یہ ہیں تو ہم ہیں
پاکستان نے ایک بار پھر امریکا، ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کرانے کے لیے اپنی خدمات یکطرفہ طور پر پیش کر دی ہیں۔
نیا سال باقی دنیا کے لیے بھلے کیسا ہی ثابت ہو مگر پاکستان کے لیے خوشیوںاور اطمینان کا پیغام لایا ہے۔ گزشتہ برس صرف حکومت اور فوجی قیادت ایک پیج پر تھی اور دونوں جانب سے اس بے مثال ہم آہنگی کی بارہا تحریری و تصویری تصدیق بھی کی گئی۔اب نئے سال میں حکومت ، فوجی قیادت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہیں۔اللہ تعالی اس تکون کو سلامت رکھے۔یہ ہیں تو ہم ہیں۔
قومی مفاد سے متعلق تیز رفتار مثالی قانون سازی کی پلِ صراط سے گذرنے کے بعد اب سابق سلیکٹڈ حال الیکٹڈ حکومت اس قابل ہو گئی ہے کہ علاقائی و بین الاقوامی سطح پر اپنا بھرپور سفارتی کردار ادا کر سکے۔ گزشتہ برس وزیرِ اعظم متزلزل تھے کہ اپنی ہی تجویز کردہ کوالالمپور کانفرنس میں جائیں کہ نہ جائیں۔مگر بحمداللہ یہ معاملہ بھی فراست و خوش اسلوبی سے نپٹا لیا گیا۔
ہمارے برادر خلیجی ممالک بھی خوش ہیں اور برادر ملائشیا اور ترکی جنھوں نے کشمیر پر پاکستانی موقف کی پرجوش حمایت کی قیمت بھارت کے ساتھ اپنی تجارت کو کروڑوں ڈالر کے نقصان کی شکل میں خندہ پیشانی سے جھیلی۔ اب یہ دونوں برادر بھی پاکستان کی یوٹرانہ خارجہ پالیسی سے دوستانہ انداز میں زیرِلب شاکی ہونے کے بعد ہماری مجبوریوں ، مسائل ، سوچ اور عادت کو گزشتہ برس سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے لگے ہیں۔
ثبوت یہ ہے کہ اگلے ماہ ترک صدر اردوان اسلام آباد تشریف لا رہے ہیں اور خان صاحب کوالالمپور جا رہے ہیں تاکہ تینوں ممالک کی پکی والی دوستی سیریل کے بیچ جو اشتہاری وقفہ آ گیا ہے اس کے بعد کی کہانی آگے بڑھ سکے۔
پاکستان کی نئے سال میں بڑھتی ہوئی خارجہ اہمیت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران امریکا شخشخے کے تازہ مرحلے میں بھارت دور دور نظر نہیں آ رہا۔امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اس بحران کے دوران افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو براہ راست فون کیا مگر اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کو ایک بار بھی فون نہیں کیا۔
چنانچہ جے شنکر کو ایرانی اور امریکی وزیرِ خارجہ کو خود فون کر کے پوچھنا پڑا کہ ہمارے لائق کوئی خدمت ؟ تس پر دونوں طرف سے جواب ملا نو تھینک یو۔اور تو اور ٹرمپ نے اپنے جپھی باز دوست مودی کو بھی پچھلے کئی ماہ سے فون نہیں کیا۔چنانچہ آٹھ جنوری کو خود مودی نے نئے سال کی مبارک باد کے بہانے ٹرمپ کو فون کیا۔دوسری جانب سے جواب آیا کہ صدر صاحب اس وقت میٹنگ میں ہیں۔ آپ کے جذبات ان تک پہنچا دیے جائیں گے یاد فرمائی کا بہت بہت شکریہ۔
( یہ میں اپنی طرف سے نہیں گھڑ رہا بلکہ بھارتی میڈیا کے حوالے سے بتا رہا ہوں۔بھارتی میڈیا کے بقول اس بے اعتنائی اور نو لفٹ کی وجہ کشمیر اور پھر شہریت کے قانون میں ہونے والی ترمیم کے ردِعمل میں بھارت کے اندر اور باہر مودی حکومت کے امیج کو جس منفیت کا سامنا ہے اور اس منفیت کے سبب بھارت میں غیرملکی سرمایہ کار نے مزید پیسہ لگانے سے جس طرح ہاتھ روک لیا ہے۔اس کے سبب بھارت کی علاقائی اور سفارتی اہمیت کو بھی دھکا پہنچا ہے )۔
چنانچہ اندرون و بیرونِ ملک تیزی سے موافق ہونے والی صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان نے ایک بار پھر امریکا، ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کرانے کے لیے اپنی خدمات یکطرفہ طور پر پیش کر دی ہیں۔وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان میں چند روزہ قیام کے بعد ایک بار پھر ریاض ، تہران اور واشنگٹن کے دورے پر روانہ ہونے والے ہیں تاکہ محمد بن سلمان ، حسن روحانی اور ٹرمپ کو تعلیم کر سکیں کہ کشیدگی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ ملکوں کو صلح صفائی سے رہنا چاہیے اور اپنے معاملات پرامن انداز میں حل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاملات میں دخیل ہوئے بغیر باہمی سالمیت اور اقتدارِ اعلیٰ کا احترام کرنا چاہیے۔ پاکستان پچھلے چالیس برس میں جن حالات سے گذرا ہے ان سے حاصل تلخ تجربات کی روشنی میں پاکستان کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ ایران ، سعودی عرب یا امریکا ایسے حالات سے گزریں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
اس رضاکارانہ و یکطرفہ ثالثانہ رویے کے عوض پاکستان کو نہ ستائش کی تمنا ہے نہ صلے کی پرواہ۔جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔فقیرانہ آئے صدا کر چلے میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔۔۔ ہم فقیروں سے دوستی کر لے ، گر سکھا دیں گے بادشاہی کا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
اس دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی ایک بار پھر واشگاف انداز میں گزشتہ روز دنیا کو بتا دیا ہے کہ پاکستان نے تلخ ماضی سے سیکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ نہ ہم اپنی سرزمین کسی کو استعمال کرنے دیں گے ، نہ خود کسی کے مفادات کے لیے استعمال ہوں گے اور نہ ہی آیندہ کسی جنگ کا حصہ بنیں گے۔
اس پر مجھے دو ہزار دس کا ایک قصہ یاد آ رہا ہے۔ پاکستان کا تینتیس فیصد رقبہ سیلاب اور بارشوں کے سبب زیرِ آب آ چکا تھا۔میں رپورٹنگ کرتے کرتے ٹھٹھہ پہنچ گیا۔ایک دریائی پشتہ اونچا کرنے کے کام پر بہت سے مزدور لگے ہوئے تھے۔کوئی پتھر ڈھو رہا تھا ، کوئی مٹی بھر بھر کے اوپر پہنچا رہا تھا۔ان سب مزدوروں کو ایک سپروائزر ہدایات دے رہا تھا۔
میں نے سپروائزر سے پوچھا کیا یہ پشتہ سیلاب کا دباؤ برداشت کر لے گا۔کہنے لگا سائیں جب تک پانی نہیں آتا تب تک یہ پشتہ بہت مضبوط ہے باقی اللہ خیر کرے گا۔
ارے یاد آیا کل کے اخبارات میں یہ خبر بھی چھپی کہ کراچی کے ابراہیم حیدری گوٹھ کے ایک گدھا گاڑی بان میر حسن نے خود پر تیل چھڑک کے خود کشی کر لی۔بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی مسلسل غربت کے ہاتھوں بیوی اور پانچ بچوں کی فرمائشوں سے پریشان تھا۔آخری فرمائش یہ تھی کہ ہمیں گرم کپڑے لا کے دو۔مرنے سے پہلے میر حسن نے کسی بچے کی کاپی کا ورق پھاڑ کر یہ ٹوٹی پھوٹی تحریر چھوڑی
''اسلام و علیکم جناب وزیرِ اعظم صاحب۔ہم غریب مسکین ہے ، ہمارا درخواست کرتے ہیں کہ گھر لے کر دو اور میری بچی مدرسے داخلا دو نا ، آج پٹرول ڈال زنگی تنگ خود کشی کرتا ہو۔میر حسن ''۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)