امریکا ایران چپقلش
ایرانی انقلاب کے بعد ملک جس راستے پر گامزن ہے اس میں پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن سرے سے ہے ہی نہیں۔
منگل 6جنوری کو جنرل قاسم سلیمانی کو ان کے آبائی شہر کرمان میں آہوں سسکیوں اور رقت آمیز مناظر کے درمیان لحد میں اتارا گیا۔یہ ایک انتہائی غیر معمولی منظر تھا۔ اگلی منگل اور بدھ کی درمیانی رات ایران نے بیس میزائلوں سے عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا البتہ پچاس یا اسی جانی نقصان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
صدر ٹرمپ نے حملے کو مانا لیکن کہا کہ سب اچھا ہے۔ ایرانی حملے کا پسِ منظر کچھ یوں ہے۔ 27 دسمبر 2019 کو عراقی سرزمین پر قائم ایک امریکی فوجی اڈے پر حملے کے نتیجے میں ایک امریکی ٹھیکیدار مارا گیا۔ اس سے پہلے کئی ہفتوں سے عراق کے اندر ہنگامے ہو رہے تھے۔ ہنگاموں نے اتنا زور پکڑا کہ عراقی وزیرِ اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا اب وہ عبوری وزیرِ اعظم ہیں۔ حالات نے یکدم منفی ٹرن لیا اور ایک بہت بڑے گروہ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔
صدر ٹرمپ کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے ایران کو نیچا دکھانے اور اپنے اتحادیوں کو اپنی قوتِ فیصلہ کی داد دینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایرانی جنرل کو نشانہ بنانے کا حکم دے دیا۔ اب امریکی اِنٹیلی جنس اور فوجی قوت حرکت میں آگئی۔امریکی انٹیلی جنس کی کامیابی کو ماننا پڑے گا کہ انھوں نے جنرل سلیمانی کا کھُرا پکڑ لیا۔
یہ 2 اور 3جنوری 2020 کی درمیانی شب تھی جب رات ایک بجے ایک کمرشل طیارہ بغداد ہوائی اڈے پر اترا۔ طیارے سے پاسدارانِ انقلاب ایران کی قدس فورس کے کمانڈرمیجر جنرل قاسم سلیمانی، ان کے داماد اور حزب اﷲ لبنان کے کمانڈرجمال جعفر ابراہیمی اترے۔ ان کمانڈروں کو لینے کے لیے عراق میں شیعہ دستوں کے کمانڈر انجینئر ابو مہدی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے، یہ قافلہ ابھی بغداد ہوائی اڈے سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا اور پلک جھپکتے جنرل سلیمانی، ابو مہدی ، سلیمانی کے داماد اور دوسرے افراد لُقمہء اجل بن گئے۔
جنرل سلیمانی شام میں اپنے اتحادی ہیڈ کوارٹر میں میٹنگ کے بعد بغداد پہنچے تھے جہاں انھیں عبوری عراقی وزیرِ اعظم نے ملنے کی دعوت دی تھی۔ سعودی عرب کی قیادت نے عراقی وزیرِ اعظم کے ذریعے ایرانی قیادت کے لیے ایک پیغام بھیجا تھا جس کا جواب لے کر جنرل سلیمانی عراقی وزیر ِاعظم سے ملنے وہاں پہنچے تھے۔
سلیمانی1998سے قدس فورس کے سربراہ کے طور پر ایران کے ارد گرد خطے کے ممالک میں ایرانی اثر و رسوخ کے نفوذ اور القاعدہ و داعش کے خلاف بر سرِپیکار تھے۔ وہ خطے میں امریکی موجودگی کے بھی خلاف تھے لیکن کہیں کہیں ایران اور امریکا کے مفادات یکجا ہو جاتے تھے جیسے افغانستان ، ایسی جگہوں پر وہ امریکا کے اتحادی کے طور پر اپنا کردار نبھاتے تھے۔ جنرل سلیمانی نے یمن، لبنان، شام ، عراق اور افغانستان میں اپنے اتحادیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ دے کر ایک بہترین فورس میں تبدیل کر دیا تھا۔
اس سلسلے میں اب جو بھی آپریشن ہوتا تھا وہ ایرانی سر زمین سے سیکڑوں کلومیٹر دور ہوتا تھا اور یہی قاسم سلیمانی کی کامیابی تھی۔ انھوں نے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے لیے بھی انھوں نے انتھک محنت کی۔ محبت، خلوص اور اپنے کام سے عشق کی وجہ سے وہ جناب آیت اﷲ خامنہ ای کے بعد سب سے طاقتور شخص بن گئے۔ وہ سپریم لیڈر کو ہی براہِ راست رپورٹ کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی یہ سمجھتے تھے کہ امریکا اور مغربی اقوام ایران کو ٹارگٹ کر کے ایرانی حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سلیمانی کی حکمت عملی کی کامیابی تھی کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت نہایت برے حالات کے باوجود قائم رہی اور آخر کار شام کا بہت بڑا حصہ واپس اسد حکومت کے زیرِ نگین آ گیا۔ اسی طرح لبنان میں حزب اﷲ جناب حسن نصراﷲ کی قیادت میں وہ واحد فورس بنی جس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔ یمن اور عراق میں ایرانی اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا ہے کہ امریکی عراق میں اپنا وجود خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی سفارتخانے پر حملہ اس کی ایک مثال ہے۔
امریکی جنرل اسٹینلے نے ایک موقعے پر کہا ہے کہ جنرل سلیمانی اکیلا ہی بہت خطرناک ہے۔ جو کچھ وہ کر سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ اُس پر ایرانی نیوکلیئرپروگرام کو سپورٹ کرنے کا بہانہ بنا کر 2007سے بین الاقوامی سفر کرنے کی پابندی تھی لیکن وہ اپنے آپ کو چھپانے اور بچانے کے لیے کبھی انڈر گراؤنڈ نہیں گئے۔ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر رہے۔ زمین پر بیٹھ کر کھا لیتے تھے اور چٹائی پر سو جاتے تھے۔
شیکسپیئر نے اپنے مشہورڈرامہ ہیملٹ میں ایک جگہ کہا ہے کہ Hamlet walks in death۔ جنرل سلیمانی بھی اتنے سال موت میں ہی زندہ رہے۔ جنرل سلیمانی کے قتل کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر نے انتہائی رعونت سے کہا کہ انھوں نے اس قتل کا حکم دیا۔ اعلانِ جنگ کے بغیر قاتلانہ حملے کا حکم یہ بتاتا ہے کہ اپنی معیشت اور بے پناہ طاقتور افواج کہ وجہ سے امریکی صدر کسی بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک تجزیئے میں اس کو 2003کے بعد سب سے رسکی قدم قرار دیا ہے۔
پہلی عالمی جنگ بھی کچھ یوں ہی ایک قتل کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ جنرل سلیمانی کی غیر موجودگی کیا ایرانی پالیسی کو تبدیل کر دے گی۔ کیا سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ممالک اپنی اپنی آمریتوں کو بچانے میں آسودگی محسوس کریں گے۔ اس تنازعے کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کے لیے کونسا لائحہء عمل مناسب ہو گا۔
ایرانی انقلاب کے بعد ملک جس راستے پر گامزن ہے اس میں پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن سرے سے ہے ہی نہیں۔ امریکا کبھی ایران کو چھوڑے گا نہیں، ایسے میں لڑائی کو مخالف کیمپ میں لے جانا ہی کامیابی کی کوئی امید لا سکتا ہے۔ عرب ممالک ایران کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لیں تو ٹھیک ورنہ جنرل سلیمانی کی موت سے ان کے خرمن کو آگ تو لگ ہی چکی ہے۔ عراق کے اوپر قبضے کے لیے امریکا نے بڑے جتن کیے لیکن عراقی پارلیمنٹ میں امریکی فوجی انخلا کے بارے میں قرارداد یہ بتا رہی ہے کہ اب عراق میں رہنا مشکل ہے۔ اگر امریکا عراق چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو یہ آسمان کو چھوتی کامیابی ہو گی۔
2020 امریکا میں صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ ٹرمپ شمالی کوریا، شام، عراق، ترکی، ایران، افغانستان کہیں بھی کامیابی نہیں دکھا سکتا۔ اسے impeachment کا بھی سامنا ہے۔ جب کلنٹن کو سامنا تھا تو اس نے بھی عراق پر ہوائی حملوں کا حکم دیا تھا۔ ٹرمپ نے بھی وہی حربہ آزمایا ہے لیکن ایران عراق نہیں ہے۔ ایران نے میزائل حملہ کر کے بظاہر حساب برابر کر دیا ہے اور سپریم لیڈر نے اسے امریکا کے منہ پر طما نچہ قرار دیا ہے۔ امریکا باڈی بیگ یعنی لاشیں وصول کرنے کا عادی نہیں، اگر اس سال باڈی بیگ امریکا گئے تو ٹرمپ کا مستقبل روشن نہیں رہے گا۔
پاکستان کے لیے مشکل صورتحال ہے۔ ایک طرف امریکا، سعودی عرب، امارات کے مفادات ہیں تو دوسری طرف پاکستان کا immediate پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور سب سے پہلا پاکستان کا دورہ بھی ایران سے ہوا تھا۔ پڑو سی تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے کشمیر پر پاکستان اور کشمیریوں کی کھُل کر حمایت کی تھی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو کوئی سائیڈ نہیں لینی چاہیے لیکن یہ کوئی آپشن نہیں، ہمیں کھل کر اپنے پڑوسی کا ساتھ دینا ہو گا۔
صدر ٹرمپ نے حملے کو مانا لیکن کہا کہ سب اچھا ہے۔ ایرانی حملے کا پسِ منظر کچھ یوں ہے۔ 27 دسمبر 2019 کو عراقی سرزمین پر قائم ایک امریکی فوجی اڈے پر حملے کے نتیجے میں ایک امریکی ٹھیکیدار مارا گیا۔ اس سے پہلے کئی ہفتوں سے عراق کے اندر ہنگامے ہو رہے تھے۔ ہنگاموں نے اتنا زور پکڑا کہ عراقی وزیرِ اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا اب وہ عبوری وزیرِ اعظم ہیں۔ حالات نے یکدم منفی ٹرن لیا اور ایک بہت بڑے گروہ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دیا۔
صدر ٹرمپ کا پارہ چڑھ گیا اور اس نے ایران کو نیچا دکھانے اور اپنے اتحادیوں کو اپنی قوتِ فیصلہ کی داد دینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایرانی جنرل کو نشانہ بنانے کا حکم دے دیا۔ اب امریکی اِنٹیلی جنس اور فوجی قوت حرکت میں آگئی۔امریکی انٹیلی جنس کی کامیابی کو ماننا پڑے گا کہ انھوں نے جنرل سلیمانی کا کھُرا پکڑ لیا۔
یہ 2 اور 3جنوری 2020 کی درمیانی شب تھی جب رات ایک بجے ایک کمرشل طیارہ بغداد ہوائی اڈے پر اترا۔ طیارے سے پاسدارانِ انقلاب ایران کی قدس فورس کے کمانڈرمیجر جنرل قاسم سلیمانی، ان کے داماد اور حزب اﷲ لبنان کے کمانڈرجمال جعفر ابراہیمی اترے۔ ان کمانڈروں کو لینے کے لیے عراق میں شیعہ دستوں کے کمانڈر انجینئر ابو مہدی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ موجود تھے، یہ قافلہ ابھی بغداد ہوائی اڈے سے باہر نکلا ہی تھا کہ ایک امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا اور پلک جھپکتے جنرل سلیمانی، ابو مہدی ، سلیمانی کے داماد اور دوسرے افراد لُقمہء اجل بن گئے۔
جنرل سلیمانی شام میں اپنے اتحادی ہیڈ کوارٹر میں میٹنگ کے بعد بغداد پہنچے تھے جہاں انھیں عبوری عراقی وزیرِ اعظم نے ملنے کی دعوت دی تھی۔ سعودی عرب کی قیادت نے عراقی وزیرِ اعظم کے ذریعے ایرانی قیادت کے لیے ایک پیغام بھیجا تھا جس کا جواب لے کر جنرل سلیمانی عراقی وزیر ِاعظم سے ملنے وہاں پہنچے تھے۔
سلیمانی1998سے قدس فورس کے سربراہ کے طور پر ایران کے ارد گرد خطے کے ممالک میں ایرانی اثر و رسوخ کے نفوذ اور القاعدہ و داعش کے خلاف بر سرِپیکار تھے۔ وہ خطے میں امریکی موجودگی کے بھی خلاف تھے لیکن کہیں کہیں ایران اور امریکا کے مفادات یکجا ہو جاتے تھے جیسے افغانستان ، ایسی جگہوں پر وہ امریکا کے اتحادی کے طور پر اپنا کردار نبھاتے تھے۔ جنرل سلیمانی نے یمن، لبنان، شام ، عراق اور افغانستان میں اپنے اتحادیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ دے کر ایک بہترین فورس میں تبدیل کر دیا تھا۔
اس سلسلے میں اب جو بھی آپریشن ہوتا تھا وہ ایرانی سر زمین سے سیکڑوں کلومیٹر دور ہوتا تھا اور یہی قاسم سلیمانی کی کامیابی تھی۔ انھوں نے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے لیے بھی انھوں نے انتھک محنت کی۔ محبت، خلوص اور اپنے کام سے عشق کی وجہ سے وہ جناب آیت اﷲ خامنہ ای کے بعد سب سے طاقتور شخص بن گئے۔ وہ سپریم لیڈر کو ہی براہِ راست رپورٹ کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی یہ سمجھتے تھے کہ امریکا اور مغربی اقوام ایران کو ٹارگٹ کر کے ایرانی حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سلیمانی کی حکمت عملی کی کامیابی تھی کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت نہایت برے حالات کے باوجود قائم رہی اور آخر کار شام کا بہت بڑا حصہ واپس اسد حکومت کے زیرِ نگین آ گیا۔ اسی طرح لبنان میں حزب اﷲ جناب حسن نصراﷲ کی قیادت میں وہ واحد فورس بنی جس نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے۔ یمن اور عراق میں ایرانی اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا ہے کہ امریکی عراق میں اپنا وجود خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی سفارتخانے پر حملہ اس کی ایک مثال ہے۔
امریکی جنرل اسٹینلے نے ایک موقعے پر کہا ہے کہ جنرل سلیمانی اکیلا ہی بہت خطرناک ہے۔ جو کچھ وہ کر سکتا ہے کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ اُس پر ایرانی نیوکلیئرپروگرام کو سپورٹ کرنے کا بہانہ بنا کر 2007سے بین الاقوامی سفر کرنے کی پابندی تھی لیکن وہ اپنے آپ کو چھپانے اور بچانے کے لیے کبھی انڈر گراؤنڈ نہیں گئے۔ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر رہے۔ زمین پر بیٹھ کر کھا لیتے تھے اور چٹائی پر سو جاتے تھے۔
شیکسپیئر نے اپنے مشہورڈرامہ ہیملٹ میں ایک جگہ کہا ہے کہ Hamlet walks in death۔ جنرل سلیمانی بھی اتنے سال موت میں ہی زندہ رہے۔ جنرل سلیمانی کے قتل کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکی صدر نے انتہائی رعونت سے کہا کہ انھوں نے اس قتل کا حکم دیا۔ اعلانِ جنگ کے بغیر قاتلانہ حملے کا حکم یہ بتاتا ہے کہ اپنی معیشت اور بے پناہ طاقتور افواج کہ وجہ سے امریکی صدر کسی بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک تجزیئے میں اس کو 2003کے بعد سب سے رسکی قدم قرار دیا ہے۔
پہلی عالمی جنگ بھی کچھ یوں ہی ایک قتل کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی۔ جنرل سلیمانی کی غیر موجودگی کیا ایرانی پالیسی کو تبدیل کر دے گی۔ کیا سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ممالک اپنی اپنی آمریتوں کو بچانے میں آسودگی محسوس کریں گے۔ اس تنازعے کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پاکستان کے لیے کونسا لائحہء عمل مناسب ہو گا۔
ایرانی انقلاب کے بعد ملک جس راستے پر گامزن ہے اس میں پیچھے ہٹنے کا کوئی آپشن سرے سے ہے ہی نہیں۔ امریکا کبھی ایران کو چھوڑے گا نہیں، ایسے میں لڑائی کو مخالف کیمپ میں لے جانا ہی کامیابی کی کوئی امید لا سکتا ہے۔ عرب ممالک ایران کے ساتھ کوئی مفاہمت کر لیں تو ٹھیک ورنہ جنرل سلیمانی کی موت سے ان کے خرمن کو آگ تو لگ ہی چکی ہے۔ عراق کے اوپر قبضے کے لیے امریکا نے بڑے جتن کیے لیکن عراقی پارلیمنٹ میں امریکی فوجی انخلا کے بارے میں قرارداد یہ بتا رہی ہے کہ اب عراق میں رہنا مشکل ہے۔ اگر امریکا عراق چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو یہ آسمان کو چھوتی کامیابی ہو گی۔
2020 امریکا میں صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ ٹرمپ شمالی کوریا، شام، عراق، ترکی، ایران، افغانستان کہیں بھی کامیابی نہیں دکھا سکتا۔ اسے impeachment کا بھی سامنا ہے۔ جب کلنٹن کو سامنا تھا تو اس نے بھی عراق پر ہوائی حملوں کا حکم دیا تھا۔ ٹرمپ نے بھی وہی حربہ آزمایا ہے لیکن ایران عراق نہیں ہے۔ ایران نے میزائل حملہ کر کے بظاہر حساب برابر کر دیا ہے اور سپریم لیڈر نے اسے امریکا کے منہ پر طما نچہ قرار دیا ہے۔ امریکا باڈی بیگ یعنی لاشیں وصول کرنے کا عادی نہیں، اگر اس سال باڈی بیگ امریکا گئے تو ٹرمپ کا مستقبل روشن نہیں رہے گا۔
پاکستان کے لیے مشکل صورتحال ہے۔ ایک طرف امریکا، سعودی عرب، امارات کے مفادات ہیں تو دوسری طرف پاکستان کا immediate پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور سب سے پہلا پاکستان کا دورہ بھی ایران سے ہوا تھا۔ پڑو سی تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے کشمیر پر پاکستان اور کشمیریوں کی کھُل کر حمایت کی تھی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو کوئی سائیڈ نہیں لینی چاہیے لیکن یہ کوئی آپشن نہیں، ہمیں کھل کر اپنے پڑوسی کا ساتھ دینا ہو گا۔