اطلاعات کا حصول قوانین سے آگہی
پاکستان میں عوام کے جاننے کے حق کو آئینی طور پر تسلیم کرنے کی مہم 90ء کی دہائی سے شروع ہوئی۔
2005ء میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ کے رہنما نوازشریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عوام کے جاننے کے حق کو آئین تحفظ دینے کے لیے ترمیم کی جائے، تا کہ جاننے کے حق کے حوالے سے ابہام دور ہو سکے۔ ان دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کا احترام کرتے ہوئے 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 19A شامل کیا، اس آرٹیکل میں تحریر کیا گیا ہے کہ قانون کے تحت عائد کردہ وہ مناسب پابندیوں اور ضوابط کے تابع شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق ہو گا۔ ریاست پر عوام کی بالادستی سے ہی فلاحی ریاست کے تصور کو عملی شکل دی جا سکتی ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور جمہوریت کے استحکام میں ہے۔ جمہوریت اس وقت تقویت پاتی ہے جب تمام ادارے شفافیت کے معیار کو حقیقی طور پر اپناتے ہیں۔ ریاستی اداروں کی شفافیت عوام کے جاننے کے حق Right to Know کو تسکین سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان میں عوام کے جاننے کے حق کو آئینی طور پر تسلیم کرنے کی مہم 90ء کی دہائی سے شروع ہوئی۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے سینیٹ میں ایک بل پیش کیا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور کی سینیٹ پر دائیں بازو کا غلبہ تھا، یوں بائیں بازو کے ایک رہنما کی کوشش ناکام ہو گئی۔ 1988ء سے 1999ء تک برسراقتدار آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اپنے اپنے منشور میں جاننے کے حق کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کے لیے قانون سازی کے وعدے کیے تھے، مگر ان وعدوں کی وفا کا مرحلہ نہیں آیا۔ ملک معراج خالد کی عبوری حکومت 1997ء میں قائم ہوئی، اس حکومت میں جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم، ارشاد احمد حقانی اور نجم سیٹھی جیسے جمہوریت پسند شامل تھے۔ جسٹس ابراہیم نے وزیر قانون کی حیثیت سے اطلاعات کے حصول کے قانون کا مسودہ تیار کیا مگر وہ احتساب کے قانون پر اختلاف کی بناء پر مستعفی ہو گئے۔ نجم سیٹھی کی کوششوں سے عبوری حکومت کی میعاد ختم ہونے کے آخری دن اطلاعات کے حصول کا آرڈیننس نافذ ہوا۔ مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف نے اس قانون کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ برسر اقتدار آنے کے بعد اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے منظور کرا کے بل کی شکل میں نافذ کریں گے مگر میاں صاحب اس وعدے کی تکمیل نہیں کر پائے۔
جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اقتدار سنبھالا تو جاوید جبار ایک دفعہ پھر وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے، انھوں نے اس قانون کی تیاری کے لیے اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کیے مگر دوسری وجوہات کی بناء پر وہ بھی مستعفی ہوئے۔ نثار میمن نے نئے وزیر اطلاعات کی حیثیت سے اس قانون کے نفاذ کا وعدہ کیا۔ 2002ء کے انتخابات کے فوراً بعد عبوری آئینی حکم پی سی او کے تحت کئی سو قوانین نافذ ہوئے، ان میں اطلاعات کے حصول کا قانون بھی شامل تھا، اس قانون پر خاصی تنقید ہوئی، اہم وزارتوں مثلاً دفاع، خارجہ، خزانہ، پانی و بجلی کو قانون کے دائرے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ اس قانون کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے پر وفاقی محتسب سے اپیل کا حق دیا گیا۔ محتسب کے پاس توہین عدالت کے اختیارات نہیں تھے، پھر محتسب کے خلاف اپیل صدر مملکت سے کی جا سکتی تھی۔ صدر محتسب اور وزارتوں کے سرپرست اعلیٰ تھے اور اس سے اپیل کا کوئی خاص فائدہ نہ تھا۔ 2005ء میں بلوچستان اور 2006ء میں سندھ نے اطلاعات کے حصول کے قوانین نافذ کیے، جو وفاقی قانون کی نقل تھے۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شیری رحمن نے اطلاعات کے حصول کے قانون کو موثر بنانے کے لیے اس میں ترمیم کے لیے کوششیں شروع کیں۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وہ وزیر اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئیں مگر اس قانون میں ترمیم نہ ہو سکی اور صدر زرداری کے ترجمان فرحت اﷲ بابر نے سینیٹ میں اس قانون کی ترامیم کا مسئلہ اٹھایا۔ وہ سینیٹ کی وزارت اطلاعات کی قائم کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے، اب اس کمیٹی نے اپنی سفارشات تیار کر لیں۔
پنجاب میں عبوری حکومت کے سربراہ نجم سیٹھی نے صوبے میں اطلاعات کے حصول کے قانون کا مسودہ تیار کیا، یہ مسودہ گورنر کو آرڈیننس کے نفاذ کی صورت میں منظوری کے لیے بھیجا گیا مگر گورنر صاحب نے یہ معاملہ منتخب حکومت کے سپرد کر دیا۔ انتخابات کے بعد پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں نے آرڈیننس جاری کر دیے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں زیر بحث قانون میں جو شق تجویز کی گئی ہے، آرٹیکل 19A کی روح کے مطابق ہیں، اگر یہ قانون نافذ ہوا تو عام شہری دفاع، خارجہ اور خزانہ وغیرہ کی وزارتوں سے بھی معلومات حاصل کر سکے گا اور انگریز حکومت کا نافذ کردہ قانون آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923ء اطلاعات کے حصول میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور اطلاعات فراہم نہ کرنے اور ریکارڈ تلف کرنے پر جرمانہ اور سزا بھی ممکن ہو گی مگر وہ محتسب کو اپیل کا اختیار برقرار رکھنے کے بارے میں متعدد دلیلیں دینے کے باوجود ماہرین کو مطمئن نہیں کر پائے۔ پنجاب کے اطلاعات کے حصول کے قانون کے بارے میں یہ بات سامنے آئی کہ وزیر اعلیٰ ہائوس کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے پر اپیل کے لیے پنجاب انفارمیشن کمیشن کے قیام کی تجویز ہے مگر اس کمیشن کو آزاد Independent Statutory Body قرار نہیں دیا گیا ہے۔ یہ کمیشن 3 اراکین پر مشتمل ہو گا، جس کے سربراہ سمیت تمام اراکین کا تقرر حکومت کرے گی۔
اگرچہ کمیشن کے اراکین میں سے ایک کی اہلیت ہائی کورٹ کے جج کی اہلیت کے برابر قرار دی گئی ہے۔ دوسرا رکن گریڈ 21 یا اس کے برابر کے گریڈ کا افسر ہو گا۔ تیسرے رکن کا تعلق سول سوسائٹی، ابلاغ عامہ اور تعلیم کے شعبے سے ہو گا اور تمام اراکین کو حکومت 3 سال کے لیے نامزد کرے گی۔ پنجاب کے قانون کے تحت پبلک انفارمیشن افسر 14 دن میں اطلاعات فراہم کرے گا، اس کی مدت میں مزید 14 دن کی توسیع ہو سکتی ہے۔ دوسری صورت میں درخواست کنندہ انفارمیشن کمیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کانفرنس میں پختونخوا کی تحریک انصاف کی حکومت کے اطلاعات کے حق کے قانون کو سراہا گیا، اس قانون کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے پر اپیل کے لیے Independent Statutory Body قائم کی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہائی کورٹ کے (ر) جج کو بحیثیت رکن نامزد کریں گے، بار کونسل ایک وکیل کو انسانی حقوق کمیشن سول سوسائٹی کے ایک رکن کو نامزد کرے گا۔ اس قانون میں اطلاعات کی فراہمی کے لیے ہر محکمے میں ایک افسر کا تقرر ہو گا، اس طرح اطلاعات جان بوجھ کے فراہم نہ کرنے اور ریکارڈ کو تلف کرنے پر جرمانہ اور سزا کی تجویز کی گئی ہے۔
ماہرین نے سندھ اور بلوچستان میں 2000ء اور 2001ء سے رائج قوانین پر مایوسی کا اظہار کیا، یہ قوانین وفاقی قانون کا چربہ ہیں۔ بلوچستان میں قانون کو نافذ ہوئے 7 سال ہو چکے مگر اس کے ذیلی قوانین تیار نہیں ہوئے، یوں یہ قوانین عملی طور پر موثر نہیں ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ وفاق میں نافذ قانون کے تحت اطلاعات کی فراہمی کا عمل انتہائی مایوس کن ہے۔ جنرل مشرف کے نچلی سطح تک کے اختیار کے بلدیاتی قانون میں اطلاعات کے حصول کا باب شامل تھا مگر اس باب پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ہر طرف بدعنوانی کا شور ہے۔ اس کانفرنس میں راقم الحروف نے اس جانب توجہ دلائی کہ عوام ان قوانین سے واقف نہیں ہیں، خاص طور پر صحافی، سماجی علوم کے اساتذہ اور سیاسی کارکنوں کی لاعلمی قابل توجہ ہے۔ اطلاعات کے حصول کا براہ راست تعلق ذرایع ابلاغ سے ہے۔
خبروں میں معروضیت کا اظہار مصدقہ اطلاعات دستیاب ہونے پر ہے، یوں صحافیوں کا ان قوانین کے بارے میں جاننا انتہائی ضروری ہے مگر میڈیا ہائوسز اور صحافتی تنظیموں نے اپنے کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی، اس طرح یونیورسٹیوں کے ابلاغ عامہ، سیاسیات اور قانون کے نصاب میں جاننے کے حق اور قوانین کا شامل ہونا ضروری ہے تا کہ طالب علم شفاف نظام کی اہمیت سے واقف ہوں، اس طرح سیاسی کارکنوں کا اس بارے میں جاننا ضروری ہے تا کہ وہ عوام کو اس حق سے آگاہ کر سکیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے میثاق جمہوریت کو پاس کرتے ہوئے آرٹیکل 19A کو آئین میں شامل کرایا، مگر نہ تو وفاق نے صوبوں نے اس بارے میں توجہ دی، کے پی کے کی حکومت نے اس بارے میں ایک معیاری قانون تیار کیا ہے۔ شفاف نظام کا نعرہ لگانے والے اس قانون کو وفاق اور صوبوں میں نافذ کرائیں تا کہ شفاف نظام سے وابستگی کا عملی اظہار ہو سکے۔