امریکا تباہی کے راستے پر
ٹرمپ کواصل میں اس کے خلاف ہی اپنی تمام پابندیوں اوردھمکیوں کا زوردکھانا چاہیے تھا مگروہ اسے چھوڑ ایران کے پیچھے پڑگئے۔
دنیا میں امن قائم کرنے میں مدد کرنے کے بجائے اسے جنگ کی آگ میں دھکیلنا سراسر ظلم ہے مگر ٹرمپ جب سے امریکا کے صدر بنے ہیں وہ دنیا کو آگ کے شعلوں کے حوالے کرنے کے لیے بے چین و بے قرار نظر آتے ہیں۔ اس آگ کو بھڑکانے کے لیے ویسے تو شمالی کوریا سے امریکی مخاصمت ہی کافی تھی کیونکہ وہ تو سراسر امریکی احکامات کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ امریکا کو کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ جب ہی تو وہ جب چاہتا ہے نت نئے خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کرتا رہتا ہے۔
ٹرمپ کو اصل میں اس کے خلاف ہی اپنی تمام پابندیوں اور دھمکیوں کا زور دکھانا چاہیے تھا مگر وہ اسے چھوڑ ایران کے پیچھے پڑ گئے۔ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی ایران کے ساتھ اوبامہ کے دور میں ہونے والے ایٹمی معاہدے کو یکسر ختم کردیا حالانکہ ایران اب بھی اس معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو انھی شرائط کے مطابق چلا رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایران پر نئی نئی پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر شمالی کوریا کے بجائے ایران کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اس کی وجہ اسرائیل ہے۔ ٹرمپ اسرائیل کو ایران کے ہر قسم کے حملے سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔
دراصل اس بات کا انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی بیڑہ اٹھا لیا تھا اس لیے کہ ان کی پوری انتخابی مہم کا خرچ یہودیوں نے اٹھایا تھا۔ حالانکہ ٹرمپ کی ایران پر یک طرفہ پابندیوں اور دھمکیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا چونکہ ایران کا بلا وجہ اسرائیل کو تباہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اسی لیے امریکی اتحادی بھی ٹرمپ کی ایران کے خلاف جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
شام کی تباہی سے اسرائیل کو فائدہ پہنچا ہے۔ عراق اور لیبیا کی تباہی کے بعد شام ہی ایک ایسا ملک تھا جو اسرائیل کو چیلنج کر سکتا تھا چنانچہ سعودی عرب کی وساطت سے امریکا نے شام میں باغیوں کا جال بچھا کر پہلے وہاں خانہ جنگی کرائی اور پھر خود شام پر حملہ آور ہو گیا۔ شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔
اب تک لاکھوں شامی ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں مگر وہاں بشارالاسد کی حکومت ابھی بھی قائم ہے وہ تو کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی اگر روس وہاں مداخلت نہ کرتا۔ بعد میں ایران بھی وہاں کے امریکا نواز باغیوں پر ٹوٹ پڑا۔ اب اگرچہ وہاں پہلے جیسی تباہی و بربادی کے مناظر نظر نہیں آتے مگر پھر بھی جنگ جاری ہے اس لیے کہ اب امریکا کی جگہ اسرائیل نے وہاں تباہی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ شام کے بعد اسرائیل کے لیے دوسرا بڑا خطرہ ایران ہے اس لیے کہ ایران عسکری لحاظ سے اس قابل ہے کہ وہ اسرائیل کو چیلنج کرسکتا ہے چنانچہ ٹرمپ کا اصل نشانہ ایران ہے۔
ایران سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ ویسے تو پہلے سے ہی جاری تھا مگر اب ٹرمپ کے حکم سے ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد ایئربیس پر ڈرون حملے کے ذریعے شہید کردیا گیا ہے۔ قاسم سلیمانی ایک اہم ایرانی جنرل تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ خامنہ ای کے بعد ایران میں سب سے زیادہ مقبولیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی حکمت عملی سے عراق پر امریکی تسلط کے باوجود وہاں کے عوام میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔
اس وقت عراق میں انھی کی کوششوں سے وہاں کے عوام میں ایران کے حق میں اور امریکا کے خلاف جذبات ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ اب عراقی عوام واضح طور پر امریکی فوجوں کے وہاں سے نکلنے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں اور عوامی آواز پر ہی لبیک کہتے ہوئے وہاں کی پارلیمان نے امریکی فوج کے عراق سے فوری نکل جانے کی قرارداد منظورکر لی ہے۔ ایرانی جنرل کی شہادت کا ایران کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی سوگ منایا گیا ہے۔
ان کی میت کو عراق سے ایران بھیجتے وقت ہزاروں عراقی جلوس کی شکل میں موجود تھے وہاں ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی گئی تھی جس کی امامت ایک پاکستانی عالم نے کی تھی۔ عراق میں بڑھتا ہوا ایرانی اثرورسوخ ٹرمپ کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہو رہا ہے۔ خاص طور پر عراقی پارلیمنٹ کی امریکی فوج کے فوری عراق سے نکلنے کی قرارداد پر وہ پھٹ پڑے ہیں اور عراق پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے لگتا ہے وہ اس وقت ایران کے خلاف کسی بڑی کارروائی کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ اس کارروائی کے لیے انھیں ایران کے پڑوسیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔
ایسے وقت میں امریکا کی نظریں پھر پاکستان پر ہیں وہ اب افغانستان کے بعد ایران کے خلاف پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی طالبان کے خلاف استعمال ہونے سے تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان مسلسل بیس برس تک دہشتگردوں کے رحم و کرم پر رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اب پاکستانی بہادر فوج نے حالات پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ ملک میں اب دہشتگردی کا قلع قمع ہو چکا ہے مگر افسوس کہ چند دن قبل امریکی حکومت نے اپنے سول طیاروں کو وارننگ جاری کی ہے کہ وہ پاکستانی فضائی حدود کو استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ پاکستان میں دہشت گرد چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے ان پر حملہ کرسکتے ہیں۔ یہ سراسر پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
دراصل امریکا کو پاکستان کا امن کھٹک رہا ہے حالانکہ پاکستان کو دہشتگردی کی دلدل میں پھنسانے کا ذمے دار وہ خود ہے لگتا ہے یہ پینٹاگون کی شرارت ہے جو بھارت کے ایما پر کی گئی ہے حکومت پاکستان کو اس شرارت کا نوٹس لے کر امریکا سے شدید احتجاج کرنا چاہیے۔ امریکا نے گزشتہ ماہ پاکستان کو زک پہنچانے کی ایک اور گھٹیا کوشش کی تھی۔ امریکا سے جاری ہونے والی دنیا بھر کی اقلیتوں کے بارے میں رپورٹ میں پاکستان کو اقلیتوں کے لیے ایک انتہائی غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے جب کہ پاکستان میں تمام اقلیتیں بالکل محفوظ ہیں البتہ بھارت میں اقلیتوں کو سرکاری سطح پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے باوجود امریکی رپورٹ میں بھارت کا نام سرے سے غائب ہے۔ اس امریکی زیادتی کا ہمارے دفتر خارجہ نے سخت نوٹس لیا تھا اور اسے جانبداری پر مبنی سازشی رپورٹ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
اب امریکی وزیر خارجہ مسٹر پومپیو نے ایران سے اپنی کشیدگی کے حوالے سے ہمارے آرمی چیف کو اہم فون کیا ہے ہمارے تجزیہ کاروں نے اس کال کا نوٹس لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جب کہ پاکستان میں جمہوری حکومت قائم ہے تو امریکی وزیر خارجہ کو پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کرنا چاہیے تھی۔
بہرحال لگتا ہے امریکا پاکستانی سرزمین کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے مگر اب پاکستان کو امریکی خواہش کو سختی سے رد کر دینا چاہیے اس لیے کہ اب دوبارہ پاکستان امریکا کی وجہ سے دہشتگردی کا گڑھ بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دراصل پہلے بات اور تھی اس وقت پاکستان میں ایک آمرانہ حکومت قائم تھی جس میں صرف ایک آدمی کا حکم حتمی ہوتا تھا کیونکہ وہ کسی پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں تھا مگر اب تو عوام کی منتخب کردہ با اختیار پارلیمنٹ موجود ہے اور ملکی اہمیت کے فیصلے کرنے کی وہی مجاز ہے۔ یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں ہے کہ موجودہ امریکی حکومت کٹر بھارت نواز ہے وہ بھارت کے کہے میں ہی پاکستان کو ہر محاذ پر نقصان پہنچانے کے در پے ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر وہ بھارتی موقف کی حمایتی ہے۔ اب یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا نام نہاد حصہ بنانے کی جو کارروائی کی ہے وہ امریکی اشارے پر ہی کی گئی ہے ورنہ بھارت میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی طرف سے قائم کردہ اسٹیٹس کو کو توڑ سکتا۔ اس وقت امریکا دنیا کے سفید و سیاہ کا مالک بنا ہوا ہے وہ اپنی طاقت کے زعم میں کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرسکتا ہے مگر امریکی حکمرانوں کو نازی جرمنی اور اس کے مغرور حکمران ہٹلر کا حشر ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ ہٹلر بھی اپنی طاقت کے زور پر جو کرنا چاہتا تھا کر گزرتا تھا اور کوئی ملک اس کے خلاف مزاحمت کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔
اس نے پولینڈ اور چیکوسلواکیہ پر قبضہ کرکے پوری دنیا پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی مگر پھر اٹلی اور جاپان کو چھوڑ کر پوری دنیا نے مل کر اس کے ظلم اور غرورکا سر کچل دیا تھا۔ امریکی زیادتیاں اور تکبر روزبروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اس کے رویے سے اس کے اپنے حلیف بھی خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑی تو یہ بالآخر امریکی بالادستی کو خاک میں ملا کر ہی ختم ہوگی۔
ٹرمپ کو اصل میں اس کے خلاف ہی اپنی تمام پابندیوں اور دھمکیوں کا زور دکھانا چاہیے تھا مگر وہ اسے چھوڑ ایران کے پیچھے پڑ گئے۔ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی ایران کے ساتھ اوبامہ کے دور میں ہونے والے ایٹمی معاہدے کو یکسر ختم کردیا حالانکہ ایران اب بھی اس معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو انھی شرائط کے مطابق چلا رہا ہے مگر اس کے باوجود بھی ایران پر نئی نئی پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آخر شمالی کوریا کے بجائے ایران کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اس کی وجہ اسرائیل ہے۔ ٹرمپ اسرائیل کو ایران کے ہر قسم کے حملے سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔
دراصل اس بات کا انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی بیڑہ اٹھا لیا تھا اس لیے کہ ان کی پوری انتخابی مہم کا خرچ یہودیوں نے اٹھایا تھا۔ حالانکہ ٹرمپ کی ایران پر یک طرفہ پابندیوں اور دھمکیوں کا کوئی جواز نہیں بنتا چونکہ ایران کا بلا وجہ اسرائیل کو تباہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اسی لیے امریکی اتحادی بھی ٹرمپ کی ایران کے خلاف جارحیت کی مخالفت کر رہے ہیں۔
شام کی تباہی سے اسرائیل کو فائدہ پہنچا ہے۔ عراق اور لیبیا کی تباہی کے بعد شام ہی ایک ایسا ملک تھا جو اسرائیل کو چیلنج کر سکتا تھا چنانچہ سعودی عرب کی وساطت سے امریکا نے شام میں باغیوں کا جال بچھا کر پہلے وہاں خانہ جنگی کرائی اور پھر خود شام پر حملہ آور ہو گیا۔ شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔
اب تک لاکھوں شامی ہلاک ہوچکے ہیں اور لاکھوں نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں مگر وہاں بشارالاسد کی حکومت ابھی بھی قائم ہے وہ تو کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی اگر روس وہاں مداخلت نہ کرتا۔ بعد میں ایران بھی وہاں کے امریکا نواز باغیوں پر ٹوٹ پڑا۔ اب اگرچہ وہاں پہلے جیسی تباہی و بربادی کے مناظر نظر نہیں آتے مگر پھر بھی جنگ جاری ہے اس لیے کہ اب امریکا کی جگہ اسرائیل نے وہاں تباہی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ شام کے بعد اسرائیل کے لیے دوسرا بڑا خطرہ ایران ہے اس لیے کہ ایران عسکری لحاظ سے اس قابل ہے کہ وہ اسرائیل کو چیلنج کرسکتا ہے چنانچہ ٹرمپ کا اصل نشانہ ایران ہے۔
ایران سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ ویسے تو پہلے سے ہی جاری تھا مگر اب ٹرمپ کے حکم سے ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد ایئربیس پر ڈرون حملے کے ذریعے شہید کردیا گیا ہے۔ قاسم سلیمانی ایک اہم ایرانی جنرل تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ خامنہ ای کے بعد ایران میں سب سے زیادہ مقبولیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی حکمت عملی سے عراق پر امریکی تسلط کے باوجود وہاں کے عوام میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔
اس وقت عراق میں انھی کی کوششوں سے وہاں کے عوام میں ایران کے حق میں اور امریکا کے خلاف جذبات ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔ اب عراقی عوام واضح طور پر امریکی فوجوں کے وہاں سے نکلنے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں اور عوامی آواز پر ہی لبیک کہتے ہوئے وہاں کی پارلیمان نے امریکی فوج کے عراق سے فوری نکل جانے کی قرارداد منظورکر لی ہے۔ ایرانی جنرل کی شہادت کا ایران کے ساتھ ساتھ عراق میں بھی سوگ منایا گیا ہے۔
ان کی میت کو عراق سے ایران بھیجتے وقت ہزاروں عراقی جلوس کی شکل میں موجود تھے وہاں ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی گئی تھی جس کی امامت ایک پاکستانی عالم نے کی تھی۔ عراق میں بڑھتا ہوا ایرانی اثرورسوخ ٹرمپ کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہو رہا ہے۔ خاص طور پر عراقی پارلیمنٹ کی امریکی فوج کے فوری عراق سے نکلنے کی قرارداد پر وہ پھٹ پڑے ہیں اور عراق پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے لگتا ہے وہ اس وقت ایران کے خلاف کسی بڑی کارروائی کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ اس کارروائی کے لیے انھیں ایران کے پڑوسیوں کی مدد کی ضرورت ہے۔
ایسے وقت میں امریکا کی نظریں پھر پاکستان پر ہیں وہ اب افغانستان کے بعد ایران کے خلاف پاکستانی سرزمین کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی طالبان کے خلاف استعمال ہونے سے تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان مسلسل بیس برس تک دہشتگردوں کے رحم و کرم پر رہا ہے۔ خوش قسمتی سے اب پاکستانی بہادر فوج نے حالات پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ ملک میں اب دہشتگردی کا قلع قمع ہو چکا ہے مگر افسوس کہ چند دن قبل امریکی حکومت نے اپنے سول طیاروں کو وارننگ جاری کی ہے کہ وہ پاکستانی فضائی حدود کو استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ پاکستان میں دہشت گرد چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے ان پر حملہ کرسکتے ہیں۔ یہ سراسر پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
دراصل امریکا کو پاکستان کا امن کھٹک رہا ہے حالانکہ پاکستان کو دہشتگردی کی دلدل میں پھنسانے کا ذمے دار وہ خود ہے لگتا ہے یہ پینٹاگون کی شرارت ہے جو بھارت کے ایما پر کی گئی ہے حکومت پاکستان کو اس شرارت کا نوٹس لے کر امریکا سے شدید احتجاج کرنا چاہیے۔ امریکا نے گزشتہ ماہ پاکستان کو زک پہنچانے کی ایک اور گھٹیا کوشش کی تھی۔ امریکا سے جاری ہونے والی دنیا بھر کی اقلیتوں کے بارے میں رپورٹ میں پاکستان کو اقلیتوں کے لیے ایک انتہائی غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے جب کہ پاکستان میں تمام اقلیتیں بالکل محفوظ ہیں البتہ بھارت میں اقلیتوں کو سرکاری سطح پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کے باوجود امریکی رپورٹ میں بھارت کا نام سرے سے غائب ہے۔ اس امریکی زیادتی کا ہمارے دفتر خارجہ نے سخت نوٹس لیا تھا اور اسے جانبداری پر مبنی سازشی رپورٹ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
اب امریکی وزیر خارجہ مسٹر پومپیو نے ایران سے اپنی کشیدگی کے حوالے سے ہمارے آرمی چیف کو اہم فون کیا ہے ہمارے تجزیہ کاروں نے اس کال کا نوٹس لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جب کہ پاکستان میں جمہوری حکومت قائم ہے تو امریکی وزیر خارجہ کو پاکستانی وزیر خارجہ سے بات کرنا چاہیے تھی۔
بہرحال لگتا ہے امریکا پاکستانی سرزمین کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے مگر اب پاکستان کو امریکی خواہش کو سختی سے رد کر دینا چاہیے اس لیے کہ اب دوبارہ پاکستان امریکا کی وجہ سے دہشتگردی کا گڑھ بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دراصل پہلے بات اور تھی اس وقت پاکستان میں ایک آمرانہ حکومت قائم تھی جس میں صرف ایک آدمی کا حکم حتمی ہوتا تھا کیونکہ وہ کسی پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں تھا مگر اب تو عوام کی منتخب کردہ با اختیار پارلیمنٹ موجود ہے اور ملکی اہمیت کے فیصلے کرنے کی وہی مجاز ہے۔ یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں ہے کہ موجودہ امریکی حکومت کٹر بھارت نواز ہے وہ بھارت کے کہے میں ہی پاکستان کو ہر محاذ پر نقصان پہنچانے کے در پے ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر وہ بھارتی موقف کی حمایتی ہے۔ اب یہ بھی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ مودی نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا نام نہاد حصہ بنانے کی جو کارروائی کی ہے وہ امریکی اشارے پر ہی کی گئی ہے ورنہ بھارت میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی طرف سے قائم کردہ اسٹیٹس کو کو توڑ سکتا۔ اس وقت امریکا دنیا کے سفید و سیاہ کا مالک بنا ہوا ہے وہ اپنی طاقت کے زعم میں کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرسکتا ہے مگر امریکی حکمرانوں کو نازی جرمنی اور اس کے مغرور حکمران ہٹلر کا حشر ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔ ہٹلر بھی اپنی طاقت کے زور پر جو کرنا چاہتا تھا کر گزرتا تھا اور کوئی ملک اس کے خلاف مزاحمت کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔
اس نے پولینڈ اور چیکوسلواکیہ پر قبضہ کرکے پوری دنیا پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی تھی مگر پھر اٹلی اور جاپان کو چھوڑ کر پوری دنیا نے مل کر اس کے ظلم اور غرورکا سر کچل دیا تھا۔ امریکی زیادتیاں اور تکبر روزبروز بڑھتا ہی جا رہا ہے اس کے رویے سے اس کے اپنے حلیف بھی خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑی تو یہ بالآخر امریکی بالادستی کو خاک میں ملا کر ہی ختم ہوگی۔