فکرِ آخرت
جب کسی انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے لیے تو وہی قیامت ہے، اس کا پہلا دور شروع ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید میں عقیدۂ آخرت پر انتہائی زوردیا گیا ہے۔ آخرت پر ایمان سے مراد یہ ہے کہ موجودہ نظامِ کائنات عارضی اور ہماری زندگی بھی فانی ہے۔
ہر انسان کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ جب کسی انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے لیے تو وہی قیامت ہے، اس کا پہلا دور شروع ہوجاتا ہے۔ سورۃ مطففین میں سجین اور علیین کا ذکر آیا ہے۔
احادیث کی روشنی کے مفہوم کے مطابق سجین ایک خاص مقام ہے جو ساتویں زمین کے نچلے طبقے میں ہے، یہ کفّار اور فُجّار کی ارواح کا مستقر ہے اور علیین ساتویں آسمان میں زیرِ عرش مومنین و متّقین کی ارواح کی جگہ ہے۔ دوسرے دور کو قرآن مجید میں یوم البعث، یوم الحساب، یوم الفصل (فیصلے کا دن) یوم الخروج (نکلنے کا دن) یوم القیام اور یوم الحق سے یاد کیا گیا ہے۔ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور سب کی اجتماعی موت واقع ہوجائے گی پھر اس روز ابتدائے دنیا سے قیامت تک کے تمام انسان میدان حشر میں جمع ہوں گے، یہ تیسرا دور ہوگا۔ سب اﷲ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ دنیاوی زندگی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔
اس کی گواہی یوں دی ہے: تو (انسان) جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو ایک ذرّہ بھر بُرائی کرے گا اسے بھی دیکھ لے گا۔'' (سورۃ الزلزال)
سورۃ البقرہ کے ابتدا میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔'' جن کے نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں ہوں گے ان کے لیے جنّت کی لازوال نعمتیں اور ہمیشہ کا عیش و آرام ہوگا۔ جن کے نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔
یوم آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے لیے قرآن مجید میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ''اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔'' یعنی آخرت پر ایمان لائے بغیر ہم اﷲ تعالیٰ کے نیک اور متقی بندے نہیں بن سکتے۔
جنّت کی منظر کشی قرآن نے نہایت عمدگی سے بیان کی ہے۔ مفہوم: ''اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دو جو ایمان لائے ہوئے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بنی ہیں۔'' (سورۃ بقرہ) جس طرح کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا اسی طرح ایمان بھی بغیر عمل صالح کے زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اگر ایمان ہو اور عمل صالح نہ ہو تو ایمان بھی کام یابی حاصل نہیں کرسکتا اور اگر ایمان نہ ہو تو اعمال اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتے۔ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء ہے۔ عقیدۂ آخرت پر یقین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان موجودہ زندگی کو عارضی سمجھے۔ یہ دنیاوی مال و متاع شان و شوکت سب عارضی و ناپائیدار ہیں۔
اس فانی دنیا میں اگر کسی چیز کی بقا ہے تو وہ صرف نیکی، حق و صداقت اور اعمال صالح ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس عارضی دنیا میں اﷲ کی نعمتوں سے استفادہ اٹھاتے ہوئے اپنے منعم حقیقی کی خلوص دل سے عبادت کرے اور شکر گزاری بھی کرتا رہے۔ اﷲ کی مخلوق کے ساتھ اچھا رویّہ رکھے۔ ہر وہ کام کرے جس سے رب ذوالجلال اور رحمت اللعلمینؐ راضی ہوں اور ہر وہ کام جسے رب کریم اور اس کے پیارے نبی ﷺ نے ناپسند کیا ہو، پرہیز کرے۔
فکرِ آخرت انسان کے اندر موجود منفی جذبات اور نفسِ امارہ کو شریعت کی حدود میں رکھنے پر مجبور کرتا ہے اور یہ سوچ ہمیشہ دل میں روشن رہتی ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک و مختار رب العالمین ایک ہے۔ وہی موت و حیات دیتا ہے، ایک نہ ایک دن ہماری دنیوی حیات اختتام پذیر ہوگی اور ہمارے اعمال کے مطابق دائمی و ابدی زندگی ملے گی۔ فکرِ آخرت ہی رب کی معرفت سے ہم کنار کرتی ہے اور اور خود احتسابی پر آمادہ کرتی ہے۔
لیکن آج بڑے کرب کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اسلام جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا اور مسلمانوں کو بہترین امت قرار دیا، اپنا تشخص کھو چکے ہیں۔ افسوس! ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ آخرت میں جواب دہی کے تصور کو بھول بیٹھے ہیں۔ اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں۔ مادی مفاد کی خاطر غیر تو درکنار بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔
دنیا میں نیکی اور شرافت کا معیار دولت کی فراوانی کے ساتھ منسلک کر بیٹھے ہیں۔ حلال، حرام، جائز، ناجائز کی تمیز مٹ گئی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میں ہمارا نوجوان طبقہ شرم و حیا کو تاریک خیالی سے موسوم کرنے لگا ہے۔ اس کے برعکس بے حیائی، مرد و زن کے اختلاط کو روشن خیالی اور تہذیب و تمدن اور ترقی سمجھنے لگے ہیں۔ جب کہ ایک مسلمان کا یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن زندگی کی کتنی ساعتیں باقی ہیں اس کا ہمیں کچھ علم نہیں، لہٰذا زندگی کے ہر لمحے کی قدر کرنا چاہیے۔
ان ساعتوں کو کارآمد بنانے اور رب کی رضا کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور جب کسی کو موت آجاتی ہے تو اﷲ اسے ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔'' (سورۃ المنافقون)
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جب کوئی ہمارا عزیز و اقارب اس دارِ فانی سے کوچ کرجائے تو حیات و موت کی حقیقت کا وقتی طور پر بہت احساس ہوتا ہے۔ ایک دو دن کے لیے دل فسردہ رہتا ہے۔ زندگی کی حقیقت عیاں ہوتی ہے لیکن پھر وہی پرانا وطیرہ غفلت اور بے پروائی آخرت کی حقیقت کو محض کہانی سمجھنے لگتے ہیں۔
سورہ سجدہ میں اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں نیست و نابود ہوجائیں گے تو پھر کیا ہم دوبارہ نئے جنم میں آئیں گے۔'' عقیدۂ آخرت میں شبہات کرنے والوں کو قرآن پاک میں جواب اس طرح دیا گیا ہے۔ مفہوم: ''اور وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔''
دنیا میں رہ کر آخرت بنالینا اصل دانش مندی کا کام ہے جیسا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: ''دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔''
اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم اپنے عقائد کو درست رکھیں اور اپنی زندگی کو قرآن مجید اور سنت نبویﷺ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری دنیوی اور آخروی زندگی کام یابی و کام رانی سے ہم کنار ہو۔
ہر انسان کو موت کا مزا چکھنا ہے۔ جب کسی انسان کی موت واقع ہوتی ہے تو اس کے لیے تو وہی قیامت ہے، اس کا پہلا دور شروع ہوجاتا ہے۔ سورۃ مطففین میں سجین اور علیین کا ذکر آیا ہے۔
احادیث کی روشنی کے مفہوم کے مطابق سجین ایک خاص مقام ہے جو ساتویں زمین کے نچلے طبقے میں ہے، یہ کفّار اور فُجّار کی ارواح کا مستقر ہے اور علیین ساتویں آسمان میں زیرِ عرش مومنین و متّقین کی ارواح کی جگہ ہے۔ دوسرے دور کو قرآن مجید میں یوم البعث، یوم الحساب، یوم الفصل (فیصلے کا دن) یوم الخروج (نکلنے کا دن) یوم القیام اور یوم الحق سے یاد کیا گیا ہے۔ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور سب کی اجتماعی موت واقع ہوجائے گی پھر اس روز ابتدائے دنیا سے قیامت تک کے تمام انسان میدان حشر میں جمع ہوں گے، یہ تیسرا دور ہوگا۔ سب اﷲ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ دنیاوی زندگی کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔
اس کی گواہی یوں دی ہے: تو (انسان) جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے گا اسے دیکھ لے گا اور جو ایک ذرّہ بھر بُرائی کرے گا اسے بھی دیکھ لے گا۔'' (سورۃ الزلزال)
سورۃ البقرہ کے ابتدا میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔'' جن کے نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں ہوں گے ان کے لیے جنّت کی لازوال نعمتیں اور ہمیشہ کا عیش و آرام ہوگا۔ جن کے نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں ہوں گے ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔
یوم آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے لیے قرآن مجید میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: ''اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔'' یعنی آخرت پر ایمان لائے بغیر ہم اﷲ تعالیٰ کے نیک اور متقی بندے نہیں بن سکتے۔
جنّت کی منظر کشی قرآن نے نہایت عمدگی سے بیان کی ہے۔ مفہوم: ''اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دو جو ایمان لائے ہوئے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بنی ہیں۔'' (سورۃ بقرہ) جس طرح کوئی باغ بغیر پانی کے سرسبز نہیں رہ سکتا اسی طرح ایمان بھی بغیر عمل صالح کے زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اگر ایمان ہو اور عمل صالح نہ ہو تو ایمان بھی کام یابی حاصل نہیں کرسکتا اور اگر ایمان نہ ہو تو اعمال اچھے نتائج پیدا نہیں کرسکتے۔ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزاء ہے۔ عقیدۂ آخرت پر یقین اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان موجودہ زندگی کو عارضی سمجھے۔ یہ دنیاوی مال و متاع شان و شوکت سب عارضی و ناپائیدار ہیں۔
اس فانی دنیا میں اگر کسی چیز کی بقا ہے تو وہ صرف نیکی، حق و صداقت اور اعمال صالح ہیں۔ لہٰذا ایک مسلمان کو چاہیے کہ اس عارضی دنیا میں اﷲ کی نعمتوں سے استفادہ اٹھاتے ہوئے اپنے منعم حقیقی کی خلوص دل سے عبادت کرے اور شکر گزاری بھی کرتا رہے۔ اﷲ کی مخلوق کے ساتھ اچھا رویّہ رکھے۔ ہر وہ کام کرے جس سے رب ذوالجلال اور رحمت اللعلمینؐ راضی ہوں اور ہر وہ کام جسے رب کریم اور اس کے پیارے نبی ﷺ نے ناپسند کیا ہو، پرہیز کرے۔
فکرِ آخرت انسان کے اندر موجود منفی جذبات اور نفسِ امارہ کو شریعت کی حدود میں رکھنے پر مجبور کرتا ہے اور یہ سوچ ہمیشہ دل میں روشن رہتی ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک و مختار رب العالمین ایک ہے۔ وہی موت و حیات دیتا ہے، ایک نہ ایک دن ہماری دنیوی حیات اختتام پذیر ہوگی اور ہمارے اعمال کے مطابق دائمی و ابدی زندگی ملے گی۔ فکرِ آخرت ہی رب کی معرفت سے ہم کنار کرتی ہے اور اور خود احتسابی پر آمادہ کرتی ہے۔
لیکن آج بڑے کرب کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اسلام جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا اور مسلمانوں کو بہترین امت قرار دیا، اپنا تشخص کھو چکے ہیں۔ افسوس! ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ آخرت میں جواب دہی کے تصور کو بھول بیٹھے ہیں۔ اخلاقی تنزلی کا شکار ہیں۔ مادی مفاد کی خاطر غیر تو درکنار بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔
دنیا میں نیکی اور شرافت کا معیار دولت کی فراوانی کے ساتھ منسلک کر بیٹھے ہیں۔ حلال، حرام، جائز، ناجائز کی تمیز مٹ گئی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید میں ہمارا نوجوان طبقہ شرم و حیا کو تاریک خیالی سے موسوم کرنے لگا ہے۔ اس کے برعکس بے حیائی، مرد و زن کے اختلاط کو روشن خیالی اور تہذیب و تمدن اور ترقی سمجھنے لگے ہیں۔ جب کہ ایک مسلمان کا یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن زندگی کی کتنی ساعتیں باقی ہیں اس کا ہمیں کچھ علم نہیں، لہٰذا زندگی کے ہر لمحے کی قدر کرنا چاہیے۔
ان ساعتوں کو کارآمد بنانے اور رب کی رضا کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنا چاہیے۔ اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور جب کسی کو موت آجاتی ہے تو اﷲ اسے ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔'' (سورۃ المنافقون)
یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جب کوئی ہمارا عزیز و اقارب اس دارِ فانی سے کوچ کرجائے تو حیات و موت کی حقیقت کا وقتی طور پر بہت احساس ہوتا ہے۔ ایک دو دن کے لیے دل فسردہ رہتا ہے۔ زندگی کی حقیقت عیاں ہوتی ہے لیکن پھر وہی پرانا وطیرہ غفلت اور بے پروائی آخرت کی حقیقت کو محض کہانی سمجھنے لگتے ہیں۔
سورہ سجدہ میں اﷲ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ''اور کہتے ہیں کہ جب ہم زمین میں نیست و نابود ہوجائیں گے تو پھر کیا ہم دوبارہ نئے جنم میں آئیں گے۔'' عقیدۂ آخرت میں شبہات کرنے والوں کو قرآن پاک میں جواب اس طرح دیا گیا ہے۔ مفہوم: ''اور وہی ہے جو پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ زندہ کرے گا۔''
دنیا میں رہ کر آخرت بنالینا اصل دانش مندی کا کام ہے جیسا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: ''دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔''
اﷲ تعالیٰ ہمیں توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم اپنے عقائد کو درست رکھیں اور اپنی زندگی کو قرآن مجید اور سنت نبویﷺ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری دنیوی اور آخروی زندگی کام یابی و کام رانی سے ہم کنار ہو۔