ایک فیضانی لمحے کی یاد
حضرت علامہ نے مجھےمخاطب کرکے کہا کہ ’’تم اس وفد کے سرغنہ ہو اور شاعر ہو۔ اپنےاشعار سناؤ۔ شاید طبیعت کو بہانہ مل جائے۔
ایک شام کو ہم چار: تاثیر، چغتائی اور ان کے دو بھائی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جاتے ہی غیر مطبوعہ اُردو کلام کا مطالبہ شروع کردیا اور دلائل کی بوچھاڑ کردی، اردو میں آپ نے دیر سے نہیں لکھا۔ اردو بحیثیت زبان کے مستحق امداد ہے۔
اردودان لوگ بحیثیت ہم قوم ہونے کے پیغام اقبال سننے کے مستحق ہیں۔ مسلمانان ہند کو اور کون اُبھارے گا؟ کارواں کے نکالنے کا آپ ہی نے مشورہ دیا تھا۔ آپ کا غیر مطبوعہ اردو کلام نہ ہوا تو ہماری نیازمندی لوگوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرے گی۔ ہم کچھ نہ کچھ لے کر ٹلیں گے۔ حضرت علامہ بستر پر لیٹے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے، اردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے۔ جاوید نامہ کو ابھی ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نچڑ گئے ہیں، اس لیے فارسی میں بھی کچھ کہنا محال ہے۔ یوں بھی فارسی کو چھوڑ کر اردو میں کہنا سنگ مر مر کی بجائے گارے کی عمارت بنانا ہے۔
مگر تمہارے اور دیگر عزیزوں کے اصرار سے اردو کی طرف میلان ہورہا ہے۔ دیکھو! جو اس کی مرضی! ہم نے دلائل بازی میں شکست ہوتی دیکھ کر نیاز مندی کو سہارا بنایا اور ''اردو غزل لے کر ٹلیں گے'' کی رٹ لگانی شروع کردی۔ علامہ ''اردو غزل'' سن کر ذرا چونکے۔ کہنے لگے، ''یہ ایک نئی شرط لگادی۔'' ہماری اس فقرے سے ہمت بندھی۔ سمجھے اردو غزل نہیں تو نظم۔ یہ بھی نہیں تو غیر مطبوعہ فارسی کلام تو مل ہی جائے گا۔ اپنی اس کامیابی پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرارہے تھے کہ یکایک حضرت علامہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ ''تم اس وفد کے سرغنہ ہو اور شاعر ہو۔ اپنے اشعار سناؤ۔ شاید طبیعت کو بہانہ مل جائے۔''
یہ سننا تھا کہ میری تمام شوخیوں اور مسکراہٹوں کا خاتمہ ہوگیا۔ میں اور اپنے اشعار، حضرت علامہ کو سناؤں! مجھے کبھی ان کے سامنے اپنے اشعار پڑھنے کی جرأت نہ ہوئی اور جب کبھی انہوں نے میری کسی مطبوعہ نظم کا ذکر کیا مجھے پسینہ آنے لگا۔ میری خاموشی پر حضرت علامہ پھر بولے، بھئی کچھ سناؤگے تو شاید تمہاری قسمت کی کوئی چیز ہوجائے۔ اس پر چغتائی صاحب کارواں کے مفاد پر مجھے قربان کرتے ہوئے بول اٹھے ''وہ سمجھا تھا مَیں والی غزل سنادو۔'' باقی دو بھائی بھی ہم آہنگ ہوگئے۔ ''ہاں، ہاں سمجھا تھا مَیں والی غزل۔'' علامہ اقبال مسکرارہے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور جی کڑاکر ایک مطلع پڑھا۔ پھر دوسرا۔ علامہ اقبال اس کا ایک مصرع:
تم کو اپنی زندگی کا آسر سمجھا تھا مَیں
دہراے لگے۔ مجھے تسکین ہوئی۔ آخری شعر پر مجھے خود یقین تھا۔
زلفِ صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا مَیں
تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا مَیں
حضرت علامہ کو بھی پسند آیا۔ کہنے لگے، زمین اچھی ہے، خدا کا قافیہ کیوں چھوڑ دیا؟ اور کچھ چُپ سے ہوگئے۔ فکرِ شعر میں سر جھکالیا۔ ہماری اُمیدیں بلند ہوگئیں۔ مگر مجھے ایک اور فکر لاحق ہوگئی۔ میری غزل اچھی تھی۔ بہت اچھی تھی۔ لیکن حضرت علامہ نے اس پر کچھ کہہ دیا تو قدر عافیت معلوم! بے حیثیت ہوکر رہ جائے گی۔ ہاں اردو ادب اور کارواں دولتمند ہوجائیں گے۔ مگر میرے دماغ میں یہ کش مکش جاری تھی کہ حضرت علامہ بولے، اگر قافیہ بدل جائے تو؟ میں فوراً بولا، تو بہتر ہوگا اور اطمینان کا سانس لیا۔ حضرت علامہ کہنے لگے، لو سنو۔ تم غزل غزل پکار رہے تھے تو غزل ہی سہی:
عرصۂ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی!
داورِ محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں
یہ شعر کہہ کر علامہ اقبال کچھ رُکے، دو تین منٹ تک۔ اور پھر یہ حالت تھی کہ میں نقل نہیں کرچکتا تھا کہ ایک اور شعر تیار ہوتا۔ دوسرا شعر جاوید نامہ کی کیفیات کا حامل تھا؎
''مہر و ماہ و مشتری کو ہمعناں سمجھا تھا میں''
جوں جوں شعر ہوتے جاتے علامہ کی حالت بدلتی جاتی۔ بستر ہی میں اٹھ کر پاؤں کے بل بیٹھ گئے۔ آواز میں لرزش سی آگئی۔ جھوم جھوم کر داہنے ہاتھ کی سبّابَہ اُٹھا کر اِنشا کرتے تھے اور اس شعر؎
تھی وہ اک درماندہ رہرد کی صدائے دردناک
جس کی آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا مَیں
وہ بھی رورہے تھے اور ہم بھی! نہ جانے یہ غزل کتنی لمبی ہوجاتی، مگر یہ فیضانی سلسلہ ایک اجنبی ملاقاتی کی آمد سے منقطع ہوگیا اور ہم اس درانداز کو دل ہی دل میں کوستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد بہت ملاقاتیں ہوئیں، مگر ہم نے دوبارہ اس غزل کا ذکر تک نہ کیا اور نظرثانی کے لیے بھی شعروں کی نقل نہیں دی۔ مطلع کے متعلق علامہ نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ یوں کردیا جائے؎
اپنی جولان گاہ زیر آسماں سمجھا تھا مَیں
کس رباطِ کہنہ کو اپنا جہاں سمجھا تھا مَیں
مگر میں نے تعمیل ارشاد نہ کرتے ہوئے اس فیضانی لمحے کی یاد گار کو جوں کا توں رہنے دیا۔
اردودان لوگ بحیثیت ہم قوم ہونے کے پیغام اقبال سننے کے مستحق ہیں۔ مسلمانان ہند کو اور کون اُبھارے گا؟ کارواں کے نکالنے کا آپ ہی نے مشورہ دیا تھا۔ آپ کا غیر مطبوعہ اردو کلام نہ ہوا تو ہماری نیازمندی لوگوں کی نظر میں مشکوک ٹھہرے گی۔ ہم کچھ نہ کچھ لے کر ٹلیں گے۔ حضرت علامہ بستر پر لیٹے ہوئے یہ سب کچھ سن رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے، اردو میں شعر نازل ہی نہیں ہوتے۔ جاوید نامہ کو ابھی ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نچڑ گئے ہیں، اس لیے فارسی میں بھی کچھ کہنا محال ہے۔ یوں بھی فارسی کو چھوڑ کر اردو میں کہنا سنگ مر مر کی بجائے گارے کی عمارت بنانا ہے۔
مگر تمہارے اور دیگر عزیزوں کے اصرار سے اردو کی طرف میلان ہورہا ہے۔ دیکھو! جو اس کی مرضی! ہم نے دلائل بازی میں شکست ہوتی دیکھ کر نیاز مندی کو سہارا بنایا اور ''اردو غزل لے کر ٹلیں گے'' کی رٹ لگانی شروع کردی۔ علامہ ''اردو غزل'' سن کر ذرا چونکے۔ کہنے لگے، ''یہ ایک نئی شرط لگادی۔'' ہماری اس فقرے سے ہمت بندھی۔ سمجھے اردو غزل نہیں تو نظم۔ یہ بھی نہیں تو غیر مطبوعہ فارسی کلام تو مل ہی جائے گا۔ اپنی اس کامیابی پر ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرارہے تھے کہ یکایک حضرت علامہ نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ ''تم اس وفد کے سرغنہ ہو اور شاعر ہو۔ اپنے اشعار سناؤ۔ شاید طبیعت کو بہانہ مل جائے۔''
یہ سننا تھا کہ میری تمام شوخیوں اور مسکراہٹوں کا خاتمہ ہوگیا۔ میں اور اپنے اشعار، حضرت علامہ کو سناؤں! مجھے کبھی ان کے سامنے اپنے اشعار پڑھنے کی جرأت نہ ہوئی اور جب کبھی انہوں نے میری کسی مطبوعہ نظم کا ذکر کیا مجھے پسینہ آنے لگا۔ میری خاموشی پر حضرت علامہ پھر بولے، بھئی کچھ سناؤگے تو شاید تمہاری قسمت کی کوئی چیز ہوجائے۔ اس پر چغتائی صاحب کارواں کے مفاد پر مجھے قربان کرتے ہوئے بول اٹھے ''وہ سمجھا تھا مَیں والی غزل سنادو۔'' باقی دو بھائی بھی ہم آہنگ ہوگئے۔ ''ہاں، ہاں سمجھا تھا مَیں والی غزل۔'' علامہ اقبال مسکرارہے تھے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور جی کڑاکر ایک مطلع پڑھا۔ پھر دوسرا۔ علامہ اقبال اس کا ایک مصرع:
تم کو اپنی زندگی کا آسر سمجھا تھا مَیں
دہراے لگے۔ مجھے تسکین ہوئی۔ آخری شعر پر مجھے خود یقین تھا۔
زلفِ صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا مَیں
تیری صورت سے تجھے درد آشنا سمجھا تھا مَیں
حضرت علامہ کو بھی پسند آیا۔ کہنے لگے، زمین اچھی ہے، خدا کا قافیہ کیوں چھوڑ دیا؟ اور کچھ چُپ سے ہوگئے۔ فکرِ شعر میں سر جھکالیا۔ ہماری اُمیدیں بلند ہوگئیں۔ مگر مجھے ایک اور فکر لاحق ہوگئی۔ میری غزل اچھی تھی۔ بہت اچھی تھی۔ لیکن حضرت علامہ نے اس پر کچھ کہہ دیا تو قدر عافیت معلوم! بے حیثیت ہوکر رہ جائے گی۔ ہاں اردو ادب اور کارواں دولتمند ہوجائیں گے۔ مگر میرے دماغ میں یہ کش مکش جاری تھی کہ حضرت علامہ بولے، اگر قافیہ بدل جائے تو؟ میں فوراً بولا، تو بہتر ہوگا اور اطمینان کا سانس لیا۔ حضرت علامہ کہنے لگے، لو سنو۔ تم غزل غزل پکار رہے تھے تو غزل ہی سہی:
عرصۂ محشر میں میری خوب رسوائی ہوئی!
داورِ محشر کو اپنا راز داں سمجھا تھا میں
یہ شعر کہہ کر علامہ اقبال کچھ رُکے، دو تین منٹ تک۔ اور پھر یہ حالت تھی کہ میں نقل نہیں کرچکتا تھا کہ ایک اور شعر تیار ہوتا۔ دوسرا شعر جاوید نامہ کی کیفیات کا حامل تھا؎
''مہر و ماہ و مشتری کو ہمعناں سمجھا تھا میں''
جوں جوں شعر ہوتے جاتے علامہ کی حالت بدلتی جاتی۔ بستر ہی میں اٹھ کر پاؤں کے بل بیٹھ گئے۔ آواز میں لرزش سی آگئی۔ جھوم جھوم کر داہنے ہاتھ کی سبّابَہ اُٹھا کر اِنشا کرتے تھے اور اس شعر؎
تھی وہ اک درماندہ رہرد کی صدائے دردناک
جس کی آوازِ رحیلِ کارواں سمجھا تھا مَیں
وہ بھی رورہے تھے اور ہم بھی! نہ جانے یہ غزل کتنی لمبی ہوجاتی، مگر یہ فیضانی سلسلہ ایک اجنبی ملاقاتی کی آمد سے منقطع ہوگیا اور ہم اس درانداز کو دل ہی دل میں کوستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد بہت ملاقاتیں ہوئیں، مگر ہم نے دوبارہ اس غزل کا ذکر تک نہ کیا اور نظرثانی کے لیے بھی شعروں کی نقل نہیں دی۔ مطلع کے متعلق علامہ نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ یوں کردیا جائے؎
اپنی جولان گاہ زیر آسماں سمجھا تھا مَیں
کس رباطِ کہنہ کو اپنا جہاں سمجھا تھا مَیں
مگر میں نے تعمیل ارشاد نہ کرتے ہوئے اس فیضانی لمحے کی یاد گار کو جوں کا توں رہنے دیا۔