جہاں گشت
نادان سمجھتا ہے سب کچھ ہمارا ہے، تیرا تو جسم بھی تیرا نہیں تو پھر اس کی پرورش کا سامان کہاں سے تیرا ہے
قسط نمبر74
فقیر، لوہار بابا کے سنگ جیون رس پیتا رہا اور جیتا رہا اور ایسا رس کہ اس کا ذائقہ بیان نہیں کیا جاسکتا جی! کیا آپ جیسا دانا عالم فقیر کو آب جو حیات ہے، کا ذائقہ بتا سکتا ہے ۔۔۔۔ ؟ واہ کیا بات تھی ان کی! ایک ہی کام تھا اُن کا کہ سخی تھے اور فرماتے اپنا سب کچھ خلق کا سمجھو، تمہارا کہاں سے آگیا جی، سب کچھ رب تعالٰی کا ہے جی، ہاں یہ جو آپ کے ہاتھ پاؤں آنکھ ناک غرض پورا جسم ہے، کیا تمہارا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ جی ہمارا ہے تو کیا پھر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ آپ نے کہاں سے اور کتنے کا خریدا ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں تمہارا، اصل تو یہ ہے کہ قلاش ہو تم، کچھ نہیں تمہارا، یہ جو بہ قول تمہارے ہاتھ پاؤں آنکھ کان جو ہیں یہ تو تمہارے خلاف رب کے حضور تمہارے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔
نادان سمجھتا ہے یہ سب کچھ ہمارا ہے، تیرا تو جسم بھی تیرا نہیں تو پھر اس کی پرورش کا سامان کہاں سے تیرا ہے۔ تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دور کرو اور اسے سکھ پہنچاؤ۔ اپنی محبّت کو تقسیم کرو، ایثار بانٹو، سکھ پھیلاؤ، اجالا کرو اور کسی سے بھی کوئی توقع مت رکھو، اس کے اعمال سے بھی کہ تم کوئی کوتوال مقرر نہیں کیے گئے، اسے جس نے بنایا ہے وہ وہی اس سے پوچھ سکتا ہے، اسے سزا دے سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔
اس لیے کہ وہی ہے اس کا خالق، اسے ہی زیبا ہے کہ وہ اپنے بندے کے ساتھ کیا برتاؤ کرے، تم کہاں سے آگئے اس سے بازپرس کرنے والے، ہاں ایک عادل نظام میں وہ لوگ اس سے ضرور پوچھ سکتے ہیں جو اس کام پر مقرر کیے گئے ہوں کہ نظام زندگی میں خلل واقع نہ ہو، اور کسی کو تو کوئی اختیار ہی نہیں کہ وہ خود ہی محتسب و منصف بن جائے، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس آسانیاں تقسیم کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ تمہارا کام ہی یہی ہے۔ ہاں پسے ہوئے مقہور، ستم رسیدہ و مفلوک الحال انسانوں کے ساتھ کھڑے رہو، کہ وہ انسان ہوتے ہوئے غلام بنا لیے گئے ہیں، انہیں غلامی و مفلسی سے باہر نکالنے کی جہد کرو کہ یہی ہے شرف انسان، کوئی بڑا کیسے ہوسکتا ہے، کوئی اعلٰی و ارفع کیسے ہوسکتا ہے، رنگ و نسل ہو یا مال و اسباب کوئی امتیاز نہیں ہے یہ کہ وہ اعلٰی ہے، نہیں وہ اک انسان ہے بس جیسے سب انسان ہیں اور اگر کوئی افتخار ہے تو بس یہ کہ وہ اپنے خالق سے کتنا جُڑا ہوا اور اس کی مخلوق کے لیے کتنا نافع ہے۔ تو بس انسان بنو خدا نہیں کہ وہ تم کبھی بن ہی نہیں سکتے۔ کبھی بھی نہیں۔
فقیر نے اپنے لوہار بابا کو ایسا ہی پایا کہ خلق خدا کے لیے جیتے اور ان کے دکھ کو سکھ میں بدلنے کی ہر ممکن سعی کرتے۔ جلال ایسا کہ کوئی جابر و ظالم و استحصالی ان کی تاب ہی نہیں لا سکتا تھا اور ریشم ایسے کہ مفلسین و مقہورین عام انسانوں کو سینے سے لگائے ہوئے ان کی معصوم بچوں کی طرح نگہہ داشت کرنے والے، ہمارے لوہار بابا۔ کسب حلال رزق کو لقمہ بنائے ہوئے اور اپنے لقمے سے خلق کو کھلانے والے۔ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کو شرف انسانیت کی تحقیر اور خدا کی توہین قرار دینے والے اور کوئی ان کے سامنے دست سوال دراز کرے تو اسے نواز دینے والے۔ دیکھیے کیا یاد آگیا کہ اک راضی بہ رضائے الہی تھے۔
ایک دن وہ اپنے احباب کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکر اپنی حاجت بیان کی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، گھر میں جو کچھ تھا اس کے سامنے لا رکھ چھوڑا۔ وہ سوالی جب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا تو اشک بار ہوئے اور ایسے کہ مت پوچھیے۔ احباب نے کہا ایک سوالی نے آکر سوال کیا اور آپ نے اسی وقت کوئی سوال کیے بنا ہی اس کی حاجت کو پورا فرما دیا تو اب کیوں اشک بار ہیں۔ تو فرمایا: اس لیے اشک بار ہوں کہ میں کتنا بے خبر ہوں کہ میری بے خبری نے اسے میرے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت پر مجبور کیا، مجھے اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی حاجت روائی کرنا چاہیے تھی، وہ میری کوتاہی سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا اب میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا ۔۔۔۔۔۔ ؟
کچھ سمجھ میں آیا آپ کو۔ اگر آگیا ہے تو مبارک! اب آپ بھی جیون کے اصل رس کا ذائقہ جان چکے ہیں تو بس اب کوئی آپ سے یہ چھین نہیں سکتا، پیتے چلے جائیے اور جیتے چلے جائیے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اب آپ جوہر ہستی سے آشنا ہوچکے ہیں اور نوید ہو کہ جوہر ہستی کبھی بھی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔
اس کمّی کمین، نااہل، بے علم اور آوارہ فقیر کو رب تعالٰی نے اپنے کیسے کیسے نایاب بندوں کی صحبت سے نوازا، حمد ہے بس اسی کی۔ ایک اور تھے جو مذہباً ہندو تھے، نام تھا ان کا ہَرجی، لیکن فقیر انہیں آج بھی ہَِرجی باپُو پکارتا ہے۔ جانتے ہیں ناں آپ باپُو، باپ کو کہتے ہیں۔ رب تعالٰی نے چاہا تو کسی اور وقت ان کا بھی احوال گوش گزار کرے گا فقیر، سردست تو بس ایک یاد پر اکتفا کیجیے۔
باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ وہ پہلے ایک وکیل کے پاس منشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
ایک دن فقیر نے پوچھا: باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ ۔۔۔ !
مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا، میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
کیا جو کھائے پیے اور جیے بس وہ انسان ہوتا ہے؟ فقیر نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔ اور پھر دانش برسنے لگی اور کہنے لگے: دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔
دوسرے کا دُکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سُکھی رہیں۔ دُکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے، سب نہال رہیں۔ انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے! وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
کیوں ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا۔
اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
کون سی بات باپُو؟ فقیر نے دریافت کیا۔
وہی دانے اور چونچ والی۔
ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے: ''جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔''
دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکّل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پَر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔
اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے سوال اٹھایا۔
یہ تجھے کیا ہوگیا ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتّا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔ انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، محبت ہی محبت وہ سب کو دیتا ہے۔
لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا ناں۔۔۔۔۔! فقیر نے جاننا چاہا۔
پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ! تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا ؟ باپُو نے پوچھا تو فقیر نے کہا:
رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
''ہاں ہاں وہی۔''
باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ''سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔''
دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبّت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ عام لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا...؟
نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے!
کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے، دکھتا تو انسان جیسا ہی ہے۔
تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنا چاہیے: ''اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔''
مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو فقیر کو بھی سمجھائیے۔
سوائے زر نہیں کچھ بھی امیرِ شہر کے پاس
کوئی اب اس سے زیادہ غریب کیا ہوگا
فقیر، لوہار بابا کے سنگ جیون رس پیتا رہا اور جیتا رہا اور ایسا رس کہ اس کا ذائقہ بیان نہیں کیا جاسکتا جی! کیا آپ جیسا دانا عالم فقیر کو آب جو حیات ہے، کا ذائقہ بتا سکتا ہے ۔۔۔۔ ؟ واہ کیا بات تھی ان کی! ایک ہی کام تھا اُن کا کہ سخی تھے اور فرماتے اپنا سب کچھ خلق کا سمجھو، تمہارا کہاں سے آگیا جی، سب کچھ رب تعالٰی کا ہے جی، ہاں یہ جو آپ کے ہاتھ پاؤں آنکھ ناک غرض پورا جسم ہے، کیا تمہارا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ جی ہمارا ہے تو کیا پھر آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ آپ نے کہاں سے اور کتنے کا خریدا ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں تمہارا، اصل تو یہ ہے کہ قلاش ہو تم، کچھ نہیں تمہارا، یہ جو بہ قول تمہارے ہاتھ پاؤں آنکھ کان جو ہیں یہ تو تمہارے خلاف رب کے حضور تمہارے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔
نادان سمجھتا ہے یہ سب کچھ ہمارا ہے، تیرا تو جسم بھی تیرا نہیں تو پھر اس کی پرورش کا سامان کہاں سے تیرا ہے۔ تو بس سب کچھ رب کا ہے تو جو رب کا ہے تو بس پھر مخلوق کا ہُوا، تم تو بس تقسیم کار بنو، دیتے جاؤ خلق خدا میں بانٹتے رہو، خلق کو جوڑو اور اپنا مال و اسباب ان میں تقسیم در تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاؤ۔ بانٹتے جاؤ اور بانٹتے ہی چلے جاؤ، اور اپنوں میں ہی نہیں سب میں، کوئی سروکار ہی نہیں کہ کون کیا ہے، اس کا مذہب و عقیدہ کیا ہے، جنس و ذات کیا ہے، قوم قبیلہ کیا ہے، نہیں، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس اسے انسان سمجھو اس کی تکریم کرو، اس کا بھلا چاہو، اس کی تکالیف کو دور کرو اور اسے سکھ پہنچاؤ۔ اپنی محبّت کو تقسیم کرو، ایثار بانٹو، سکھ پھیلاؤ، اجالا کرو اور کسی سے بھی کوئی توقع مت رکھو، اس کے اعمال سے بھی کہ تم کوئی کوتوال مقرر نہیں کیے گئے، اسے جس نے بنایا ہے وہ وہی اس سے پوچھ سکتا ہے، اسے سزا دے سکتا ہے، اور یہ بھی کہ اسے معاف بھی کرسکتا ہے۔
اس لیے کہ وہی ہے اس کا خالق، اسے ہی زیبا ہے کہ وہ اپنے بندے کے ساتھ کیا برتاؤ کرے، تم کہاں سے آگئے اس سے بازپرس کرنے والے، ہاں ایک عادل نظام میں وہ لوگ اس سے ضرور پوچھ سکتے ہیں جو اس کام پر مقرر کیے گئے ہوں کہ نظام زندگی میں خلل واقع نہ ہو، اور کسی کو تو کوئی اختیار ہی نہیں کہ وہ خود ہی محتسب و منصف بن جائے، نہیں بالکل بھی نہیں۔ بس آسانیاں تقسیم کرو اور کرتے چلے جاؤ کہ تمہارا کام ہی یہی ہے۔ ہاں پسے ہوئے مقہور، ستم رسیدہ و مفلوک الحال انسانوں کے ساتھ کھڑے رہو، کہ وہ انسان ہوتے ہوئے غلام بنا لیے گئے ہیں، انہیں غلامی و مفلسی سے باہر نکالنے کی جہد کرو کہ یہی ہے شرف انسان، کوئی بڑا کیسے ہوسکتا ہے، کوئی اعلٰی و ارفع کیسے ہوسکتا ہے، رنگ و نسل ہو یا مال و اسباب کوئی امتیاز نہیں ہے یہ کہ وہ اعلٰی ہے، نہیں وہ اک انسان ہے بس جیسے سب انسان ہیں اور اگر کوئی افتخار ہے تو بس یہ کہ وہ اپنے خالق سے کتنا جُڑا ہوا اور اس کی مخلوق کے لیے کتنا نافع ہے۔ تو بس انسان بنو خدا نہیں کہ وہ تم کبھی بن ہی نہیں سکتے۔ کبھی بھی نہیں۔
فقیر نے اپنے لوہار بابا کو ایسا ہی پایا کہ خلق خدا کے لیے جیتے اور ان کے دکھ کو سکھ میں بدلنے کی ہر ممکن سعی کرتے۔ جلال ایسا کہ کوئی جابر و ظالم و استحصالی ان کی تاب ہی نہیں لا سکتا تھا اور ریشم ایسے کہ مفلسین و مقہورین عام انسانوں کو سینے سے لگائے ہوئے ان کی معصوم بچوں کی طرح نگہہ داشت کرنے والے، ہمارے لوہار بابا۔ کسب حلال رزق کو لقمہ بنائے ہوئے اور اپنے لقمے سے خلق کو کھلانے والے۔ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کو شرف انسانیت کی تحقیر اور خدا کی توہین قرار دینے والے اور کوئی ان کے سامنے دست سوال دراز کرے تو اسے نواز دینے والے۔ دیکھیے کیا یاد آگیا کہ اک راضی بہ رضائے الہی تھے۔
ایک دن وہ اپنے احباب کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص نے آکر اپنی حاجت بیان کی تو فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، گھر میں جو کچھ تھا اس کے سامنے لا رکھ چھوڑا۔ وہ سوالی جب وہ سب کچھ لے کر چلا گیا تو اشک بار ہوئے اور ایسے کہ مت پوچھیے۔ احباب نے کہا ایک سوالی نے آکر سوال کیا اور آپ نے اسی وقت کوئی سوال کیے بنا ہی اس کی حاجت کو پورا فرما دیا تو اب کیوں اشک بار ہیں۔ تو فرمایا: اس لیے اشک بار ہوں کہ میں کتنا بے خبر ہوں کہ میری بے خبری نے اسے میرے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت پر مجبور کیا، مجھے اس کے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی حاجت روائی کرنا چاہیے تھی، وہ میری کوتاہی سے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوگیا اب میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا ۔۔۔۔۔۔ ؟
کچھ سمجھ میں آیا آپ کو۔ اگر آگیا ہے تو مبارک! اب آپ بھی جیون کے اصل رس کا ذائقہ جان چکے ہیں تو بس اب کوئی آپ سے یہ چھین نہیں سکتا، پیتے چلے جائیے اور جیتے چلے جائیے۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اب آپ جوہر ہستی سے آشنا ہوچکے ہیں اور نوید ہو کہ جوہر ہستی کبھی بھی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔
اس کمّی کمین، نااہل، بے علم اور آوارہ فقیر کو رب تعالٰی نے اپنے کیسے کیسے نایاب بندوں کی صحبت سے نوازا، حمد ہے بس اسی کی۔ ایک اور تھے جو مذہباً ہندو تھے، نام تھا ان کا ہَرجی، لیکن فقیر انہیں آج بھی ہَِرجی باپُو پکارتا ہے۔ جانتے ہیں ناں آپ باپُو، باپ کو کہتے ہیں۔ رب تعالٰی نے چاہا تو کسی اور وقت ان کا بھی احوال گوش گزار کرے گا فقیر، سردست تو بس ایک یاد پر اکتفا کیجیے۔
باپُو باتیں بہت مزے کی کرتے ہیں۔ سادہ اور دل نشیں۔ وہ پہلے ایک وکیل کے پاس منشی ہوا کرتے تھے، پھر کسی کمپنی میں بھرتی ہوگئے اور پھر ریٹائر، اس کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ کہیں سے ٹائروں کی مرمت کا کام سیکھ لیا اور اب تک یہی کر رہے ہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا ان کی شادیاں کیں لیکن کسی کے دست نگر نہیں رہے۔ آزاد منش اور درویش۔ لیاری کی ایک خستہ حال سڑک پر اپنی دکان سجا لیتے ہیں۔ سیدھا سادہ سا لباس پہنتے ہیں، بہت کم خوراک، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے باپُو بغیر کھائے پیے زندہ ہیں۔
ایک دن فقیر نے پوچھا: باپُو کچھ کھاتے پیتے بھی ہیں آپ ۔۔۔ !
مسکرائے اور کہنے لگے، تُو کیا سمجھتا ہے، میں فرشتہ ہوں کیا، میں انسان ہوں، انسان، کھاتا پیتا جیتا جاگتا۔
کیا جو کھائے پیے اور جیے بس وہ انسان ہوتا ہے؟ فقیر نے پوچھا۔ اب تُو دوسری طرف جارہا ہے، سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ آؤ باپُو بات کریں۔ اور پھر دانش برسنے لگی اور کہنے لگے: دیکھ کھاتے پیتے تو جانور بھی ہیں۔ لیکن انسان دوسروں کو اپنے کھانے پینے اور جینے میں شریک کرتا ہے۔
دوسرے کا دُکھ درد اپنا سمجھ کر محسوس کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے زندگی کے چار دن سب ہنس کھیل کر گزار دیں۔ سب سُکھی رہیں۔ دُکھ درد ختم ہوں، راحت اور آرام آئے، سب نہال رہیں۔ انسان کا وجود انسانوں کے لیے نہیں جانوروں کے لیے، پرندوں کے لیے حتیٰ کہ درختوں اور زمین کے کیڑے مکوڑوں کے لیے بھی باعث رحمت ہوتا ہے۔ ارے پگلے! وہ ہوتا ہے انسان، زمین پر اتارا گیا انسان۔ دریا دل اور سخی، بس اس کی گدڑی میں لعل ہی لعل ہوتے ہیں۔ بانٹتا چلا جاتا ہے اور دیکھ جو بانٹتا ہے اس کے پاس کبھی کم نہیں ہوتا۔
کیوں ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے پوچھا۔
اس لیے کہ کائنات کا خالق بھی یہی کرتا ہے۔ خزانے لٹاتا رہتا ہے۔ ہر ایک کو دیتا ہے۔ ہر ایک کی ضرورت پوری کرتا ہے جب انسان یہ کرنے لگے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ وہ اپنے پیسے پر، اپنی لیاقت پر، اپنی ذہانت پر، اپنی طاقت پر بھروسا نہیں کرتا، وہ تو بس اپنے رب پر بھروسا کرتا ہے، وہ تیرا مکرانی دوست کیا اچھی بات کہتا ہے۔
کون سی بات باپُو؟ فقیر نے دریافت کیا۔
وہی دانے اور چونچ والی۔
ہاں ہاں یاد آیا مجھے، داد محمد جسے ہم سب پیار سے دادُو کہتے ہیں، کہتا ہے: ''جس مالک نے چونچ دیا ہے وہ دانہ بھی دیں گا، ورنہ اپنا دیا ہوا چونچ بھی واپس لے لیں گا نیں، جس دن دانا ختم تو چونچ بھی واپس۔''
دیکھ کیسی اچھی بات کہتا ہے وہ۔ اپنے رب پر بھروسا اسے ہی کہتے ہیں، مولا پر توکّل کہ ملے گا ضرور ملے گا، دیر تو ہوگی، پَر ملے گا ضرور۔ کیوں نہیں ملے گا وہ تو سارے جہانوں کی ساری مخلوق کو پالتا ہے۔ تجھ سے کیا دشمنی ہے اس کی، اس کی تو سب سے دوستی ہے، سب کو دیتا ہے، دے گا۔ تو انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے پالن ہار کی صفات اپنائے، سخی ہو، رحم دل ہو، معاف کردیتا ہو، سب کے لیے اچھا چاہے، کوئی بھی ہو، کہیں کا بھی ہو، کسی بھی مذہب کا ہو، برائی کے پاس نہ جائے اور بُرے کو بھی سینے سے لگائے، اسے سمجھائے، دیکھ تُو اچھا ہے، تیرا فعل اچھا نہیں ہے۔ چھوڑ دے اسے، نیکی کر اچھائی پھیلا، خوشیاں بانٹ۔
اور باپُو اگر کسی کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو ۔۔۔۔ ؟ فقیر نے سوال اٹھایا۔
یہ تجھے کیا ہوگیا ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان ہو اور اس کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو۔ چڑیا کے پاس چہچہانا ہے، چہچہاتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، کتّا انسان کی رکھوالی کرتا ہے، بکری، گائے، بھینس دودھ دیتی ہے تو دنیا جہاں کی نعمتیں بنتی ہیں۔ درخت سایہ دیتا ہے، پھل دیتا ہے اور پھر اس کی لکڑی سے دنیا جہاں کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے، اب تُو جس جس چیز کے بارے میں سوچتا چلا جائے گا اس کی سخاوت تیرے سامنے آتی چلی جائے گی۔ انسان تو مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کا وجود کائنات کی ساری مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ رحمت ہی رحمت، چاہت ہی چاہت، محبت ہی محبت وہ سب کو دیتا ہے۔
لیکن باپُو اس کے پاس کچھ ہوگا تو دے گا ناں۔۔۔۔۔! فقیر نے جاننا چاہا۔
پھر ناسمجھی والی بات۔ ارے ناسمجھ! تُو کیا سمجھتا ہے۔ دولت، پیسا، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ نہیں۔ ہر چیز تو پیسے سے نہیں خریدی جاسکتی، تجھے یاد ہے وہ ایک ملنگ ہوتا تھا چاکی واڑہ میں، کیا نام تھا اس کا ؟ باپُو نے پوچھا تو فقیر نے کہا:
رحمو نام تھا اس کا باپُو، وہ جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔
''ہاں ہاں وہی۔''
باپُو، وہ بس ایک ہی بات کرتا تھا۔ ''سُکھ چین بنو، سُکھ چین بنو۔''
دیکھ کیسی اچھی بات کرتا تھا وہ کہ سُکھ چین بنو، لوگوں کے لیے سُکھ چین بنو، تمہیں دیکھ کر دوسرے خوش ہوں۔ گڑ نہ دو تو گڑ جیسی بات کرو۔ نفرت کے سامنے محبّت بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ عام لوگوں میں جیو، انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑو۔ بس یہ ہوتا ہے انسان۔
اور باپُو یہ جو ہر جگہ انسان انسان کو مارتا پھرتا ہے، وہ انسان نہیں ہوتا کیا...؟
نہیں، بالکل نہیں۔ وہ کہاں سے انسان ہے چریے!
کیوں باپُو؟ انسان ہی تو ہوتا ہے، دکھتا تو انسان جیسا ہی ہے۔
تُو بہت نادان ہے، اتنی سی بات تیرے پلّے نہیں پڑ رہی۔ جو انسان دوسروں کو دکھ دے، قتل کردے، ان کی خوشیاں چھین لے، مسکراہٹیں چھین کر لوگوں میں رونا بانٹے، لوگوں کے لیے روگ بن جائے وہ انسان نہیں رہتا، انسانی روپ میں چلتی پھرتی مصیبت بن جاتا ہے اور مصیبت سے چھٹکارے کے لیے دعا کرنا چاہیے: ''اے میرے مولا اپنی امانت واپس لے لے۔''
مجھے تو باپُو کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ کو سمجھ میں آگئی ہے تو فقیر کو بھی سمجھائیے۔
سوائے زر نہیں کچھ بھی امیرِ شہر کے پاس
کوئی اب اس سے زیادہ غریب کیا ہوگا