محال ہوگیا
بعض بیوروکریٹس کا محض اس لیے تبادلہ کردیا گیا کہ انھوں نے حکومت کی پالیسیوں پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کیا تھا
دنیا بھر میں یہ چلن عام ہے کہ حکومتیں بہترین انتظام حکمرانی چاہتی ہیں دوسری طرف سندھ حکومت ہے جو اس کا بالکل متضاد رویہ اپنائے ہوئے ہے اور حقیقتاً اس نے بیشتر وزیروں اور دیگر با اثر شخصیات کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ وہ حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے پھریں۔
حکومت کے اندرونی معاملات سے باخبر سرکاری اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو حالیہ دنوں میں سندھ بیورکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں بتایا کہ بعض اچھی شہرت رکھنے والے بیوروکریٹس کا محض اس لیے تبادلہ کردیا گیا کہ انھوں نے سندھ حکومت کی پالیسیوں پر اپنی بے اطمینانی اور ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گریڈ 22 کے ایک افسر نوی شاہ درانی کہ جو پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرپرسن کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں انھیں صرف 9 ماہ کی خدمات کے بعد ہی واپس اسلام آباد بھیج دیا گیا کیونکہ انھوں نے متعدد ترقیاتی اسکیموں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان پر اعتراضات اٹھائے تھے کیونکہ یہ اسکیمیں حکمراں جماعت کے چند با اثر افراد کی خواہش کے مدنظر شروع کی جارہی تھیں۔
ایک بہت ہی با اثر شخص جو سندھ حکومت کا حصہ ہے اور اسے سندھ کے محکمہ زراعت کا اصلی وزیر سمجھا جاتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ محکمے کے تمام معاملات اس کی منشا کے مطابق چلائے جائیں۔
نوید شاہ کے اعتراضات کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ انھوں نے ترقیاتی اسکیموں کی ایک تجویز کو منظور کرنے سے صاف انکار کردیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ کوئی قانون بھی ضابطے کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اسی کے علاوہ نوید شاہ نے کچھ با اثر منتخب نمائندوں اور سینئر پارٹی رہنماؤں کی پیش کردہ چند اسکیموں کی بھی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا جس کے باعث کافی لوگ ان سے ناراض تھے۔
نوید شاہ کا تبادلہ کرکے اب ان کی جگہ محمد وسیم کو تعینات کیا گیا ہے جو اس سے قبل محکمہ انسداد بدعنونی میں بطور چیئرمین کام کررہے تھے۔یہ صرف نوید شاہ درانی ہی نہیں جنھیں سندھ حکومت میں اقربا پروری اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے پر تبادلے کا سامنا کرنا پڑا بلکہ محکمہ انسداد بدعنوانی کے ڈائریکٹر فیاض عباسی کا بھی تبادلہ کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک پولیس افسر عثمان غنی صدیقی کو تعینات کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف سیکریٹری سندھ نے پہلے پہل تو اس تبادلے کی مخالفت کی تاہم بعد ازاں انھیں صوبائی حکومت کے اعلی حکام کی جانب سے دیے گئے احکامات کو ماننا ہی پڑا۔چند ہفتے قبل شکارپور کے ایس ایس ڈاکٹر محمد رضوان اس وقت خبروں کی زینت بنے جب انھوں نے سندھ حکومت کے چند وزیروں اور پیپلز پارٹی کے چند با اثر افراد پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ لوگ ڈاکوؤں کے علاوہ جوئے کے اڈروں کی سرپرستی کررہے ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے 3بعد ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ کرتے ہوئے انھیں واپس اسلام آباد بھیج دیا گیا تھا۔جب نوید شاہ کے تبادلے کے حوالے سے سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی کی خواہش پر کسی سرکاری افسر کا تبادلہ نہیں کیا گیا اور یہ خبر بالکل غلط ہے، نوید شاہ اس وقت بھی سندھ حکومت کے تحت کام کررہی ہیں۔
حکومت کے اندرونی معاملات سے باخبر سرکاری اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو حالیہ دنوں میں سندھ بیورکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کے بارے میں بتایا کہ بعض اچھی شہرت رکھنے والے بیوروکریٹس کا محض اس لیے تبادلہ کردیا گیا کہ انھوں نے سندھ حکومت کی پالیسیوں پر اپنی بے اطمینانی اور ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گریڈ 22 کے ایک افسر نوی شاہ درانی کہ جو پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیئرپرسن کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں انھیں صرف 9 ماہ کی خدمات کے بعد ہی واپس اسلام آباد بھیج دیا گیا کیونکہ انھوں نے متعدد ترقیاتی اسکیموں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان پر اعتراضات اٹھائے تھے کیونکہ یہ اسکیمیں حکمراں جماعت کے چند با اثر افراد کی خواہش کے مدنظر شروع کی جارہی تھیں۔
ایک بہت ہی با اثر شخص جو سندھ حکومت کا حصہ ہے اور اسے سندھ کے محکمہ زراعت کا اصلی وزیر سمجھا جاتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ محکمے کے تمام معاملات اس کی منشا کے مطابق چلائے جائیں۔
نوید شاہ کے اعتراضات کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ انھوں نے ترقیاتی اسکیموں کی ایک تجویز کو منظور کرنے سے صاف انکار کردیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ کوئی قانون بھی ضابطے کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ اسی کے علاوہ نوید شاہ نے کچھ با اثر منتخب نمائندوں اور سینئر پارٹی رہنماؤں کی پیش کردہ چند اسکیموں کی بھی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا جس کے باعث کافی لوگ ان سے ناراض تھے۔
نوید شاہ کا تبادلہ کرکے اب ان کی جگہ محمد وسیم کو تعینات کیا گیا ہے جو اس سے قبل محکمہ انسداد بدعنونی میں بطور چیئرمین کام کررہے تھے۔یہ صرف نوید شاہ درانی ہی نہیں جنھیں سندھ حکومت میں اقربا پروری اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے پر تبادلے کا سامنا کرنا پڑا بلکہ محکمہ انسداد بدعنوانی کے ڈائریکٹر فیاض عباسی کا بھی تبادلہ کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک پولیس افسر عثمان غنی صدیقی کو تعینات کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف سیکریٹری سندھ نے پہلے پہل تو اس تبادلے کی مخالفت کی تاہم بعد ازاں انھیں صوبائی حکومت کے اعلی حکام کی جانب سے دیے گئے احکامات کو ماننا ہی پڑا۔چند ہفتے قبل شکارپور کے ایس ایس ڈاکٹر محمد رضوان اس وقت خبروں کی زینت بنے جب انھوں نے سندھ حکومت کے چند وزیروں اور پیپلز پارٹی کے چند با اثر افراد پر الزام عائد کیا تھا کہ یہ لوگ ڈاکوؤں کے علاوہ جوئے کے اڈروں کی سرپرستی کررہے ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے 3بعد ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ کرتے ہوئے انھیں واپس اسلام آباد بھیج دیا گیا تھا۔جب نوید شاہ کے تبادلے کے حوالے سے سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کسی کی خواہش پر کسی سرکاری افسر کا تبادلہ نہیں کیا گیا اور یہ خبر بالکل غلط ہے، نوید شاہ اس وقت بھی سندھ حکومت کے تحت کام کررہی ہیں۔