’’کراچی ہوا برباد کیوں‘‘ جواب کون دے گا
برسر اقتدار جماعت حلیفوں کو صرف وعدوں ہی پر ٹرخاتی رہی اور کراچی کے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے۔
انتخابات 2018 میں کراچی کا میدان مارنے کے لیے کراچی والوں کو جو سنہری خواب دکھائے تھے اور کراچی کی سرپرستی کا دعویٰ کرنے والی ایم کیو ایم سے کھلم کھلا کینہ رکھنے والوں نے حکومت سازی کے لیے ان کی چھ سات ووٹوں کے اضافے کے لیے اتحاد کیا۔
پی پی سے بد دل ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کے گزشتہ رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے فوراً دست تعاون بڑھا کر دو وزارتیں قبول فرما لیں، کیونکہ وفاق میں 25 نشستوں پر بھی وزارت ہاتھ نہ آئی تھی سو صرف سات نشستوں پر دو وزارتیں برا سودا نہ تھا۔ مگر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی حکمرانوں نے نظریں پھیر لیں اپنے حلیفوں سے نہ کسی بات یا اہم فیصلے میں مشورہ نہ رائے اگرچہ یہ بات اول دن سے عیاں تھی کہ جن جماعتوں سے حکومت سازی کے لیے اتحاد کیا ہے وہ صرف وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے ہے، فراغ دلانہ رویہ دور دور نظر نہیں آ رہا تھا۔
برسر اقتدار جماعت حلیفوں کو صرف وعدوں ہی پر ٹرخاتی رہی اور کراچی کے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے۔ تعاون برقرار رکھنے کے لیے کراچی پیکیج کا اعلان بھی بڑے جوش سے کیا گیا، مگر بقول ڈاکٹر فاروق ستار ایک دھیلا بھی نہ ملا، خاموشی سے تعاون جاری رکھتے ہوئے حکمرانوں کے رویے کو برداشت کرتے جب خاصا وقت گزر گیا تو اب ایم کیو ایم ہی نہیں جی ڈی اے بھی اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرنے لگی ہے۔ ایم کیو ایم کی حد تک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انتخابات میں تو مار کھا ہی چکے ہیں مگر بلدیہ کی سطح پر اب تک بھرم قائم تھا مگر نہ اختیارات نہ کچھ کر سکنے کا موقع، جوں جوں بلدیاتی انتخابات قریب آ رہے ہیں تو فکر لاحق ہوئی کہ عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں۔
حکومت سندھ یوں ہی طنز کرتی رہتی ہے کہ میئر کراچی کرتے خود کچھ نہیں اور بے اختیاری کا رونا روتے رہتے ہیں، اب عوام کی اکثریت ان دونوں بیانیوں کے درمیان صورتحال کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا میئر کی بے بسی اور اپنی مجبوری کو سامنے لانے کے لیے وعدے پورے نہ ہونے کا شکوہ کیا جانے لگا ہے۔
عوام کی خدمت بلا کسی عہدے کے اور بھی تو کسی طرح ہو سکتی ہے، وہ جو برسوں سے ایم کیو ایم کے چکر میں اپنی زندگی برباد اور نئی نسل کو تعلیم و روزگار سے محروم کر چکے ہیں ان کی دلی تشفی کے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا جانا چاہیے تھا۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی اپنی وزارت میں اسامیاں نکلیں اور وہ اپنی پارٹی کے شعبہ آئی ٹی میں کام کرنے والوں کو روزگار فراہم نہ کر سکے اور تو اور گزشتہ ادوار میں حکومت سندھ کے شریک اقتدار ہو کر بھی کوٹہ سسٹم ختم نہ کرا سکے (جو پاکستان بھر میں صرف صوبہ سندھ ہی میں رائج ہے) عالم یہ ہے کہ اردو اساتذہ کی آسامیوں پر بھی اندرون سندھ کے لوگوں کا کراچی کے ڈومیسائل پر تقرر کیا گیا، ایم کیو ایم کے ذمے داروں نے خود اس کی نشاندہی کی مگر اس رویے کے خلاف بھرپور آواز تک نہ اٹھا سکے۔
اب جب کہ تقریباً ڈیڑھ سال تعاون کرتے ہو چلا ہے اور کراچی، کراچی والوں بلکہ سندھ والوں کے بجائے باہر والوں کے مکمل قبضے میں آتا جا رہا ہے تو ذرا سی ہلکی پھلکی احتجاجی آواز اٹھائی گئی تو حکمران جماعت کے جہانگیر ترین ایم کیو ایم کے ذمے داران سے ملنے آئے اور از سر نو اپنے گزشتہ وعدوں کا اعادہ کر کے انھیں مطمئن کرنے میں خاصے کامیاب بھی ہوئے ادھر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے فرمایا کہ ''حکومت گرانے کا کوئی ارادہ نہیں البتہ اپنے تحفظات کا جلد حل چاہتے ہیں'' اس صورتحال سے تو لگتا ہے (سابق تجربات کی بنیاد پر) نہ وہ وعدے نبھائیں گے نہ ان کے تحفظات دور ہوں گے اور اس بار بلدیاتی انتخابات میں بھی باہر والے ہی کامیاب ہو جائیں گے وہ جو تھوڑا سا رابطہ عوام اور ایم کیو ایم کے درمیان تھا وہ بھی خواب و خیال ہو جائے گا۔ رہ گیا عام انتخاب وہ تو ابھی دور ہیں (مگر مولانا فضل الرحمن کے بقول یہ سال عام انتخابات کا ہے) اگر ہے بھی تو کیا ایم کیو ایم چھ نشستوں سے زیادہ لینے کے لیے کوئی کوشش کر رہی ہے؟ ابھی تک تو وہ باوجود وفاق سے تعاون کے وہ اپنے سیل شدہ دفاتر تک واپس نہ لے سکی۔
ایم کیو ایم سے وابستہ افراد آج بھی پرامید ہیں کہ شاید حالات (سندھ اور مرکز میں حکمرانوں کی بے عملی کے باعث) دوبارہ ان کے حق میں پلٹ جائیں، شاید انھیں اندازہ نہیں کہ مرکز میں اتحاد اور وزارتوں کا حصول اس کے باوجود بھی ان کا فعال نہ ہونا کراچی والوں کے لیے کچھ نہ کرنا اور حکمرانوں سے بھی کچھ نہ کروانا، ان کے حق میں نہیں، ان کے خلاف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے، اس کے باوجود عوام میں آج بھی ایسے لوگ خاصی تعداد میں ہیں جو ایم کیو ایم کو دوبارہ منظم اور فعال دیکھنا چاہتے ہیں،
بانی متحدہ کے رویے کے باعث جو الزامات دوسری سیاسی جماعتیں ان پر عائد کرتی تھیں اب تو ان کے 'حکم'' سے ایم کیو ایم پاکستان ''اظہار برأت'' کر چکی ہے اور جمہوری رویے پر گامزن ہونے کا بھی ذکر کرتی رہی ہے مگر کارکردگی منفی نہیں تو مثبت بھی نہیں ہے۔
وہ لوگ کف افسوس مل رہے ہیں جنھوں نے اس جماعت کی خاطر اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا۔ اب بھی وہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک فعال اور عوامی مفاد کے لیے بلا امتیاز جدوجہد کرے اور دوبارہ سیاسی افق پر بھرپور عوامی طاقت بن کر ابھرے جس طرح ماضی میں کراچی کے عوام ان کا ساتھ دے رہے تھے وہ ''بھائی'' کا خوف نہ تھا بلکہ ان کا جوش اور مستقبل سے ان کی امیدیں تھیں ''بھائی'' کے خوف میں مبتلا تو پارٹی عہدوں پر فائز وہ لوگ تھے جو ''جی بھائی جی بھائی'' کے علاوہ اور کچھ کہہ ہی نہیں سکتے تھے بعد میں چینلز پر ان کی ''بکواس'' کو نئے معنی و مطالب اور دوسرے تناظر میں پیش کرتے تھے مگر بھائی کے بے ربط بیانات ''جلتی پر تیل'' کا کردار ادا کرتے رہتے اور شہر کا امن تباہ ہوتا رہتا۔ بھائی کے بغیر یہ پارٹی بہترین عوامی پارٹی کے طور پر سامنے آ سکتی تھی اگر ذرا بھی سمجھداری اور عقل مندی سے کام لیا جاتا، فرد واحد کی عقل جو گل کھلا رہی تھی۔
اس سے تو نجات مل ہی چکی تھی مگر یہ پارٹی تو اندر کی شکست و ریخت نے ڈوبی، وجہ یہ تھی کہ ہر فرد اپنے آپ کو ''بھائی'' کے بعد نمبر ون سمجھ رہا تھا اپنے پارٹی ایجنڈے سے شاید کوئی بھی مخلص نہ تھا، اگر پارٹی میں لیڈر شپ کا بحران نہ ہوتا تو صورتحال کو باآسانی سنبھالا جا سکتا تھا اور پی ٹی آئی کے اتنے اراکین سندھ اسمبلی میں نہ پہنچ پاتے، اگر ایم کیو ایم کو (اپنی بدنظمی کے باعث) یہ نشستیں نہ سہی پی پی کو تو مل سکتی تھیں پی ٹی آئی کا کراچی میں کردار ہی کیا تھا؟
مگر ان کو نہ ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی پی نے بھی کراچی کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا تب ہی تو اپنی پکی نشستوں سے بھی محروم ہوئے۔ اگر سندھ میں اردو بولنے والوں اور سندھی عوام کو آپس میں جوڑنے کی مخلصانہ کوشش کی جاتی تو یہ پاکستان کا سب سے مثالی و ترقی یافتہ صوبہ ہوتا، مگر یہ ملک جو لاکھوں جانوں کے نذرانے اور ایک بڑی معاشرتی اتھل پتھل کے بعد حاصل ہوا۔
کراچی کے مسائل کا حل تو بعد میں اس کا تو ذکر کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں، ملک کا وہ شہر جو کبھی بین الاقوامی مقام رکھتا تھا ہر لحاظ سے برباد ہو چکا ہے کسی کو فکر نہیں، کراچی سے فائدہ اٹھانے کو سب ہیں مگر اس کے مسائل حل کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ اس کا ذمے دار ہم کس کو قرار دیں، سیاستدانوں کو، سندھ حکومت کو یا وفاق کو۔ سیاسی فوائد کی خاطر اس کے افراد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں مبتلا ذرا دیر کو اپنے مفاد صوبے (کراچی) کی بہتری کی خاطر پس پشت نہیں ڈال سکتے؟
ملکی ترقی ہر شہر، ہر علاقے کی ترقی و خوشحالی سے ہوتی ہے کسی خاص صوبے یا شہر سے نہیں۔ پھر کراچی جیسے اہم شہر کو ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف دھکیلنے کا کیا مطلب، آخر کیوں سب مل کر اس شہر کو نظرانداز کر رہے ہیں؟ ہمیں بھارت، افغانستان کے معاملات کی تو بڑی فکر ہے مگر نہیں ہے تو کراچی کی فکر نہیں، آخر کیوں؟ یہ سوال اگرچہ ہر صاحب عقل، عہدہ و مقام سے ہے مگر سب سے پہلے اس کا جواب ایم کیو ایم دے۔
پی پی سے بد دل ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کے گزشتہ رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے فوراً دست تعاون بڑھا کر دو وزارتیں قبول فرما لیں، کیونکہ وفاق میں 25 نشستوں پر بھی وزارت ہاتھ نہ آئی تھی سو صرف سات نشستوں پر دو وزارتیں برا سودا نہ تھا۔ مگر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی حکمرانوں نے نظریں پھیر لیں اپنے حلیفوں سے نہ کسی بات یا اہم فیصلے میں مشورہ نہ رائے اگرچہ یہ بات اول دن سے عیاں تھی کہ جن جماعتوں سے حکومت سازی کے لیے اتحاد کیا ہے وہ صرف وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے ہے، فراغ دلانہ رویہ دور دور نظر نہیں آ رہا تھا۔
برسر اقتدار جماعت حلیفوں کو صرف وعدوں ہی پر ٹرخاتی رہی اور کراچی کے حالات بد سے بدتر ہوتے رہے۔ تعاون برقرار رکھنے کے لیے کراچی پیکیج کا اعلان بھی بڑے جوش سے کیا گیا، مگر بقول ڈاکٹر فاروق ستار ایک دھیلا بھی نہ ملا، خاموشی سے تعاون جاری رکھتے ہوئے حکمرانوں کے رویے کو برداشت کرتے جب خاصا وقت گزر گیا تو اب ایم کیو ایم ہی نہیں جی ڈی اے بھی اپنے تحفظات کا برملا اظہار کرنے لگی ہے۔ ایم کیو ایم کی حد تک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام انتخابات میں تو مار کھا ہی چکے ہیں مگر بلدیہ کی سطح پر اب تک بھرم قائم تھا مگر نہ اختیارات نہ کچھ کر سکنے کا موقع، جوں جوں بلدیاتی انتخابات قریب آ رہے ہیں تو فکر لاحق ہوئی کہ عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں۔
حکومت سندھ یوں ہی طنز کرتی رہتی ہے کہ میئر کراچی کرتے خود کچھ نہیں اور بے اختیاری کا رونا روتے رہتے ہیں، اب عوام کی اکثریت ان دونوں بیانیوں کے درمیان صورتحال کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا میئر کی بے بسی اور اپنی مجبوری کو سامنے لانے کے لیے وعدے پورے نہ ہونے کا شکوہ کیا جانے لگا ہے۔
عوام کی خدمت بلا کسی عہدے کے اور بھی تو کسی طرح ہو سکتی ہے، وہ جو برسوں سے ایم کیو ایم کے چکر میں اپنی زندگی برباد اور نئی نسل کو تعلیم و روزگار سے محروم کر چکے ہیں ان کی دلی تشفی کے لیے کچھ نہ کچھ تو کیا جانا چاہیے تھا۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی اپنی وزارت میں اسامیاں نکلیں اور وہ اپنی پارٹی کے شعبہ آئی ٹی میں کام کرنے والوں کو روزگار فراہم نہ کر سکے اور تو اور گزشتہ ادوار میں حکومت سندھ کے شریک اقتدار ہو کر بھی کوٹہ سسٹم ختم نہ کرا سکے (جو پاکستان بھر میں صرف صوبہ سندھ ہی میں رائج ہے) عالم یہ ہے کہ اردو اساتذہ کی آسامیوں پر بھی اندرون سندھ کے لوگوں کا کراچی کے ڈومیسائل پر تقرر کیا گیا، ایم کیو ایم کے ذمے داروں نے خود اس کی نشاندہی کی مگر اس رویے کے خلاف بھرپور آواز تک نہ اٹھا سکے۔
اب جب کہ تقریباً ڈیڑھ سال تعاون کرتے ہو چلا ہے اور کراچی، کراچی والوں بلکہ سندھ والوں کے بجائے باہر والوں کے مکمل قبضے میں آتا جا رہا ہے تو ذرا سی ہلکی پھلکی احتجاجی آواز اٹھائی گئی تو حکمران جماعت کے جہانگیر ترین ایم کیو ایم کے ذمے داران سے ملنے آئے اور از سر نو اپنے گزشتہ وعدوں کا اعادہ کر کے انھیں مطمئن کرنے میں خاصے کامیاب بھی ہوئے ادھر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے فرمایا کہ ''حکومت گرانے کا کوئی ارادہ نہیں البتہ اپنے تحفظات کا جلد حل چاہتے ہیں'' اس صورتحال سے تو لگتا ہے (سابق تجربات کی بنیاد پر) نہ وہ وعدے نبھائیں گے نہ ان کے تحفظات دور ہوں گے اور اس بار بلدیاتی انتخابات میں بھی باہر والے ہی کامیاب ہو جائیں گے وہ جو تھوڑا سا رابطہ عوام اور ایم کیو ایم کے درمیان تھا وہ بھی خواب و خیال ہو جائے گا۔ رہ گیا عام انتخاب وہ تو ابھی دور ہیں (مگر مولانا فضل الرحمن کے بقول یہ سال عام انتخابات کا ہے) اگر ہے بھی تو کیا ایم کیو ایم چھ نشستوں سے زیادہ لینے کے لیے کوئی کوشش کر رہی ہے؟ ابھی تک تو وہ باوجود وفاق سے تعاون کے وہ اپنے سیل شدہ دفاتر تک واپس نہ لے سکی۔
ایم کیو ایم سے وابستہ افراد آج بھی پرامید ہیں کہ شاید حالات (سندھ اور مرکز میں حکمرانوں کی بے عملی کے باعث) دوبارہ ان کے حق میں پلٹ جائیں، شاید انھیں اندازہ نہیں کہ مرکز میں اتحاد اور وزارتوں کا حصول اس کے باوجود بھی ان کا فعال نہ ہونا کراچی والوں کے لیے کچھ نہ کرنا اور حکمرانوں سے بھی کچھ نہ کروانا، ان کے حق میں نہیں، ان کے خلاف لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر رہا ہے، اس کے باوجود عوام میں آج بھی ایسے لوگ خاصی تعداد میں ہیں جو ایم کیو ایم کو دوبارہ منظم اور فعال دیکھنا چاہتے ہیں،
بانی متحدہ کے رویے کے باعث جو الزامات دوسری سیاسی جماعتیں ان پر عائد کرتی تھیں اب تو ان کے 'حکم'' سے ایم کیو ایم پاکستان ''اظہار برأت'' کر چکی ہے اور جمہوری رویے پر گامزن ہونے کا بھی ذکر کرتی رہی ہے مگر کارکردگی منفی نہیں تو مثبت بھی نہیں ہے۔
وہ لوگ کف افسوس مل رہے ہیں جنھوں نے اس جماعت کی خاطر اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا۔ اب بھی وہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک فعال اور عوامی مفاد کے لیے بلا امتیاز جدوجہد کرے اور دوبارہ سیاسی افق پر بھرپور عوامی طاقت بن کر ابھرے جس طرح ماضی میں کراچی کے عوام ان کا ساتھ دے رہے تھے وہ ''بھائی'' کا خوف نہ تھا بلکہ ان کا جوش اور مستقبل سے ان کی امیدیں تھیں ''بھائی'' کے خوف میں مبتلا تو پارٹی عہدوں پر فائز وہ لوگ تھے جو ''جی بھائی جی بھائی'' کے علاوہ اور کچھ کہہ ہی نہیں سکتے تھے بعد میں چینلز پر ان کی ''بکواس'' کو نئے معنی و مطالب اور دوسرے تناظر میں پیش کرتے تھے مگر بھائی کے بے ربط بیانات ''جلتی پر تیل'' کا کردار ادا کرتے رہتے اور شہر کا امن تباہ ہوتا رہتا۔ بھائی کے بغیر یہ پارٹی بہترین عوامی پارٹی کے طور پر سامنے آ سکتی تھی اگر ذرا بھی سمجھداری اور عقل مندی سے کام لیا جاتا، فرد واحد کی عقل جو گل کھلا رہی تھی۔
اس سے تو نجات مل ہی چکی تھی مگر یہ پارٹی تو اندر کی شکست و ریخت نے ڈوبی، وجہ یہ تھی کہ ہر فرد اپنے آپ کو ''بھائی'' کے بعد نمبر ون سمجھ رہا تھا اپنے پارٹی ایجنڈے سے شاید کوئی بھی مخلص نہ تھا، اگر پارٹی میں لیڈر شپ کا بحران نہ ہوتا تو صورتحال کو باآسانی سنبھالا جا سکتا تھا اور پی ٹی آئی کے اتنے اراکین سندھ اسمبلی میں نہ پہنچ پاتے، اگر ایم کیو ایم کو (اپنی بدنظمی کے باعث) یہ نشستیں نہ سہی پی پی کو تو مل سکتی تھیں پی ٹی آئی کا کراچی میں کردار ہی کیا تھا؟
مگر ان کو نہ ملنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پی پی نے بھی کراچی کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا تب ہی تو اپنی پکی نشستوں سے بھی محروم ہوئے۔ اگر سندھ میں اردو بولنے والوں اور سندھی عوام کو آپس میں جوڑنے کی مخلصانہ کوشش کی جاتی تو یہ پاکستان کا سب سے مثالی و ترقی یافتہ صوبہ ہوتا، مگر یہ ملک جو لاکھوں جانوں کے نذرانے اور ایک بڑی معاشرتی اتھل پتھل کے بعد حاصل ہوا۔
کراچی کے مسائل کا حل تو بعد میں اس کا تو ذکر کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں، ملک کا وہ شہر جو کبھی بین الاقوامی مقام رکھتا تھا ہر لحاظ سے برباد ہو چکا ہے کسی کو فکر نہیں، کراچی سے فائدہ اٹھانے کو سب ہیں مگر اس کے مسائل حل کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ اس کا ذمے دار ہم کس کو قرار دیں، سیاستدانوں کو، سندھ حکومت کو یا وفاق کو۔ سیاسی فوائد کی خاطر اس کے افراد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں مبتلا ذرا دیر کو اپنے مفاد صوبے (کراچی) کی بہتری کی خاطر پس پشت نہیں ڈال سکتے؟
ملکی ترقی ہر شہر، ہر علاقے کی ترقی و خوشحالی سے ہوتی ہے کسی خاص صوبے یا شہر سے نہیں۔ پھر کراچی جیسے اہم شہر کو ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف دھکیلنے کا کیا مطلب، آخر کیوں سب مل کر اس شہر کو نظرانداز کر رہے ہیں؟ ہمیں بھارت، افغانستان کے معاملات کی تو بڑی فکر ہے مگر نہیں ہے تو کراچی کی فکر نہیں، آخر کیوں؟ یہ سوال اگرچہ ہر صاحب عقل، عہدہ و مقام سے ہے مگر سب سے پہلے اس کا جواب ایم کیو ایم دے۔