کیا تیسری عالمی جنگ کے امکانات موجود ہیں

ایران کے جوابی اقدام سے ہی تیسری عالمی جنگ کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوگا


اعزاز کیانی January 10, 2020
ایران امریکا تنازعہ کیا تیسری عالمی جنگ کا محرک بنے گا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس وقت پوری دنیا تیسری عالمی جنگ کے امکانات پر نہ صرف فکرمند ہے بلکہ مبتلائےتشویش ہے۔ تیسری عالمی جنگ کے خدشات امریکا کےایک انتہائی اقدام کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کے براہ راست حکم پر عراق میں موجود ایران کی دوسری بااثر ترین شخصیت قاسم سلیمانی کو ایک ڈرون حملے میں قتل کردیا گیا ہے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ امریکی صدر نے اس فیصلے پر کتنا غوروخوض کیا۔ لیکن یہ ایک ریاست کی جانب سے کسی دوسری ریاست کے خلاف اٹھایا جانے والا اتنا بڑا قدم ہے جس پر ایک آزاد و خودمختار ریاست کی جانب سے ردِعمل دینا اس ریاست کی آزادی و تشخص اور اس قوم کی غیرت کا لازمی تقاضا ہے۔ چنانچہ اقوام کی اسی فطرت کے ماتحت ایران نے حملے کے فوراً بعد کڑا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس امریکی حملے اور اس پر ایرانی جواب ہی نے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خدشات پر بحث کرنے پر مجبور کیا ہے۔

تیسری عالمی جنگ کے ممکنہ خدشات پر بحث سے پہلے لازم ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ امریکا کا یہ اقدام کس قدر درست یا نا درست ہے۔

ایسے کسی بھی واقعے پر تبصرہ کرتے وقت سب سے پہلے بین الاقوامی قوانین زیر بحث آتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کی ماہر اور قانون کی پروفسر میری ایلین اوکونیل کے نزدیک: ''پیشگی دفاع کبھی بھی کسی کی ہلاکت کا قانونی جواز نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا کوئی بھی جواز نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے متعلقہ قانون اقوامِ متحدہ کا چارٹر ہے، جس کے نزدیک کسی حقیقی مسلح حملے پر ردِعمل دینے کا حق ہی اپنا دفاع کہلا سکتا ہے۔''

امریکی صدر نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو خطے میں ایرانی عمل دخل کو ختم کرنے کی جانب ایک قدم قرار دیا ہے۔ امریکہ کا حالیہ اقدام گزشتہ ماہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کی طرف سے امریکی کنٹریکٹر کو عراق میں قتل کرنے اور عراق میں امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

اگر اس وقت عالمی منظر پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی جانب سے پڑوسی ممالک میں سیاسی و عسکری مداخلت کوئی ایسا اقدام نہیں جس سے دنیا اس سے پہلے ناواقف تھی، بلکہ امریکہ، ایران اور روس تینوں اسی روش پر عمل پیرا ہیں اور لیبیا، شام، عراق اور افغانستان وغیرہ میں سیاسی و عسکری طور پر اثر انداز ہورہے ہیں۔

امریکا کا یہ اقدام اپنا تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انقلابِ ایران سے لے کر آج تک ایران اور امریکا کے مابین تعلقات کبھی بھی اچھے نہیں رہے بلکہ ان تعلقات میں ہمیشہ تناؤ ہی رہا ہے۔ امریکا اور ایران کے مابین ایک طویل مدت تک ایران کا جوہری پروگرام وجہ نزاع بنارہا ہے اور ایران کو اس مدت کے دوران بے شمار پابندیوں کا سامنا رہا۔ چند سال پہلے ایران اور مغربی طاقتوں بشمول امریکا نے ایک جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے جس سے تعلقات کے معمول پر آنے کے امکانات پیدا ہوئے تھے، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ اس معاہدے کو منسوخ کرکے حالات کو مزید کشیدہ کردیا تھا۔ امریکا کا حالیہ اقدام دراصل اسی تاریخی تسلسل کی ایک کڑی ہے۔ امریکا اس طرح کے اقدام سے دراصل ایران پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے تاکہ وہ ایران کو بھی اپنےتابع کرسکے۔

اس بنیادی سوال کے بعد دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران اس امریکی اقدام کا بدلہ کس طرح سے لے گا اور یہ بدلہ کس نوعیت کا ہوگا۔ ایران کے جوابی اقدام سے ہی تیسری عالمی جنگ کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہوگا۔ میری ذاتی رائے میں ایران اگرچہ بدلہ ضرور لے گا لیکن یہ بدلہ اس شدت کا نہیں ہوگا کہ اس سے تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکے۔

ایران بہ نسبت امریکا کے معاشی و دفاعی طور پر ایک کمزور ملک ہے۔ امریکا نہ صرف جدید ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ کھربوں روپے اسلحہ و دفاع پر خرچ کرتا ہے اور ایک جوہری قوت بھی ہے۔ ایران کی فضائیہ بھی نسبتاً کمزور ہے، میزائل نظام بھی مختصر اور درمیانی فاصلے تک نشانہ بنانے والے میزائلوں پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس امریکی صدر نے اپنی حالیہ ٹویٹ میں ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''امریکا نے حال ہی میں دو ٹریلین ڈالر جنگی آلات پر خرچ کیے ہیں اور اگر ایران نے کسی حملے کی جسارت کی تو ہم ان میں سے کچھ کو ایران بھیجنے پر ذرا بھی نہیں ہچکچائیں گے۔''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تیسری عالمی جنگ کے خطرات موجود ہیں؟ میرے نزدیک تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ایک امکانی خطرہ ہے۔ ایسے ہی ایک خدشے کا اظہار اس وقت بھی کیا جارہا تھا جب کوریا اور امریکا کے مابین بھی جوہری پروگرام پر حالات کشیدہ ہوگئے تھے۔ اب دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہوچکی ہے اور دنیا کا مجموعی ماحول یکسر بدل چکا ہے۔ اس نئے ماحول میں کسی عالمی جنگ کا وقوع ہونا ایک مشکل امر ہے۔ ماضی کے برعکس اب بڑی قوتیں کسی ایک ریاست کا اتحادی بننے کے بجائے جنگ بندی اور قیامِ امن کےلیے کوشاں ہیں۔ عالمی سطح پر اس وسیع پیمانے پر قانون سازی ہوچکی ہے کہ کسی بھی ریاست کےلیے یک جنبش نظر و قلم ان قوانین کی خلاف ورزی کرنا اب ممکن نہیں رہا۔

امریکا ایران تنازع میں بھی میرے نزدیک سوائے اسرائیل (ممکنہ طور پر) کوئی تیسرا ملک سامنے آکر اس جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ کسی بھی ملک کی جانب سے جنگ کے آغاز پر اندرونی مخالفت ایک حقیقت بن چکی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قاسم سلیمانی کے قتل اور امریکی صدر کی جانب سے ایران کے 52 مقامات کو نشانہ بنانے کے بیان پر خود امریکا ہی میں ایک جاندار اور قوی مخالفت پیدا ہوچکی ہے اور امریکی صدر کے اس بیان اور اقدام کی مذمت کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان کو 1954 اور 1976 کے تقافتی تحفظ کے حوالے سے موجود کنونشنز کی خلاف ورزی قرار دیا جارہا ہے۔

اگرچہ تیسری عالمی جنگ تو شاید نہیں ہوگی لیکن ایران کی جانب سے جوابی اقدام ضرور اٹھایا جائے گا۔ جیسا کہ ولیم ٹوبی، ماہر بین الاقوامی امور اور سابق امریکی عہدے دار ( نیشنل نیوکلیئر سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن) کی رائے ہے کہ: ''ہم نے دیکھا ہے کہ تہران حکومت بڑے خطرات مول لیتی ہے اور مجھے خدشہ ہے کہ وہ آگے بھی خطرات مول لینے کے لیے رضامند ہوں گے۔''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے