واہ رے ڈینگی
آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ آج دنیا بھر میں جتنا فتنہ و فساد جس نے برپا کررکھا ہے
آپ اسے ہماری محض ڈینگ یا شیخی نہ سمجھیے کہ ہم بڑے سے بڑے جنگلی جانور حتیٰ کہ شیر سے بھی نہیں ڈرتے، جو جنگل کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ مگر ہمیں ببانگ دہل یہ اعتراف کرنے میں کوئی تامل یا پس و پیش نہیں کہ تین ذی روح ایسے ہیں جن سے ہمیں بڑا ڈر لگتا ہے۔ ان میں سرفہرست وہ جان دار ہے جو اشرف المخلوقات کہلاتا اور جسے عرف عام میں آدمی کہا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں جتنی بار بھی ڈسا ہے وہ صرف اسی مخلوق نے ڈسا ہے، مرزا غالب کے ساتھ بھی یہی ہوا ہوگا تب ہی تو انھیں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ:
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
ایک بڑی مشہور کہاوت ہے کہ ''بچھو کا کاٹا روئے اور سانپ کا کاٹا سوئے'' مگر آدمی کا کاٹا ہوا بسا اوقات نہ رو سکتا ہے اور نہ سوسکتا ہے، خصوصاً ایسے حالات میں کہ بہ قول شاعر:
دیکھا جو کھاکے تیر کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
آپ خود ہی دیکھ لیجیے کہ آج دنیا بھر میں جتنا فتنہ و فساد جس نے برپا کررکھا ہے وہ کوئی اور نہیں صرف یہی ذی روح ہے جو آدمی کہلاتا ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، خود اپنے وطن عزیز کا حال ہی ملاحظہ فرمالیجیے، جو اسلام کے نام پر وطن وجود میں آیا تھا اور اسلامی جمہوریہ اور اسلام کا قلعہ کہلاتا ہے۔ جھوٹ، فریب، مکاری، عیاری، دغا بازی، ملاوٹ، بے ایمانی، کرپشن، رشوت ستانی، اقربا پروری، اغوا، چوری ڈکیتی، ضمیر فروشی، ایمان فروشی اور بدکاری و عصمت دری سمیت کون سا ایسا اخلاقی اور قانونی جرم ہے جس سے یہ پاک سر زمین محفوظ ہو۔ بھوکے جنسی بھیڑیے معصوم کلیوں اور پھولوں کی عصمتیں پامال کررہے ہیں اور قانون کے ہاتھ ان کی گردنوں تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ اولاد اپنے ماں باپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہی ہیں اور بے رحم والدین چپ چاپ اپنے نوزائیدہ بچوں کو کچرا کنڈیوں میں ڈال کر اور چپکے سے اسپتالوں کے باہر چھوڑ کر جارہے ہیں اور ہم ہیں کہ مسلمان ہونے کے دعوے کررہے ہیں۔
آدمی کے بعد دوسرے دو ذی روح کھٹمل اور مچھر ہیں جن سے ہماری روح کانپتی ہے، دن بھر کی تھکن کے بعد رات کی نیند حرام کردینا ان دونوں مخلوقات کا محبوب مشغلہ یا شیوہ ہے۔ ان دونوں کی خصلت اور عادات میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے خون چوسنا۔ انسانی خون ان کی مرغوب غذا ہے جسے ان کا Staple Food کہنا مبالغہ نہ ہوگا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ ان دونوں کا طریقہ واردات بھی ایک ہی ہے اور وہ ہے شب خون مارنا۔ عین ممکن ہے کہ شب خون مارنے کی حکمت عملی لشکروں نے ان سے سیکھ کر اختیار کی ہو۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ حکمرانوں کے تختے زیادہ تر رات کی تاریکی میں ہی الٹے جاتے ہیں، یعنی اس گھڑی جب خلق خدا گھوڑے بیچ کر اور لمبی تان کر سورہی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی شہر میں کھٹملوں اور مچھروں کا راج ہوا کرتا۔ اسی لیے تو ممتاز مزاح نگار سید محمد جعفری نے نہایت برجستہ انداز میں اعتراف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ:
اے کراچی مچھر و کھٹمل کے دیرینہ وطن
ہمارے خیال میں جعفری صاحب کا فرمایا ہوا مستند ہے اور مچھروں اور کھٹملوں کے حق میں کراچی کے ڈومیسائل کا درجہ رکھتا ہے۔ کراچی پر مچھروں کی حکمرانی اور غلبے کا ثبوت اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا ہوگا کہ پوری ایک بستی ان کے نام پر آباد ہے جو ''مچھر کالونی'' کے نام سے مشہور ہے، مچھروں کی عظمت اور ہیبت کا اس سے زیادہ اعتراف اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ہمیں کراچی کی وہ پہلی رات آج تک یاد ہے جب پچھلے پہر تالیوں کی آوازیں ہمارے کانوں تک پہنچ رہی تھیں، جو دراصل مچھر مارنے کی مہم تھی۔ اس واقعے پر ہماری رگ ظرافت اس حد تک پھڑک اٹھی کہ ایک نمکین غزل موزوں ہوگئی، جس کا مطلب یہ تھا!
مچھروں میں گھر گئے اور رات پھر کالی ہوئی
لوگ یہ سمجھے ہمارے گھر میں قوالی ہوئی
ہمارا مچھر سے خوف زدہ ہونا کوئی ہنسنے والی بات نہیں ہے۔ صاحبو! ہم مچھر کے کاٹے کا خوب مزا ملیریا میں مبتلا ہونے کی صورت میں کئی بار چکھ چکے ہیں اور کڑوی گولیاں کھانے کی صورت میں اس کی کڑی سزا بھی بھگت چکے ہیں۔ عوامی زبان میں یہ کڑوی گولیاں کونین کی گولیاں کہلاتی تھیں۔ گزشتہ دنوں جب ایک وفاقی وزیر نے عوام سے کڑوی گولی کھانے کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا تو ہماری ماضی کی ملیریا سے متعلق یادیں تازہ ہوگئی تھیں۔
عزیزو! مچھر سے خوف کھانے کے اعتراف میں ہماری کوئی سبکی نہیں کیونکہ یہ وہ ظالم شے ہے جس نے نمرود جیسے خدائی کا دعویٰ کرنے والے مغرور بادشاہ کا جینا حرام کردیا تھا اور اس کا ناطقہ اس حد تک بند کردیا تھا کہ وہ اکثر یہی کہتا ہوگا کہ
سرِ تسلیم خم ہے ، جو مزاج یار میں آئے
ہمیں بھی یاد رکھنا، ذکر جو دربار میں آئے
اگرچہ تاریخ میں اس مچھر کی قسم کے بارے میںتو سائنسی اور تحقیقی شواہد دستیاب نہیں ہیں تاہم قیاس کیا جاسکتا ہے کہ شاید وہ ڈینگی ہو یا اس کا کوئی بھائی بند یا بھانجا بھتیجا۔
آج کل ڈینگی کا عفریت ایک وبا کی صورت میں پورے ملک پر چھایا ہوا ہے۔ یہ ایک بلائے ناگہانی ہے جس کے وجود سے ہر کوئی خوف زدہ ہے جس میں ہم شاید سرفہرست ہیں۔ چنانچہ گزشتہ شب جب ایک مچھر وارننگ دیتے ہوئے ہمارے کان کے قریب سے ہوکر گزرا تو خوف کے مارے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ڈرون اور خودکش حملوں سے بھی زیادہ خوف وہراس ظالم اور ستم گر ڈینگی نے پھیلایا ہوا ہے جس کی دہشت ملکی سرحدوں سے نکل کر اب بیرون ملک تک جا پہنچی ہے۔ عالم یہ ہے کہ بیرون ملک آباد پاکستانی جو وطن تک اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں، فون پر فون کرکے ڈینگی کی تازہ ترین صورت حال دریافت کررہے ہیں۔ اپنے عزیزوں کے حال چال پوچھنے کے بجائے یہ پوچھنے پر مجبور ہیں کہ ''ڈینگی کے کیا حال ہے؟''
ڈینگی وہ مچھر ہے جس کا نام ہی کافی ہے کیونکہ اس کے نام سے ہی بھلے چنگے انسان کو جھرجھری آجاتی۔ واقعی ڈینگی آج کے دور کا سب سے بڑا ''آتنک وادی'' ہے اس کی ہیبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ پنجاب میں گزشتہ اتوار 3 نومبر کو ''ڈینگی ڈے'' منایا گیا اور اس موقع پر ریلیاں بھی نکالی گئیں۔ واہ رے ڈینگی!