جنوبی کوریا کے چاند گاؤں

جنگ کے نتیجے میں آباد ہونے والے یہ دیہات آج اپنے حُسن سے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہے ہیں


Mirza Zafar Baig January 12, 2020
جنگ کے نتیجے میں آباد ہونے والے یہ دیہات آج اپنے حُسن سے دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہے ہیں

کوریا میں جب 1953 ء میں طویل جنگ کا اختتام ہوگیا تو وہاں کے پریشان حال اور ہر طرح کی سہولت سے محروم لوگوں اور مہاجرین نے اس مشکل حالت سے نکل کر بڑی تیزی سے ترقی پذیر اور شہری مراکز کی طرف بڑھنا شروع کردیا، تاکہ کسی محفوظ مقام پر پہنچ کر خود بھی رہ سکیں اور اپنے بال بچوں کے لیے بھی کوئی ٹھکانا تلاش کرسکیں۔

ان مہاجرین نے خاص طور سے پہاڑی ڈھلوانوں کو پسند کیا اور ان کی طرف نقل مکانی شروع کردی اور ان مقامات پر اپنے لیے رہنے کی جگہ پسند کرکے وہاں آباد ہوتے چلے گئے۔ یہ بے چارے پس ماندہ اور معاشرے کے ہر سہولت سے محروم افراد جہاں جہاں جاکر آباد ہوئے، ان مقامات کو "moon villages" یا چاند گاؤں کہہ کر پکارا گیا۔

کوریائی زبان میں ان دیہات کو daldongnae کہا جاتا تھا جس کا مطلب تھا: ''بلندی پر آباد لوگ!'' یہ لوگ اتنی زیادہ بلندی پر جاکر آباد ہوگئے تھے جہاں سے وہ خود کو چاند کے زیادہ قریب محسوس کرتے تھے اور چاند کا زیادہ تفصیل کے ساتھ مشاہدہ بھی کرلیا کرتے تھے، شاید اسی وجہ سے ان سب بستیوں کو "moon villages" یا چاند گاؤں کہہ کر پکارا گیا، کیوں کہ وہ سب کے سب چاند سے بہت قریب تھے۔



ان تمام"moon villages" یا چاند گاؤں کو اگر ایک نظر دیکھا جائے تو ان میں پلاننگ یا منصوبہ بندی کی بڑی کمی دکھائی دیتی ہے، یہ بے ترتیب اور بے ہنگم انداز سے بسائے گئے گاؤں ہیں، جن میں سبھی افراد عمودی ڈھلوانوں پر بنائے گئے مکانوں میں رہتے ہیں اور تمام گھر بڑے بے ہنگم طریقے سے بنائے گئے ہیں۔

مکانوں اور بستیوں کے درمیان گلیاں بھی بہت تنگ ہیں اور گھومتی ہوئی ہیں جن میں سے گزرنے اور چلنے کے لیے بہت مختصر جگہیں بنائی گئی ہیں، بعض اوقات تو ان میں سے دو افراد کا ایک ساتھ گزرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور سے جب ان کے ہاتھوں میں سامان ہو یا یہ اپنے ساتھ کچھ لے جارہے ہوں تو یہ جگہ ان کے لیے کسی پل صراط سے کم نہیں ہوتی، مگر چاند گاؤں میں رہنے والے لوگ یہ سب برداشت کرتے ہیں اور ان گاؤں کی تمام مشکلات کو بھی خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔ وہ ان "moon villages" میں بڑی خوشی کے ساتھ رہتے ہیں اور اپنی قسمت پر صابر اور شاکر ہیں اور اسے اپنی قسمت اور نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کیے ہوئے ہیں۔

یہاں تک کو ہم نے ان "moon villages" کے ابتدائی دور کی بات کی جب یہاں جنگ ختم ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں پریشان حال افراد نے نئی زندگی کی تلاش میں بھاگ دوڑ شروع کردی تھی۔ وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا اور ان کے ساتھ ساتھ حالات میں بھی تبدیلی آتی چلی گئی۔



پھر 1980 کی دہائی آئی تو یہاں کے بسنے والے لوگوں میں کچھ شعور اور کچھ آگاہی بیدار ہوئی جس کے نتیجے میں اس عشرے سے لے کر اب تک moon villagesتیزی سے ترقی کے مدارج طے کرنے لگے۔ یہاں دور قدیم کے بنے ہوئے پرانے اور قدیم گھر توڑ ڈالے گئے اور ان کی جگہ نئی، جدید اور فلک بوس بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہوگئیں۔ یہ تمام عمارتیں دور جدید کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی تھیں اور ان میں ہر طرح کی سہولت اور آسانی کا خیال بھی رکھا گیا تھا۔ یہ تمام بلند و بالا عمارتیں ملکی قوانین کے مطابق تعمیر کی گئی تھیں۔

Moon villages کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سب بستیاں اور ان میں بنائے گئے گھر، مکان اور اپارٹمنٹ ہاؤس اسٹریٹ آرٹسٹوں اور muralists کا خصوصی ہدف بن گئے جنھوں نے ان پر اپنی فن کاری کے جوہر دکھائے اور دنیا سے خوب داد سمیٹی۔ ان کی رنگارنگ مہارت نے ان سبھی گھروں کو ایسا سجایا کہ دیکھنے والے بھی حیران رہ گئے۔

اگر آپ کا کبھی جنوبی کوریا جانا ہو اور آپ کا گزر ان Moon villages سے ہو تو آپ کو نہ صرف ان کی رنگین اور آرائشی دیواریں حیران کردیں گی، بلکہ ان کے اطراف لگائے گئے فولادی جنگلے بھی انگشت بدانداں کردیں گے۔ یہ سمجھ لیں کہ کبھی کا غربت کے ہاتھوں ستایا گیا یہ ایریا اس وقت غیرملکی سیاحوں کے لیے خصوصی دل چسپی کا مرکز بن چکا ہے اور یہاں آنے والے غیرملکی مہمان اس کی خوب صورتی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔



ان کے علاوہ بھی اسی قسم کے چاند گاؤں جنوبی کوریا کے دیگر حصوں میں بھی آباد ہیں جن میں سے ایک کا نام ہے:

Gamcheon Culture Village

Gamcheon کلچرل ولیج بھی جنوبی کوریا کا ایک ایسا ثقافتی گاؤں ہے جو بوسن کے نواح میں واقع ہے۔ اس جگہ کے تمام گھر بہت ہی خوب صورتی کے ساتھ اور چمک دار رنگوں سے آراستہ و پیراستہ کیے گئے ہیں۔ یہ سب گھر مختلف رنگوں میں تو اپنی خوب صورتی کی اور بھی بہار دکھاتے ہیں اور دیکھنے والے بار بار مڑ کر انہیں دیکھتے ہیں۔



اس کے علاوہ The Ihwa Mural Village بھی سیؤل میں Naksan Park کے قریب واقع ہے، اس کو 2006 ء میں لگ بھگ 70 آرٹسٹوں نے پینٹنگز میں بھی بدلا تھا اور ایک آرٹ انسٹالیشن کا حصہ بھی بنایا تھا۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ یہ مقامی اور غیرملکی دونوں قسم کے سیاحوں کے لیے سب سے مقبول اور پسندیدہ مقام ہے۔



ایک اور اسی قسم کا پراجیکٹ سیؤل میں واقع ہے جس کا نام ہے :Gaemi Maeul یعنی چیونٹیوں کا گاؤں۔ یہ سیؤل کے شمال میں واقع Inwangsan ضلع کا حصہ ہے اور اس کے علاوہ دو مزید گاؤں بھی ہیں جن کے نام ہیں:

Haenggungdong Mural Village اور Jidong Mural Village n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔