یوکرین کا مسافر بردار طیارہ ایرانی میزائل سے تباہ ہوا امریکا

پینٹاگون اور یوکرین نے کہا ہے کہ ایران کی جانب سے فائر کردہ میزائلوں میں سے ایک 176 مسافروں کی موت کی وجہ بنا

تہران کے نزدیک تباہ ہونے والے طیارے کے ملبے سے لاشیں اٹھائی جارہی ہیں۔ فوٹو: فائل

امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی حدود میں پراسرار انداز سے گر کر تباہ ہونے والا یوکرین ایئرلائن کا مسافر بردار طیارہ خود ایران کے میزائل کا نشانہ بنا ہے۔

اس بات کا دعویٰ پینٹاگون کے ایک دفاعی عہدے دار نے کیا۔ ان کے مطابق ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے جواب میں ایران نے جو میزائل فائر کیے تھے ان میں سے ایک نے بدنصیب طیارے کو مار گرایا جس میں جہاز کے عملے سمیت 176 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

دوسری جانب خود امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی مختلف حوالوں سے بتایا ہے کہ یوکرینیئن انٹرنیشنل ایئرلان کی فلائٹ 752 تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اڑی اور چند منٹوں بعد جب طیارہ فضا میں چند ہزار فٹ کی بلندی پر تھا تو اس کا ایئرپورٹ ٹاور سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔

پینٹاگون کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی میڈیا کو بتایا کہ ان کے انٹیلی جنس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سیٹلائٹ تصاویر میں کئی انفرایڈ جھماکے نوٹ کیے گئے۔ ان سے ظاہر ہوتا ہہے کہ راکٹ یا میزائل فائر کیے گئے ہیں اور یہ کسی دھماکے کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلطی سے کسی ایرانی میزائل نے طیارے کو نشانہ بنایا ہے۔


دوسری حکومتِ ایران اس واقعے سے انکار کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ طیارے کے انجن میں لگنے والی آگ ہی اس سانحے کی وجہ بنی ہے جبکہ اب تک یوکرینی ماہرین کو ایران جاکر جائے وقوع کے معائنے کی اجازت بھی نہیں ملی۔

امریکی ذرائع نے بعض ماہرین کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ کچھ تصاویر میں طیارے کے ملبے کے ساتھ ساتھ روسی ٹور میزائل کے ٹکڑے بھی دیکھے گئے ہیں ۔ یہ میزائل 2007ء میں ایران نے روس سے 29 کی تعداد میں خریدے تھے۔ غالب خیال ہے کہ یوکرینی طیارہ کسی ٹور میزائل کا ہی نشانہ بنا ہے۔

یہ پڑھیں: ایران میں طیارے کی تباہی کی وجہ کوئی حملہ بھی ہوسکتا ہے، یوکرینی حکام

یوکرین کی سیکیورٹی کونسل کے سربراہ اولیکسی ڈینی لوف نے بتایا کہ تمام نظریات میں سب سے مستحکم یہی قیاس ہے کہ طیارہ کسی میزائل حملے کا شکار ہوا ہے۔ ڈینی لوف نے بھی عین یہی کہا کہ طیارے کے ملبے کے پاس میزائل کے بعض ٹکڑے اور آثار بھی ملے ہیں تاہم انہوں ںے یہ نہیں بتایا کہ یہ سب معلومات انہوں نے کس طرح حاصل کیں۔
Load Next Story