مقہور سماج کا تحفّظ

نماز ہی ذہن میں عجز و انکسار اور مسکنت پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔


نماز ہی ذہن میں عجز و انکسار اور مسکنت پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ فوٹو: فائل

حکیم کائنات رب العالمین نے اس کائنات ارضی میں زندگی بسر کرنے کے سلیقے اور قرینے سکھانے کے لیے قرآن جیسی ارفع و اعلیٰ نعمت عظمیٰ عطا کی۔ پھر کائنات کے سب سے عظیم الشان نبی سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ مرحمت فرمائے۔

ایک ایسی لامثال ہستی جس نے مختلف نشیب و فراز سے گذر کر مختصر دور میں کشت و خون میں غلطاں اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے سماج کو ایک ایسا ضابطۂ حیات قرآن عطا فرما دیا، جس کے ہر ایک حکم پر ناصرف پہلے خود عمل پیرا ہو کر تاب ناک مثال قائم کی اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر اہل دنیا بھی اس پر من و عن عمل کریں تو بہار فردوس بریں ان کی منتظر ہوگی۔

دستور جس زمین پہ قرآن کا چلے

وہ سر زمین خلد ہے، دارالسلام ہے

یوں تو قرآن حکیم کے ہر پارے کی ہر سورہ کا ہر رکوع اور ہر آیت انسانی اخلاق و معاشرت کے لیے راہ نما اصول وضع کر رہی ہے۔ دنیا کے تمام اہل تدبّر مل کر بھی یہ چیلنج نہیں کر سکتے کہ قرآن پاک میں فلاں معاملے میں (خدانخواستہ) کوئی کمی یا خلا باقی ہے، یہ کلید حیات مسلمانوں پر خدائے بزرگ و برتر کا خاص فضل و کرم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی عاقبت نااندیش اپنی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے اس انمول ضابطۂ حیات سے راہ نمائی حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے ۔ سورہ الماعون معاشرے کے مظلوم و مقہور طبقے کے تحفّظ اور جذبات کی حکماً ترجمان ہے اور خاص طور دو ایسے طبقات کا واضح ذکر کرکے اُن کے سر پر ہاتھ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔

اس سورہ کا آغاز ہی زبردست جلال آفرین انداز میں کیا گیا ہے کہ کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے۔ اس دانا و علیم و خبیر ہستی کو معلوم تھا کہ سماجی و معاشرتی اخلاق و کردار کے بگاڑ کا ارتکاب وہی شخص کرے گا جو آخرت میں جواب دہی کے احساس سے عاری ہوگا۔ اس لیے آغاز میں ہی جلال و ہیبت کے ساتھ ارشاد فرمایا: کیا آپ نے روز جزا کے منکروں کو دیکھا؟ یہ آیت کریمہ تصور جزا و سزا کو اہل ایمان کے ایقان میں راسخ کر رہی ہے۔ اگرچہ سورہ الماعون کا نزول ایک مخصوص پس منظر میں ہوا تھا لیکن اس میں پائے جانے والے پند و نصائح پوری عالم انسانیت کے لیے ہیں۔ جو حقیقت پسند آخرت میں جواب دہی کے احساس سے لبریز ہیں اور فی الحقیقت اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ راز حیات اسی بات میں مضمر ہے کہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں کا خیال رکھا جائے۔ کیوں کہ نجات اُخروی کے لیے دونوں لازم ملزوم ہیں۔

سورہ الماعون جامعیت کے اعتبار سے بڑی منفرد اور عظمت کی حامل ہے کہ اس میں عبادت الٰہی کی تلقین کے ساتھ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے ساتھ حسن سلوک کی تنبیہاً تلقین کی گئی ہے۔ اس کا آغاز روز جزا کی تکذیب کرنے والوں کو خبردار کرنے سے ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ملحق آیت میں سماج کے اس قابل رحم طبقے یعنی یتیموں سے جابرانہ سلوک سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کسی بھی معاشرے کا یہ وہ بے دست و پا طبقہ ہوتا ہے جو محض کائنات ارضی کو فرش اور چرخ نیلی فام کو چھت تصور کرتے ہوئے گذر اوقات کرنے پر مجبور ہو تا ہے۔

یتیموں کی اہمیت کیا ہے! اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محسن انسانیت ﷺ بھی یتیم پیدا ہوئے۔ امام الانبیاءؐ کے یتیم پیدا ہونے میں یہی حکمت ہویدا ہوتی ہے کہ اہل ثروت و شاہان کج کلاہ ان مظلوموں سے برأت کا اظہار نہ کریں اور انہیں دیکھ کر نزاکت آمیز جبینوں پر بل نہ پڑیں۔ اس کے ساتھ ہی مساکین کے لیے لذّت کام و دہن کا اہتمام نہ کرنے والوں کو بھی خبردار کیا گیا ہے۔ مساکین، نسل آدمیت کا وہ گروہ ہوتا ہے جو اپنی تشنہ لبی اور شکم سیری کے لیے امراء و روساء کے سامنے دست طلب دراز کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ان ستم رسیدہ لوگوں کے پاس صبح کا ہے تو شام کا نہیں اور اگر شام کا ہے تو صبح کا نہیں۔ ظاہر ہے نظام تنفس برقرار رکھنے کے لیے کھانے پینے کا اہتمام کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے خالق کائنات ان مفلوک الحالوں پر عنایات کے دروازے کھولے رکھنے کی زبردست تلقین کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ ہی آیت کریمہ میں خشیت الٰہی پیدا کرنے کے لیے نماز کی اہمیت و عظمت اجاگر کی جارہی ہے۔ لوگوں کی سماجی، معاشرتی اور اخلاقی فلاح و اصلاح کے ساتھ نماز کی رغبت پیدا کرنے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ حقوق العباد کے ساتھ حقوق اﷲ بھی اتنے ضروری ہیں کہ دونوں کی ادائی لازم و واجب ہے۔ نماز ہی انسان کے قلب میں گداز اور روح میں احساس پیدا کرتی ہے ۔ نماز ہی انسان کے دماغ سے نخوت و تکبّر کے جراثیم ختم کرتی ہے۔ نماز ہی انسان کو یتیموں اور مساکین کے ساتھ الفت و مروّت اختیار کرنے کا درس دیتی ہے۔ نماز ہی دلوں میں جذبۂ مہر و وفا اور حب و ولا پید ا کرتی ہے۔ نماز ہی دلوں سے خوف غیر اﷲ ختم کر کے توحید کا شعلہ جوالا جلا کر خرمن باطل کو خاکستر کرنے کا درس دیتی ہے۔

نماز ہی ذہن میں عجز و انکسار اور مسکنت پیدا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے تصوّر میں ہر وقت اپنے خالق و مالک کا خیال راسخ رہے۔ اس لیے فرمایا کہ ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو نماز قائم کرنے میں تساہل سے کام لیتے ہیں۔ ساتھ ہی تصنع کو بھی ایک بہت بڑی بیماری قرار دیا کہ ریا کاری انسانی ضمیر کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو لوگ ریا کاری سے کام لیں گے خواہ وہ کتنے ہی قائم الیل اور صائم الدہر ہوں ان کا زہد و اتقاء کسی کام نہیں آئے گا اور وہ خائب و خاسر رحمت خداوندی سے محروم رہیں گے۔

اس لیے اہل ایمان کو درس اخلاق دیا جا رہا ہے کہ کسی بھی عبادت کی بجا آوری میں اخلاص و ایثار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگر اس میں ذرا سا بھی تصنع کا شائبہ ہو تو ایسی عبادت ان کے منہ پر دے ماری جائے گی۔ عبادات میں اخلاص و للہیت کے تذکرے کے بعد اختتام پر ایک بار پھر اصلاح معاشرہ کی طرف توجہ مبذول کرائی جا رہی ہے کہ ان لوگوں کے لیے بھی خرابی ہے جو عوام الناس کو بالعموم اور ہمسایوں کو بالخصوص معمولی ضرورت کی اشیاء استعمال کرنے کے لیے نہیں دیتے۔ سورہ الماعون کے باالتفصیل مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حیات انسانی کا کتنا بلیغ تصور دیا گیا ہے کہ اگر اس میں پوشیدہ حکمتوں پر عمل کیا جائے تو معاشرہ فی الواقع جنّت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

یہ کائنات بہشت بریں نہ بن جائے

عدم کسی کو کسی کا اگر خیال رہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں