سوشل میڈیا ذہنی سطح کا آئینہ…
لیکن اس سب کو حقیقی اور غیر حقیقی کی فہرست میں ڈالنا آسان نہیں ہے۔
صحت مند معاشرے کے لیے صحت مند مسابقت ضروری ہے۔ یہ معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے۔ اس کے برعکس غیر صحت مند یا منفی مسابقت معاشرے کو بیمار کرنے کا سبب ہوتی ہے۔ مسابقت کے لیے ایک دوسرے کے بارے میں معلومات اہم ہیں۔ جاننا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے بارے میں حقیقی علم ختم ہوتا جارہا ہے۔ قریب قریب بیٹھے ہوئے لوگ حقیقت میں کہیں بہت دور ہوتے ہیں۔ آپ نے انتظار گاہوں، بسوں، کالج، اسکول کی وین، یہاں تک کہ گھروں میں بھی دیکھا ہوگا کہ فون یا کمپیوٹر اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ انتہائی انہماک اور لگن سے کسی طویل فاصلے پر بیٹھے فرد سے باتوں میں مصروف ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہماری دنیا میں سوشل میڈیا بہت تیزی سے داخل ہوگیا ہے۔ وہ وقت ختم ہوگیا ہے کہ جب آپ گھر سے نکل کر چائے خانے یا کسی مجلس میں گپ شپ کا لطف اٹھاتے تھے۔ آپ سامنے بیٹھے فرد کو جانتے تھے۔ اس سے بات کرتے ہوئے اس کی موجودگی کو محسوس کرتے تھے۔ اس کی ناراضگی، خوشی اور محبت کے اثرات دل پر اثر کرتے تھے۔ کبھی وہ آپ کو اپنے دل کی باتیں بتاتا اور کبھی آپ اسے اپنے معاملات کی گتھیاں سلجھانے کے لیے کہتے۔ اب تو یہ سب کرنے کے لیے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔ آپ بستر پر بیٹھے بیٹھے، لیٹے لیٹے دنیا میں کسی بھی کونے میں ہونے والی گفتگو میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کی حرکات وسکنات پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ زندگی میں پیش آنے والے واقعات بتا بھی سکتے ہیں اور دکھا بھی سکتے ہیں۔ تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن اس سب کو حقیقی اور غیر حقیقی کی فہرست میں ڈالنا آسان نہیں ہے۔ سوشل میڈیا نے اگرچہ مسابقت کو خوب مہمیز دی ہے لیکن یہ مثبت سے کہیں زیادہ منفی رخ بھی اختیار کرسکتی ہے۔
سب سے بڑی سوشل رابطے کی سائٹ ''فیس بک'' ہے جس کو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ افراد کو قریب لانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے بلکہ ماہرین کا کہناہے کہ سوشل میڈیا کے کئی شعبوں میں لوگوں کی زندگی تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 2012 میں ایک دن میں پوسٹ کیے گئے پیغامات کی تعداد پچاس کروڑ سے تجاوز کرگئی تھی، اب اس میں مزید اضافہ ہی ہوا ہوگا۔
اس کے ذریعے سماجی روابط کو بڑھاکر کاروباری کمپنیاں کہاں سے کہاں پہنچی ہیں۔ صارفین سے براہ راست رابطے کے ذریعے اپنے گاہکوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ یہ حقیقت میں ایک ایسی قوت ہے جس کے ذریعے دنیا میں انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے دلوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور ذہنوں میں جھانکا جاسکتا ہے۔ اپنے ذاتی مسائل سے لے کر قومی مسائل کو اجاگر بھی کیا جاسکتا ہے اور حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔ عرب دنیا میں پیش آنے والے واقعات اور انقلاب کی خبریں اور تجزیے سوشل میڈیا کی اس اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور سے واقعات کو سمجھنے اور سمجھانے کے حوالے سے۔ کروڑوں لوگوں کا یوں آپس میں پیغامات کا تبادلہ انھیں قریب لانے کا باعث بن رہا ہے۔ دنیا میں واقعات اور خبریں وقت کے طویل فاصلوں کے بجائے انتہائی مختصر ترین فاصلہ طے کرتی ہیں۔ یوں خبریں انتہائی تیزی سے پھیلتی ہیں۔
فیس بک، ٹوئٹر، ای میل، ایس ایم ایس، ایم ایم ایس، گوگل پلس اور یوٹیوب اطلاعات کو لمحوں میں دنیا بھر میں پھیلادیتے ہیں۔ لیکن یہ کسی قدر سچ اور حقیقت سے قریب ہیں؟ یہ مختلف زاویوں سے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان سب میں سب سے بے مہار فیس بک ہے۔ جہاں کسی بھی بات اور دعوے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جو دل چاہے کہہ سکتا ہے، بلکہ جس قدر بے سروپا بات ہوگی اسی قدر تیزی سے پھیلے گی اور پھیلائی جائے گی۔ جس کا دل چاہے حقائق کو جس رخ سے چاہے موڑ کر پیش کرسکتا ہے۔ پیش کرنے والا اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے عموماً جعلی آئی ڈیز کا سہارا لیتا ہے، یوں اس کے ذریعے کئی طرح کے جرائم ہوتے ہیں، مثلاً تنگ اور ہراساں کرنا اور ایسا ذہنی تشدد کرنا جس سے حقیقی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یہ اس کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی اوپری سطح ہے۔ جس کے اندر وہ جرائم موجود ہیں جن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعی توجہ دینی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال انتہائی سمجھ داری سے کرنا چاہیے۔ اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اس کے ذریعے پھیلنے والی بات آپ کی ذمے داری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مثبت اور خوشی کے پیغامات کے برعکس غصے کے جذبات پر مبنی پیغامات تیزی سے پھیلتے ہیں۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ان پڑھ اور جاہل نہیں ہوتے۔ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقہ اسے یوں غلط استعمال کرے گا تو معاشرہ مسابقت کی فضا میں پھلنے پھولنے کے بجائے تنزلی کی طرف تیزی سے گرے گا۔ پڑھے لکھے لوگوں کے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے باعث اس کے ذریعے اخلاقی معیار کو بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ مثبت طریقے سے اپنے دلائل پیش کرنا یابحث ومباحثے میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے یکسر چھوڑدینا معاشرے کے تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی سطح کی نشان دہی کرتاہے جو کہ فی الحال نظر نہیں آتا۔ لہٰذا حکومتی سطح پر معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کی درست شناخت کا ایک غیر مشکوک اور شفاف نظام قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ ہماری اقدار اور روایات کی پاسداری کے لیے لازم ہے۔ ورنہ بھلا معاشرتی اقدار کو تباہ کرنے والے اخلاقی زلزلے کسی بھی گھر کی بنیادوں کو سلامت چھوڑتے ہیں؟
یہ سچ ہے کہ ہماری دنیا میں سوشل میڈیا بہت تیزی سے داخل ہوگیا ہے۔ وہ وقت ختم ہوگیا ہے کہ جب آپ گھر سے نکل کر چائے خانے یا کسی مجلس میں گپ شپ کا لطف اٹھاتے تھے۔ آپ سامنے بیٹھے فرد کو جانتے تھے۔ اس سے بات کرتے ہوئے اس کی موجودگی کو محسوس کرتے تھے۔ اس کی ناراضگی، خوشی اور محبت کے اثرات دل پر اثر کرتے تھے۔ کبھی وہ آپ کو اپنے دل کی باتیں بتاتا اور کبھی آپ اسے اپنے معاملات کی گتھیاں سلجھانے کے لیے کہتے۔ اب تو یہ سب کرنے کے لیے گھر سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔ آپ بستر پر بیٹھے بیٹھے، لیٹے لیٹے دنیا میں کسی بھی کونے میں ہونے والی گفتگو میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کی حرکات وسکنات پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ زندگی میں پیش آنے والے واقعات بتا بھی سکتے ہیں اور دکھا بھی سکتے ہیں۔ تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن اس سب کو حقیقی اور غیر حقیقی کی فہرست میں ڈالنا آسان نہیں ہے۔ سوشل میڈیا نے اگرچہ مسابقت کو خوب مہمیز دی ہے لیکن یہ مثبت سے کہیں زیادہ منفی رخ بھی اختیار کرسکتی ہے۔
سب سے بڑی سوشل رابطے کی سائٹ ''فیس بک'' ہے جس کو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ایک ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ افراد کو قریب لانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے بلکہ ماہرین کا کہناہے کہ سوشل میڈیا کے کئی شعبوں میں لوگوں کی زندگی تبدیل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ 2012 میں ایک دن میں پوسٹ کیے گئے پیغامات کی تعداد پچاس کروڑ سے تجاوز کرگئی تھی، اب اس میں مزید اضافہ ہی ہوا ہوگا۔
اس کے ذریعے سماجی روابط کو بڑھاکر کاروباری کمپنیاں کہاں سے کہاں پہنچی ہیں۔ صارفین سے براہ راست رابطے کے ذریعے اپنے گاہکوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ یہ حقیقت میں ایک ایسی قوت ہے جس کے ذریعے دنیا میں انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے دلوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور ذہنوں میں جھانکا جاسکتا ہے۔ اپنے ذاتی مسائل سے لے کر قومی مسائل کو اجاگر بھی کیا جاسکتا ہے اور حل بھی نکالا جاسکتا ہے۔ عرب دنیا میں پیش آنے والے واقعات اور انقلاب کی خبریں اور تجزیے سوشل میڈیا کی اس اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور سے واقعات کو سمجھنے اور سمجھانے کے حوالے سے۔ کروڑوں لوگوں کا یوں آپس میں پیغامات کا تبادلہ انھیں قریب لانے کا باعث بن رہا ہے۔ دنیا میں واقعات اور خبریں وقت کے طویل فاصلوں کے بجائے انتہائی مختصر ترین فاصلہ طے کرتی ہیں۔ یوں خبریں انتہائی تیزی سے پھیلتی ہیں۔
فیس بک، ٹوئٹر، ای میل، ایس ایم ایس، ایم ایم ایس، گوگل پلس اور یوٹیوب اطلاعات کو لمحوں میں دنیا بھر میں پھیلادیتے ہیں۔ لیکن یہ کسی قدر سچ اور حقیقت سے قریب ہیں؟ یہ مختلف زاویوں سے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان سب میں سب سے بے مہار فیس بک ہے۔ جہاں کسی بھی بات اور دعوے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص جو دل چاہے کہہ سکتا ہے، بلکہ جس قدر بے سروپا بات ہوگی اسی قدر تیزی سے پھیلے گی اور پھیلائی جائے گی۔ جس کا دل چاہے حقائق کو جس رخ سے چاہے موڑ کر پیش کرسکتا ہے۔ پیش کرنے والا اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے عموماً جعلی آئی ڈیز کا سہارا لیتا ہے، یوں اس کے ذریعے کئی طرح کے جرائم ہوتے ہیں، مثلاً تنگ اور ہراساں کرنا اور ایسا ذہنی تشدد کرنا جس سے حقیقی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یہ اس کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی اوپری سطح ہے۔ جس کے اندر وہ جرائم موجود ہیں جن پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واقعی توجہ دینی چاہیے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال انتہائی سمجھ داری سے کرنا چاہیے۔ اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اس کے ذریعے پھیلنے والی بات آپ کی ذمے داری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مثبت اور خوشی کے پیغامات کے برعکس غصے کے جذبات پر مبنی پیغامات تیزی سے پھیلتے ہیں۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ان پڑھ اور جاہل نہیں ہوتے۔ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقہ اسے یوں غلط استعمال کرے گا تو معاشرہ مسابقت کی فضا میں پھلنے پھولنے کے بجائے تنزلی کی طرف تیزی سے گرے گا۔ پڑھے لکھے لوگوں کے سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے باعث اس کے ذریعے اخلاقی معیار کو بھی پرکھا جاسکتا ہے۔ مثبت طریقے سے اپنے دلائل پیش کرنا یابحث ومباحثے میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے یکسر چھوڑدینا معاشرے کے تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنی سطح کی نشان دہی کرتاہے جو کہ فی الحال نظر نہیں آتا۔ لہٰذا حکومتی سطح پر معاشرتی اقدار کے تحفظ کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والوں کی درست شناخت کا ایک غیر مشکوک اور شفاف نظام قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ ہماری اقدار اور روایات کی پاسداری کے لیے لازم ہے۔ ورنہ بھلا معاشرتی اقدار کو تباہ کرنے والے اخلاقی زلزلے کسی بھی گھر کی بنیادوں کو سلامت چھوڑتے ہیں؟