سیاسی یتیم تو بہت ہیں
ہرغیر جمہوری دور میں آمر حکمرانوں کو سیاسی رہنماؤں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔
لاہور:
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے 12 سال بعد اپنی والدہ بینظیر بھٹوکی جائے شہادت لیاقت پارک راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی یتیموں سے ملک نہیں چل سکتا وہ تو حکومت چلانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ انھوں نے اپنی طرف سے سیاسی یتیم الوداع ، الوداع کے نعرے لگوائے اور خود بھی لگائے جسکے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کون الوداع ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ایک بار پھرکہا ہے کہ حکومت ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے اور اس حکومت کو لانیوالے خود پچھتا رہے ہیں۔ سراج الحق کی مراد اگر حکومت کو لانیوالی عوام سے ہے تو عوام تو مہنگائی و بیروزگاری کے باعث واقعی پچھتا رہے ہیں اور اگر ان کی مراد کا اشارہ کہیں اور ہے تو وہاں پچھتائے جانے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
ایوب خان کے مارشل لا سے قبل 11 سالوں میں جو حکومتیں آئیں اور جو لوگ حکمران رہے وہ بطور وزیر اعظم سیاسی یتیم نہیں سیاستدان تھے مگر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سیاستدانوں پر بیورو کریٹس نے بالاتری حاصل کرلی تھی جو اپنے مفاد کی خاطر حکومتیں تبدیل کرتے رہے۔
گورنر جنرل غلام محمدکے بعد اسکندر مرزا جب ملک کے پہلے صدر بنے تھے تو جنرل ایوب کو کہہ کر پہلا مارشل لا بیس اکتوبر 1958 کو انھوں نے ہی لگوایا تھا مگر 20 روز بعد جنرل ایوب خان نے انھیں فارغ کر کے ملکی صدارت خود سنبھال لی تھی۔ ایوب خان سے قبل سیاستدانوں میں اقتدار کی دال بانٹی جاتی رہی تھی،سیاست دانوں کی باہمی اقتداری چپقلش کی وجہ سے ہی حکومتیں آتی جاتی رہیں اور ملک کو سیاسی استحکام حاصل نہیں ہوسکا تھا مگر ان سیاسی حکومتوں میں کرپشن کی بازگشت نہیں تھی۔
جنرل ایوب خان نے اپنے مخالف سیاستدانوں پر ایبڈوکے تحت جو پابندی لگائی تھی ، اس سے حکومت مخالف سیاست ختم ہوگئی تھی مگر اقتداری سیاست جاری رہی۔ اس وقت جنرل ایوب خان نے اپنی کابینہ میں اپنے حامی سیاستدانوں کے ساتھ مختلف شعبوں کے ماہر اور قابل ٹیکنوکریٹس کو بھی شامل کیا تھا اور اپنی نوجوانی مگر جنرل ایوب کی سیاسی چھتری کے تلے اپنی سیاست کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کیا تھا اور ایوب خان کی مسلم لیگ کنونشن میں اہم عہدیدار تھے۔
ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایوب خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرکوکنونشن مسلم لیگ کا ضلعی جنرل سیکریٹری مقررکر دیں۔ 1965 کی بھارت سے ہونے والی جنگ کے دوران بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے اور جنگ ختم ہونے کے بعد روس نے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور صدر ایوب خان کو بلا کر معاہدہ تاشقند کرادیا تھا جس پر بھٹو صاحب کے بھی دستخط تھے۔
معاہدہ تاشقند کے شاید بھٹو صاحب خلاف تھے یا کسی وجہ سے صدر ایوب ان سے ناراض ہوگئے تھے۔ صدر ایوب نے ملک میں اپنے دس سالہ اقتدارکا جشن بھی منایا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن جس طرح ہروایا گیا تھا اس پر اپوزیشن اور عوام بھی ایوب خان سے ناراض تھے اس لیے بھٹو صاحب کو موقعہ ملا اور انھوں نے وزارت سے یہ کہہ کر استعفیٰ دیا کہ انھیں معاہدہ تاشقند پر اعتراض تھا اس لیے انھوں نے ایوب حکومت چھوڑی اور انھیں عوام نے سراہا۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ وہ معاہدہ تاشقند کی بلی کو تھیلے سے نکال کر عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرینگے جس کے بعد 1967 میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی لاہور میں بنیاد ڈالی تھی جسکے وہ چیئرمین تھے۔
وزارت خارجہ چھوڑ کر سیاست میں آنے کے بعد انھوں نے اپنے محسن جنرل ایوب خان پر الزامات بھی بہت لگائے کہ صدر نے جیتی ہوئی جنگ تاشقند کے مذاکرات میں ہار دی مگر بھٹو صاحب نے اپنی پھانسی تک تاشقند والی بلی اپنے خود ساختہ تھیلے سے نہیں نکالی جسکو بنیاد بنا کر انھوں نے اپنی پارٹی بنائی تھی۔ بھٹو صاحب آمر ایوب خان کے ہاتھوں سیاست میں پروان چڑھے اور ایک آمر صدر جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں ہی اپنے انجام کو پہنچے اور تاشقند کی خود ساختہ بلی تھیلے سے باہر نہ آسکی۔
بھٹو مرحوم کے بعد پنجاب کے سرمایہ کار صنعتکار میاں نواز شریف جنرل جیلانی کے ہاتھوں اقتدار میں آئے اور جنرل ضیا نے انھیں سرمایہ دار نوجوان سمجھ کر سیاست میں پروان چڑھایا کہ کرپشن سے دور رہیں گے اور ملک کے لیے کچھ کرینگے اور ملک کا فائدہ ہوگا۔ انھیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں وزیر اعظم جونیجو نے نہیں بلکہ جنرل ضیا الحق نے بنایا تھا۔
جنرل ایوب کے لیے بتایا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب انھیں پاپا کہتے تھے تو نواز شریف کو بھی جنرل ضیا نے اپنی اولاد کی طرح سمجھا تھا اور نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی دعا بھی دی تھی جو شاید انھیں لگی۔ جونیجو حکومت کی برطرفی پر انھوں نے وزیر اعظم کا نہیں اپنے محسن جنرل ضیا کا ساتھ دیا تھا اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب بھی بنے تھے۔
جنرل ضیا الحق کی شہادت کا فائدہ نواز شریف کو پہنچا تھا اور وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تھے اور انھوں نے جنرل ضیا کی پالیسی اختیارکی تھی اور ان ہی کے نقش قدم پر چلے مگر جنرل ضیا کی امیدوں کے برعکس خود کو امیر سے امیر تک کرتے رہے۔ انھوں نے پنجاب میں ترقیاتی کام واقعی کرائے مگر ان پر بیرون ممالک جائیدادیںبنانے کا الزام بھی لگااور بعد میں پانامہ سامنے آگیا جسے عمران خان نے خوب کیش کرایا اور نواز شریف کوشش کے باوجود مدت پوری نہ کرسکے اور کسی کی پسندیدہ جے آئی ٹی ٹیم کی زد میں آکر پانامہ کی بجائے اقامہ کا شکار ہوئے اور کرپشن مقدمے میں سزا یاب بھی ہوگئے۔ مبینہ کرپشن سے دوری اختیار کی ہوتی تو شاید آج بھی اقتدار میں ہوتے۔
مرحوم پیرپگاڑا خود کو فخریہ جی ایچ کیو کا بندہ کہتے تھے اور شیخ رشید کا تو حلقہ انتخاب بھی وہی ہے جہاں سے سیاسی یتیموں نے فائدے اٹھائے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہونے والے بھٹوکی بیٹی بے نظیر بھٹو سمجھدار تھیں انھوں نے اپنے اقتدار میں جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دے کر منفرد کام کیا تھا مگر 2007 میں جنرل مشرف سے کیا گیا وعدہ نہ نبھا پائیں۔
عمران خان نے اپنی ابتدائی سیاست میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی تھی اور جنھیں مقتدر حلقوں کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان نے جنرل پرویز کے ریفرنڈم میں بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔ جنرل مشرف کے بعد انھوں نے ان کے خلاف آئین توڑنے کے الزام میں سزا کا بھی مطالبہ کیا۔ مگر نواز شریف کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایسا کرنا پڑا تھا اور اب وہی کام وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اقتدار کے تحفظ کرنے کے لیے کرنا پڑا ہے اور وہ پرویز مشرف کے خلاف اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ جمہوری طور منتخب کیے جانے کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم نواز شریف کی عدالتی نا اہلی اور بعد میں عدالتی سزا پر ملک میں اتنا شدید ردعمل نہیں دیکھا گیا تھا جتنا خصوصی عدالت کی طرف سے سابق فوجی آمر جنرل پرویز کی سزا پر سامنے آیا ہے۔ ملک بھر میں پرویز مشرف کی حمایت میں نکلنے والی ریلیاں اور احتجاج ثبوت ہیں کہ جنرل پرویز مشرف سیاسی یتیم نہیں تھے اور انھیں ان کی کارکردگی کے باعث عوامی حمایت بھی حاصل ہے اور لوگ ان کے دور کا سیاسی حکومتوں سے موازنہ کرکے ان کی کھلی حمایت کر رہے ہیں۔
ہرغیر جمہوری دور میں آمر حکمرانوں کو سیاسی رہنماؤں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ تمام آمر حکمرانوں نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے اور جنرل پرویز اس لیے سب سے منفرد ہیں کہ انھوں نے مہنگائی پر کنٹرول رکھا تھا اور ملک کو پہلی بار ایک بااختیار بلدیاتی نظام دیا تھا جو سیاسی حکومتوں نے ختم کردیا تھا۔