’’ٹائم شپ پروجیکٹ‘‘ ۔۔۔ جیون جما دیا جائے گا

انجماد کے ذریعے طویل زندگی دینے کا منصوبہ کیا ہے


انجماد کے ذریعے طویل زندگی دینے کا منصوبہ کیا ہے

صدیوں سے سائنس داں، لکھاری اور فلسفی صرف اس سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ کیا مستقبل کے اندر سفر کیا جاسکتا ہے؟ لیکن آج تک اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا۔

لیکن امریکا کی ریاست ٹیکساس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آبادی سے دور 800 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ایک عظیم الشان عمارت موجود ہے جہاں دنیا بھر کے بہترین آرکیٹیکچرز، انجنیئرز اور سائنس دانوں پر مشتمل ایک گروہ ''ٹائم شپ'' بنا رہا ہے جس کے ذریعے 10 ہزار لوگوں کو مستقبل کی یاترا پر لے کر جایا جائے گا۔ لیکن کسی ٹائم مشین کے ذریعے نہیں اور نہ ہی روشنی کی رفتار سے خلا میں سفر کرایا جائے گا اور نہ ہی اس یاترا کے لیے کائنات میں موجود کسی بلیک ہول کو استعمال کیا جائے گا۔

دراصل ''ٹائم شپ'' کا مقصد لوگوں کو کم ترین درجۂ حرارت پر محفوظ کرنا ہے جہاں اُن کے جسم مستقبل کی زندگی کے لیے دست یاب ہوں گے۔ اس طریقۂ کار کو ''انجمادیات (Cryonics) '' کے نام سے عام طور پرجانا جاتا ہے۔ یعنی ''ٹائم شپ'' ایک ایسے اسپیس شپ یا خلائی جہاز کی مانند ہے جس کی مدد سے لوگ مستقبل میں خلا میں ایک اور زندگی گزار سکیں گے۔ اسٹیفن ویلنٹائن (Stephen Valentine ) جو کہ اس ٹائم شپ نامی محیرالعقول منصوبے کے خالق ہیں۔

اس منصوبہ کے لیے کھربوں ڈالر کا بجٹ رکھتے ہیں جو کہ انہیں دنیا بھر کی حکومتوں اور شخصیات کی طرف سے ''ٹائم شپ'' نامی اس مبہم خیال کو حقیقت کے روپ میں بدلنے کے لیے ملا ہے۔ جہاں اس عظیم الشان عمارت میں لوگوں کو مستقبل کے لیے منجمد کر کے رکھنے کا منصوبہ ہے وہیں ''ٹائم شپ '' میں اس چیز کی منصوبہ بندی بھی کی جارہی ہے کہ اہم ترین انسانی اعضا ء مثلاًدل، جگر، اسٹیم سیلز اور ڈی این اے وغیرہ بھی غیرمعینہ مدت کے لیے محفوظ کیے جائیں اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں یہ اعضاء محفوظ بھی کرلیے گئے ہیں جنہیں مستقبل کے انسانوں کے لیے بطور اسپیئر پارٹس استعمال میں لایا جائے گا۔

اس وقت ٹائم شپ منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا زندگی کی توسیع کا تحقیقاتی ادارہ (The Stasis Research Park) بھی ہے۔ اس کے تخلیق کاروں کے بقول اس جگہ کو ہر لحاظ سے محفوظ بنایا گیا ہے یہاں عام بجلی کے بجائے ہوا اور سورج کی روشنی کو بطور توانائی استعمال کیا گیا ہے اور زمین کے ایسے حصہ کو استعمال کیا گیا ہے جہاں کئی صدیوں تک زلزلوں، برف باری، طوفانوں یا قدرتی آفتوں کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حتیٰ کے اس جگہ کو ہر قسم کی عالمی جنگ اور ایٹمی دھماکے سے بھی محفوظ رہنے کے قابل بنایا گیا ہے۔ ویلنٹائن کے مطابق اس نے صرف پانچ سال تو اس جگہ کو تلاش کرنے اور منصوبہ کے تمام امور کا جائزہ لینے میں لگائے ہیں۔

اس دوران اس نے اہرام کی بناوٹ تاریخی مقبروں، قدیم رصدگاہوں اور قرونِ وسطی کے قلعوں کی تعمیرات کا گہرا مطالعہ کیا اس کے ساتھ ساتھ اس نے دنیا بھر کے ماہرین تعمیرات اور انجمادیات (Cryonics) کے محققین سے بھی تفصیلی مشورے کیے کہ کیسے ''ٹائم شپ'' کو قرب و جوار میں ہونے والے دو میگا ٹن کے ایٹمی دھماکے اور اس کے تابکاری اثرات سے بچایا جاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ قلعہ نما ''ٹائم شپ'' دوہری اور باریک ہلکے درجۂ حرارت کی حامل دیواروں کے درمیان کسی مقبرہ یا حجرہ نما صورت میں تعمیر کیا گیا جس میں ہزاروں مقناطیسی صندوق سخت حفاظتی حصار میں محفوظ کیے گئے ہیں۔

جسم کو منجمد کرنے کا اصل طریقۂ کار کیا ہوگا فی الحال یہ واضح نہیں لیکن شاید یہ جسمانی وجود کو کسی سیال مادے کے ذریعے برف کے ٹکڑوں کی طرح محفوظ کرنے جیسا ہے۔ مقناطیسی صندوق منجمد رہنے کے لیے اسی سیال مادے جو کہ نائٹروجن پر مشتمل ہوگا جسم کو کم و بیش 130 منفی سینٹی گریڈ یا اس سے بھی کم درجۂ حرارت پر برقرار رکھے گا بغیر کسی بجلی یا انسانی دیکھ بھال کے۔ ویلنٹائن کو اُمید ہے کہ وہ اپنا پہلا تجرباتی نمونہ اس مقناطیسی صندوق میں اگلے سال شروع کرلے گا۔



یاد رہے کہ پچاس سال پہلے جیمز بیڈ فورڈ وہ پہلا شخص تھا جس نے انجمادیات (Cryonics) کے نظریے کو عملی طور پر قابلِ عمل ثابت کیا اور آج بھی اس کا جسم ایک کولڈ اسٹوریج میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری تنظیمیں اور کمپنیاں اس سے ملتی جلتی خدمات کئی دہائیوں سے پیش کر رہی ہیں مگر انسانی جسم منجمد کرکے محفوظ کرنے کے ان کے طریقے کچھ زیادہ حوصلہ افزا نتائج نہیں دے سکے مگر ایک بات ضرور ہے کہ انسانی اسٹیم سیلز، اسپرم، ایگز، ایمبرائز اور دیگر چھوٹے ٹشوز یعنی بافتیں سائنسی تحقیقات کے لیے منجمد کرکے محفوظ کرنا ایک عام سی بات ہے۔ 2003 ؁ء میں گریگوری فے نے ایک ٹیم کے ہمراہ ایک مکمل خرگوش کو منجمد کرکے محفوظ کیا تھا۔ بعدازاں اسی خرگوش کے گردے کو ایک اور خرگوش کے گردے کے ساتھ تبدیل کردیا گیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تبدیل شدہ گردہ نے نئے خرگوش کے جسم میں بالکل ایک عام گردے کی طرح کام کیا۔ اس طرح کے حوصلہ افزا نتائج نے ہی ویلنٹائن اور اس کے معاونین کا حوصلہ بڑھا یا کہ وہ ٹائم شپ کے منصوبہ کو قابل عمل بنا سکتے ہیں۔

بہرحال ایک بات طے ہے کہ انجمادیات(Cryonics) ایک منفرد خیال ہے جسے 100 فی صد عملی طور پر ثابت کرنا اب تک ممکن نہیں ہوسکا، جن لوگوں نے اب تک ایک خطیر رقم کے عوض اپنے جسم کو محفوظ رکھنے کے لیے بکنگ کروائی ہوئی ہے اُس کے پیچھے اُن کی صرف یہ اُمید ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ منصوبہ ضرور کام یابی سے ہمکنار ہوگا اور جب وہ دن آئے گا تو سب سے پہلے اُن کے جسموں کو ہی زندگی سے ہمکنار کیا جائے گا۔ پروفیسر برین گراؤٹ جو کہ عالمی تنظیم برائے انجمادیات (Cryonics) حیاتیات کے منتظم اعلیٰ ہیں، کہتے ہیں کہ ''انجمادیات (Cryonics) کے سلسلے میں حالیہ سالوں میں جو بھی تحقیقات کی گئی ہیں وہ بہت حوصلہ افزا اور قابلِ عمل ثابت ہوئی ہیں۔ اس لیے اس بات کا کلیتاً انکار کرنا کہ اس طریقہ کار کے تحت انسانی جسم کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں ایک بے وقوفی یا خام خیالی ہوگی۔

میں بہرحال یہ بے وقوفی نہیں کرنے والا اس لیے میں آنے والے دنوں میں اپنے آپ کو ٹائم شپ منصوبہ کا انتہائی متحرک کردار خیال کرتا ہوں۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انجمادیات (Cryonics) کے ذریعے سے ہم انسان کو آنے والی صدیوں کے لیے محفوظ کرسکتے ہیں یا نہیں بلکہ اصل سوال جس کا ہمیں جواب تلاش کرنا ہے وہ یہ ہے کہ آنے والے زمانے میں ہم انجمادیات (Cryonics) کے ذریعے محفوظ کیے ہوئے انسان کو دوبارہ سے قابل ِ حرکت ایک زندہ انسان میں کیسے تبدیل کریں گے اور دوسرا اہم سوال اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں ہے۔''

اسٹیفن ویلنٹائن ٹائم شپ کے حوالے کسی بھی قسم کی قانونی پیچیدگی کو رد کرتے ہیں اور وہ جو دلیل پیش کرتے ہیں وہ کافی مضبوط اور قابلِ قبول محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس کے لیے حال ہی میں برطانیہ کی عدالت میں چلنے والے ایک عجیب و غریب کیس کی مثال بھی دیتے ہیں جس میں ایک 14 سالہ بچی نے جو کہ کینسر کے جان لیوا عارضہ کا شکار تھی اپنی موت سے قبل ایک خط میں انجمادیات (Cryonics) کے ذریعے خود کو منجمد کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر جج نے اُس بچی کی خواہش کو تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ اس بچی کے جسم کو امریکا میں ٹائم شپ پروجیکٹ میں محفوظ کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ اُس بچی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ''میری عمر 14 سال ہے اور میں ابھی مرنا نہیں چاہتی لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میں بہت جلد مرنے والی ہوں۔ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ ٹائم شپ پروجیکٹ کے ذریعے مجھے ایک موقع ملے اور میں کئی سو سال بعد دوبارہ سے جاگ کر اپنی زندگی کا ازسرِنو آغاز کرسکوں۔''

اب دوسرا اہم ترین سوال یہ ہے کہ سیکڑوں سال بعد وہ کون لوگ ہوں گے جو ٹائم شپ پروجیکٹ کے لوگوں دوبارہ سے بیدار کریں گے اور کیا یہ ممکن بھی ہو سکے گا؟ اس سوال کے جواب میں ویلنٹائن کا کہنا ہے کہ ''ہمیں اس بارے میں پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آنے والے زمانے میں انسان ضرور اس قابل ہوجائے گا کہ وہ ٹائم شپ کے محفوظ انسانوں کو بیدار کر کے دوبارہ سے انہیں دنیا میں زندگی گزارنے کے قابل بنا سکے، بلکہ میرا تو یہ بھی خیال ہے کہ بہت جلد لوگوں کے ذہن ہمارے منصوبے سے ہم آہنگ ہونے والے ہیں۔ بس کوئی ایک واقعہ ہمیں ایسا درکار ہے جس میں سائنس داں صرف ایک خرگوش کو انجمادیات (Cryonics) کے ذریعے واپس نئی زندگی میں لے آئیں۔ بس پھر آپ دیکھیں گے کہ کس تیزی سے لوگ ہمارے منصوبے میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہوجائیں گے اور پھر انہیں ہمارے منصوبے میں رکنیت حاصل کرنے کی 323000 ڈالر کی فیس زیادہ بھی محسوس نہیں ہوگی۔''

کیا ٹائم شپ مستقبل میں واقعی سفر کرسکے گا؟ کیا ٹائم شپ کے تمام شرکاء مستقبل میں اپنے آپ کو زندہ دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے؟ یہ منصوبہ کروڑوں روپے کا جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ ٹائم شپ خلا میں بھٹکتا ہوا انسانوں قبرستان تو نہیں بن جائے گا؟ ان تمام سوالوں کے درست جوابات حاصل کرنے کا بس ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ جدید انسان کو اعصاب جما دینے والا ایک طویل بلکہ شاید بہت ہی طویل انتظار کرنا ہوگا۔

ٹائم شپ پروجیکٹ کو سمجھیے ذرا فلمی انداز میں
لوگوں کا عام خیال یہ ہی ہے کہ سائنسی انکشافات و نظریات کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا اور یہ تصور کچھ اتنا بے محل اور بے جا بھی نہیں ہے بالخصوص اگر سائنسی انکشافات مستقبل میں رونما ہونے والی ایجادات و اختراعات سے متعلق ہوں تو بلاشبہ اُنہیں صرف تحریر یا تقریر کی مدد سے سمجھ لینا کسی عام شخص کے لیے کچھ اور بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔

اس طرح کے سائنسی خیالات کی عام تفہیم کے لیے تحریر و تقریر سے ہٹ کر بھی ابلاغ کے کچھ خصوصی ذرائع سے مدد لی جاتی ہے، جس میں سب سے مؤثر ترین ذریعہ یا میڈیم ''فلم'' ہے۔ دنیا بھر میں سائنس فکشن فلمیں اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھ کر بنائی جاتی ہیں تاکہ عام لوگوں کو پیچیدہ ترین سائنسی موضوعات کو عام فہم انداز میں سمجھنے میں آسانی میسر آسکے۔

''ٹائم شپ'' پروجیکٹ بھی مستقبل کا ایک ایسا ہی پیچیدہ سائنسی موضوع ہے، جسے صرف تحریر کی مدد سے مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکتا۔ قارئین کی اسی دقت کا ادراک کرتے ہوئے ہم ایک ایسی سائنس فکشن فلم کے بارے میں معلومات مہیا کررہے ہیں جو اپنے موضوع کے لحاظ سے ''ٹائم شپ پروجیکٹ'' کا مکمل طور پر احاطہ کرتی ہے۔ اس سائنس فکشن فلم کا نام پیسنجر (Passengers) ہے، جسے 2016 میں دنیا بھر میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔

اس فلم کے ہدایت کار مورٹن ٹائلڈم اور مصنف جان سپائی ٹس ہیں، جن دونوں کی شناخت ہی سائنس فکشن موضوعات پر کام یاب فلمیں بنانا ہے۔ مذکورہ سائنس فکشن فلم پیسنجر (Passengers) میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایوالن نامی ٹائم شپ دیوہیکل خلائی جہاز5000 ہزار مسافروں اور 258 عملے کے ارکان کو زمین سے کائنات کے ایک نئے سیارے ہومسٹیڈ پر لے کر جارہا ہے۔ یہ خلائی سفر 120 سال پر محیط ہے لیکن بدقسمتی سے یہ ٹائم شپ اپنے سفر کے 30 ویں سال ہی میں ایک شہاب ثاقب سے ٹکرا جاتا ہے جس کے باعث اس خلائی جہاز میں تیکنیکی خرابی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کا خود کار نظام رفتہ رفتہ بگاڑ کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ خود کار نظام کی خرابی کے باعث اس ٹائم شپ میں سوار ہزاروں مسافر جنہیں کرونیکل ٹیکنالوجی کے ذریعے ہبوط کر کے ایک سو دس سال کے لیے سلایا گیا ہوتا ہے، اُن میں سے تین مسافر جن میں سے ایک مکینکل انجنیئر، ایک لکھاری خاتون جب کہ ایک چیف ٹیک آفیسر ہوتا ہے، یکے بعد دیگرے90 سال قبل ہی جاگ جاتے ہیں۔

یہ تینوں قبل ازوقت جاگنے پر پہلے تو بہت پریشان ہوتے ہیں لیکن پھر بہت جلد ہی جان جاتے ہیں کہ ٹائم شپ میں بے شمار خامیاں پیدا ہوچکی ہیں اور اگر انہیں جلدازجلد مرمت نہیں کیا گیا تو ٹائم شپ کسی بھی وقت مکمل طور پر تباہ ہوسکتا ہے۔ ٹائم شپ میں سوئے ہوئے ہزاروں مسافروں کی جان بچانے کے لیے یہ تینوں مسافر کس قسم کے خطرات، دشواریوں اور مشکلات سے گزرتے ہیں یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ٹائم شپ کا خود کار نظام، جدید ترین سہولیات، ہو بہو انسان جیسے خدمت گار روبوٹ اور زمین سے منسلک مربوط مواصلاتی نظام جو 120 سالوں کے لیے بغیر انسان کی مدد کے چلنے کے لیے بنایا گیا ہوتا ہے۔

اس سائنس فکشن فلم کی جان ہے، جسے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل کا ''ٹائم شپ '' پروجیکٹ کس طرح کا ہوسکتا ہے۔ اپنے بہترین سائنس فکشن اسکور اور بہترین پروڈکشن ڈیزائن کی بدولت اس فلم نے نہ صرف 89th اکیڈمی ایوارڈ ز میں دو نامزدگیاں حاصل کی تھیں بلکہ یہ فلم دنیا بھر میں 303 ملین امریکی ڈالر کما کر بہترین کمائی کرنے والی سائنس فکشن فلموں کی فہرست میں جگہ بنانے میں بھی کام یاب رہی تھی۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں