پنجاب میں گُڑ اور شکر کی تیاری کا روایتی طریقہ آج بھی رائج
گنے کے رس سے گڑ اور شکر کی تیاری میں بہت محنت اور مہارت درکار ہوتی ہے
پنجاب میں آج بھی کئی دیہات ایسے ہیں جہاں روایتی طریقے سے گڑ تیارکیا جاتا ہے۔
جتنا گڑ ڈالیں گے اتنامیٹھا ہوگا،۔یہ کہاوت توسب نے سنی ہوگی مگر دیسی اور روایتی طریقے سے گڑتیارکیسے ہوتا ہے ہماری نئی نسل شاید اس بارے نہیں جانتی ہوگی۔ ننکانہ صاحب کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں مقامی کاشتکار گڑبنانے میں مصروف ہیں۔ ایک بڑےلوہے کے کڑاہے میں گنے کا رس ڈال کر گڑبنایا جارہاہے۔ چند کاریگراس کام میں لگے ہیں جبکہ درجن کے قریب بزرگ، نوجوان اوربچے صرف گڑ بنتا دیکھنے کے لئے یہاں جمع ہیں۔ مٹی سے بنائی گئی بھٹی میں گنے کے چھلکے ہی بطورایندھن استعمال ہورہے ہیں۔
مقامی کاشتکار محمد سجاد نے بتایا کہ ۔گڑبنانا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے برسوں کی مہارت اورتجربہ درکارہوتا ہے، سب سے پہلے کھیتوں سے گنے لاکران کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد ان کا رس نکالاجاتا ہے اور پھرگنے کا یہ رس ایک بڑے کڑاہے میں ڈال کربھٹی پررکھ دیاجاتا ہے جہاں کئی گھنٹے تک گنے کا رس کڑاہی میں کڑہتارہتا اورگاڑھا ہوتا جاتاہے۔
محمد سجاد نے یہ بھی بتایا کہ کڑاہے میں جوش کھاتے گنے کے رس میں سوڈا اور رنگ کاٹ بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس میں شامل میل ختم ہوجائے،اس سے گڑ کا رنگ صاف ہوجاتا ہے۔ گنے کا رس جب گاڑھا ہوجاتا ہے تو پھر اسے ٹھنڈا کیا جاتا اور آخر میں اس کی پنیاں بنائی جاتی ہیں۔ گڑکی بجائے اگر شکر بنانا مقصود ہو تو پھر اس کو ٹھنڈا ہونے کے ساتھ لکڑی کی مدد سے مکس کیا جاتا ہے۔
ایک بزرگ رحیم بخش کہنے لگے ان کے کھیتوں میں ہر سال ڈھائی سے تین سو من گنا کاشت ہوتا ہے۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ تمام گنے کا رس نکال کر گڑ تیار کیا جائے ، ان کے بچے بھی اب کھیتی باڑی کی بجائے نوکری کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے وہ زیادہ تر گنا شوگر ملزمالکان کو بیچ دیتے ہیں جب کہ کچھ گنے کا رس نکال کر اس سے گڑ اور شکر تیار کرلی جاتی ہے۔ اس میں انہیں زیادہ منافع ملتا ہے۔ شوگر مل والے اگر ہمیں ایک ٹرالی گنے کی قیمت 15 سے 20 ہزار روپے دیتے ہیں تو اتنے گنے سے گڑ اور شکر بنانے کے بعد ہمیں تمام اخراجات نکال کر بھی 25 سے 30 ہزار روپے بچت ہوجاتی ہے۔
گڑ تیار کرنے والے کاریگر محمد ریاض نے گنے کا رس گاڑھا ہونے پر اسے ایک بڑی ٹرے میں ڈالنا شروع کردیا، گڑ ٹھنڈا ہونا شروع ہوا تو ایک بزرگ نے لکڑی کے ایک چمچے کی مدد سے گڑ کی پیسیاں بنانا شروع کردیں جب کہ یہاں گڑ بنتا دیکھنے آنے والوں کو بھی یہ گرماگرم گڑ کھانے کے لئے دیا گیا۔
محمد سجاد نے ایک دوسری ٹرے میں بھی گڑ ٹھنڈا ہونے کے لئے ڈال دیااوراس میں بادام اورمونگ پھلی کے دانے ، میوہ اورکٹا ہوا ناریل بھی ملادیا تھا۔ یہ گڑ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو سوغات کے طور پر بھیجیں گے جبکہ باقی گڑ منڈی میں لے جاکر فروخت کردیاجائے گا۔ ان کے گھر میں چائے اورمیٹھابنانے کے زیادہ ترگڑ اورشکرہی استعمال ہوتی ہے۔
بزرگ رحیم بخش نے یہ بھی بتایا کہ گڑ بنانے کے لئے گنے کے رس زیادہ گاڑھا نہیں کیاجاتا بلکہ تھوڑا نرم رکھا جاتا ہے جبکہ اگر شکر بنانی ہوت وپھراس کا زیادہ گاڑھا کیا جاتا ہے۔ شکر بنانے کے لئے گاڑھے رس کو لکڑی کی مدد سے مسلسل مکس کیا جاتا ہے اس سے نرم اور خستہ شکر تیارہوجاتی ہے۔
جتنا گڑ ڈالیں گے اتنامیٹھا ہوگا،۔یہ کہاوت توسب نے سنی ہوگی مگر دیسی اور روایتی طریقے سے گڑتیارکیسے ہوتا ہے ہماری نئی نسل شاید اس بارے نہیں جانتی ہوگی۔ ننکانہ صاحب کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں مقامی کاشتکار گڑبنانے میں مصروف ہیں۔ ایک بڑےلوہے کے کڑاہے میں گنے کا رس ڈال کر گڑبنایا جارہاہے۔ چند کاریگراس کام میں لگے ہیں جبکہ درجن کے قریب بزرگ، نوجوان اوربچے صرف گڑ بنتا دیکھنے کے لئے یہاں جمع ہیں۔ مٹی سے بنائی گئی بھٹی میں گنے کے چھلکے ہی بطورایندھن استعمال ہورہے ہیں۔
مقامی کاشتکار محمد سجاد نے بتایا کہ ۔گڑبنانا کوئی آسان کام نہیں ہے اس کے لئے برسوں کی مہارت اورتجربہ درکارہوتا ہے، سب سے پہلے کھیتوں سے گنے لاکران کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد ان کا رس نکالاجاتا ہے اور پھرگنے کا یہ رس ایک بڑے کڑاہے میں ڈال کربھٹی پررکھ دیاجاتا ہے جہاں کئی گھنٹے تک گنے کا رس کڑاہی میں کڑہتارہتا اورگاڑھا ہوتا جاتاہے۔
محمد سجاد نے یہ بھی بتایا کہ کڑاہے میں جوش کھاتے گنے کے رس میں سوڈا اور رنگ کاٹ بھی شامل کیا جاتا ہے تاکہ اس میں شامل میل ختم ہوجائے،اس سے گڑ کا رنگ صاف ہوجاتا ہے۔ گنے کا رس جب گاڑھا ہوجاتا ہے تو پھر اسے ٹھنڈا کیا جاتا اور آخر میں اس کی پنیاں بنائی جاتی ہیں۔ گڑکی بجائے اگر شکر بنانا مقصود ہو تو پھر اس کو ٹھنڈا ہونے کے ساتھ لکڑی کی مدد سے مکس کیا جاتا ہے۔
ایک بزرگ رحیم بخش کہنے لگے ان کے کھیتوں میں ہر سال ڈھائی سے تین سو من گنا کاشت ہوتا ہے۔ ان کے پاس اتنا وقت نہیں کہ تمام گنے کا رس نکال کر گڑ تیار کیا جائے ، ان کے بچے بھی اب کھیتی باڑی کی بجائے نوکری کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے وہ زیادہ تر گنا شوگر ملزمالکان کو بیچ دیتے ہیں جب کہ کچھ گنے کا رس نکال کر اس سے گڑ اور شکر تیار کرلی جاتی ہے۔ اس میں انہیں زیادہ منافع ملتا ہے۔ شوگر مل والے اگر ہمیں ایک ٹرالی گنے کی قیمت 15 سے 20 ہزار روپے دیتے ہیں تو اتنے گنے سے گڑ اور شکر بنانے کے بعد ہمیں تمام اخراجات نکال کر بھی 25 سے 30 ہزار روپے بچت ہوجاتی ہے۔
گڑ تیار کرنے والے کاریگر محمد ریاض نے گنے کا رس گاڑھا ہونے پر اسے ایک بڑی ٹرے میں ڈالنا شروع کردیا، گڑ ٹھنڈا ہونا شروع ہوا تو ایک بزرگ نے لکڑی کے ایک چمچے کی مدد سے گڑ کی پیسیاں بنانا شروع کردیں جب کہ یہاں گڑ بنتا دیکھنے آنے والوں کو بھی یہ گرماگرم گڑ کھانے کے لئے دیا گیا۔
محمد سجاد نے ایک دوسری ٹرے میں بھی گڑ ٹھنڈا ہونے کے لئے ڈال دیااوراس میں بادام اورمونگ پھلی کے دانے ، میوہ اورکٹا ہوا ناریل بھی ملادیا تھا۔ یہ گڑ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو سوغات کے طور پر بھیجیں گے جبکہ باقی گڑ منڈی میں لے جاکر فروخت کردیاجائے گا۔ ان کے گھر میں چائے اورمیٹھابنانے کے زیادہ ترگڑ اورشکرہی استعمال ہوتی ہے۔
بزرگ رحیم بخش نے یہ بھی بتایا کہ گڑ بنانے کے لئے گنے کے رس زیادہ گاڑھا نہیں کیاجاتا بلکہ تھوڑا نرم رکھا جاتا ہے جبکہ اگر شکر بنانی ہوت وپھراس کا زیادہ گاڑھا کیا جاتا ہے۔ شکر بنانے کے لئے گاڑھے رس کو لکڑی کی مدد سے مسلسل مکس کیا جاتا ہے اس سے نرم اور خستہ شکر تیارہوجاتی ہے۔